"TSC" (space) message & send to 7575

ٹھاہ

ایک عدد ''دوست ایجنسی ‘‘ نے پیشین گوئی کی ہے کہ 14 اگست کو اسلام آباد میں حکومت کا ''ٹھاہ‘‘ نہیں ہو گا۔ 14اگست کی صبح اسلام آباد میں فوج پریڈ کرے گی ،شام کو عمران خان کا آزادی مارچ سجے گا جو بعدازاں ایک بڑے جلسے کی شکل سے دھرنے کی صورت اختیار کر لے گا۔ دھواں دار تقریریں ہوں گی، الزام تراشی بھی ہوگی، حکومت اوراس کے حواریوں کی کرپشن کی ہزار داستانیں بھی بیان کی جائیں گی‘ سب کچھ ہوگا مگر حکومت نہیں جائے گی... توکیا کھایا پیا کچھ نہیں‘ گلاس توڑا بارہ آنے والا منظر ہوگا؟ نہیں... ایسی بھی بات نہیں... اس دن شیروں کی حکومت کی دم کے پیچھے ایسا بھونڈ پٹاخہ باندھ دیاجائے گا جو تیزی سے سلگتاہوا اسے اس کے انجام''ٹھاہ ‘‘ تک لے جائے گا۔ یہاں ٹھاہ کی اصطلاح کے معنی اورتشریح سے پہلے یہ سمجھیے کہ اس اجتماع میں سب کچھ ہوگا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوگاکہ حکومت کو میرزا غالب سمجھ کر وقوعہ پر ہی اس کے پر زے اڑا دئیے جائیں کہ ؎ 
تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پر زے 
دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا 
مصرعہ ثانی کے بر خلاف وہاں تماشا ہوگا لیکن ٹھاہ نہیں ہو گا۔ اس کے لئے اگلی تاریخ دے دی جائے گی‘ جیسے بہاولپور کے جلسے میں اسلام آباد کے 14اگست کے جلسے کی تاریخ دی گئی تھی۔ '' فرہنگ آتشیں اسلحہ ودھماکہ ‘‘ کے مطابق ''ٹھاہ ‘‘ کا مطلب دھماکہ کے ہوتے ہیں لیکن تمثیلی اوراستعاراتی زبان میں اس سے مراد انجام اوراختتام بھی لیاجاتاہے۔ اطلاعات ہیں کہ خادم اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اوروزیر خزانہ اسحاق ڈار ''ٹریک 2 ڈپلومیسی ‘‘ کے تحت عمران خان سے رابطہ کررہے ہیں۔ ممکن ہے کہ کپتان خان احتجاجی ٹیسٹ سیریز کے بجائے دوستانہ میچ کھیلنے پر آمادہ ہوجائیں۔شیر الیون اوربَلا الیون کے مابین کھیلا جانے والایہ میچ 9 لاکھ سے زائد آئی ڈی پیز کی بحالی کے لئے ہو سکتا ہے جوکپتان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں مصیبتوں کا شکار ہیں اورجنہیں میاں برادران بھی اکیلے نہیں چھوڑنا چاہتے ۔ یہ الگ بات کہ میاں نوازشریف نے اس بار 9دن کا عمرہ کیا۔ ہمارے ہاں حکمران تین روزہ عمرہ کرتے ہیں لیکن 9لاکھ آئی ڈی پیز کے لئے وزیر اعظم نے بھی 9روزہ عمرہ کیا۔ نسبت اورتناسب کے اصول کے تحت 9روزہ عمرہ کرنے گنجائش تو موجود تھی ۔ ظاہر ہے عمرہ کے دوران وزیر اعظم نے قوم اور حکومت کو درپیش مشکلات اور مسائل کے حل کے لئے دعائیںبھی مانگیں ہوں گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ میڈیاوالی ''تسبیح‘‘ بھی کررہے ہیں۔ وزیراعظم نے جدے سے اپنے بیان میں کہا کہ ''عمران خان لانگ مارچ کی آڑ میں اصل ایجنڈے کی وضاحت کریں، انقلاب صرف جمہوریت سے ہی آسکتا ہے‘‘۔
عمران خان اورحکومت کے مابین مصالحت کی کوششیں بھی جاری ہیں۔میاں شہباز شریف نے میڈیا کے توسط سے عمران خان کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ اس سے قبل وزیر اعلیٰ پنجاب یہ کوشش چوہدری نثار علی خان کے ساتھ بھی کرچکے ہیں۔ خادم اعلیٰ اوروزیر خزانہ کی ان کوششوں کو ''ٹریک 2ڈپلومیسی ‘‘ کہنا چاہیے کیونکہ دونوں ٹیموں کے کپتانوں میاں محمد نوازشریف اورعمران خان میں براہ ِراست رابطہ نہیں ہوپارہا‘ جیسے رواں سال 12مارچ کے دن میاں صاحب اپنے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے ساتھ عمران خان کے گھر بنی گالہ چلے گئے تھے اوروہاں پنجابی کھابوں اورپشاوری قہوے سے ان کی تواضع کی گئی تھی ۔میاں نوازشریف ایک خوش خوراک وزیراعظم ہونے کے ساتھ ساتھ خوش لباس اورخوش گفتار انسان بھی ہیں‘ مجھے اس موقع پر عمران خان کیلئے ان کی کہی پھبتی بھولتی نہیں ہے ۔
میاں صاحب نے عمران خان کے پائوں میں نویں نکور پٹھانی چپل دیکھی تو کہا... خان صاحب!یہ چپل آپ کو طالبان نے تحفے میں دی ہے؟ میں اس بات پر شرط لگا سکتا ہوں کہ اگر بذلہ سنجی یا پھبتی ٹورنا منٹ ہو تو وزیراعظم میاں نوازشریف‘ عمران خان کی ضمانت ضبط کرادیں۔میں یہ شرط لگانے کے لئے بھی تیارہوںکہ ''میاں خان پھبتی ٹورنامنٹ ‘‘ پاکستان کے کسی حلقے میں بھی کرالیں نوازشریف ہیوی مینڈیٹ قرارپائیں گے۔ یقین سے کہہ سکتاہوں کہ مذکورہ انتخابات کو عمران خان دھاندلی زدہ بھی قرار نہیں دے سکیں گے۔آصف علی زرداری کی طرح کپتان خان اسے آر اوز کا الیکشن بھی نہیں کہہ سکیںگے۔نہ نکلیں گی ریلیاں‘ نہ ہوں گے دھرنے یعنی نہ بچے گا بانس‘ نہ بجے گی بانسری ۔باقی بچیں شیخ رشید کی پیشین گوئیاں اورتقریریں‘ ان کی ضرورت تو رہے گی‘ کیونکہ ٹاک شوز کا بازار شیخ رشید کے انٹرویوز کے بغیر نہیں سجتا۔شیخ رشید صاحب کو اپنی اس باکس آفس پوزیشن کا اندازہ بھی خوب ہے۔اس کا اظہار وہ گاہے بگاہے کرتے رہتے ہیں مگر توبہ کے انداز میں کانوں کو ہاتھ لگاکر جیسے کلاسیکی موسیقی اوردیگر فنون کے اساتذہ روایتی طور پر اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں لیکن اندر سے انہیں یقین ہوتاہے کہ مارکیٹ میں ان جیسا دوسرا کوئی نہیں ۔ 
68 ویں یوم آزادی کی دھوم اس بار کچھ زیادہ ہی بوم بوم لگ رہی ہے۔سنیئر قانون دان ایس ایم ظفر نے حکومت کی طرف سے آرٹیکل 245نافذ کرنے کی مخالفت کی ہے۔آرٹیکل 245وہ آئینی شق ہے جس کے تحت حکومت کسی متوقع خدشے سے محفوظ رہنے کیلئے فوج کو بلاسکتی ہے تاکہ وہ سول انتظامیہ کے ساتھ مل کر حالات پر کنٹرول کرے۔ ایس ایم ظفر نے خبر دار کرتے ہوئے کہاہے کہ '' اب بھی وقت ہے حکومت فوج طلب کرنے کا فیصلہ واپس لے اور انتظامیہ کے ذریعے حالات درست رکھنے کی کوشش کرے ۔اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تو اس کی ذمہ داری حکومت اورعمران خان‘ دونوں پر عائدہوگی ۔فوج کو طاقت کا استعمال کرنا پڑا تو یہ پاکستان کے لئے بہت بدقسمتی ہوگی۔ اس طرح فوج اور عوام کے درمیان خلیج پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔‘‘
85سالہ ایس ایم ظفر بڑے کام کے بزرگ ہیں۔گزشتہ 68 برسوں میں ملک میں قائم ہونے والی تقریباً سبھی سویلین اورفوجی حکومتوں نے انہیں بڑا کام کا پایا۔ سابق صدر اورریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے تو وہ معتمدِخاص رہے‘ اس وقت بھی وہ جو کہہ رہے ہیں وہ بڑابامعنی ہے۔''دوست ایجنسی ‘‘ کاکہناہے کہ قوم کو ایک عرصہ سے دہشت گردی کاسامنا ہے ، فوج دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کررہی ہے۔ ایسے حالات میںہزاروں یا لاکھوں افراد کو اسلام آبادجمع کرنا خدانخواستہ خطرناک ہوسکتاہے‘ لہٰذا آرٹیکل 245کاآئینی راستہ اختیار کیاگیااوریہ فیصلہ بھی اسی طرح ہوا جیسے آپریشن ضرب ِعضب کا فیصلہ کیاگیاتھا۔افواہیں پھیلانے والے دونوں مرتبہ نجانے کیا کیاکہتے رہے‘ لیکن آپریشن ضرب عضب بھی جاری ہے اورآرٹیکل 245کے تحت اسلام آباد کی حفاظت بھی کی جائے گی۔عمران خان نے کہاہے کہ '' آزادی مارچ پر گولی چلی تو سب سے پہلے اپنے سینے پر کھائوں گا ‘‘۔عمران نے یہ بھی کہاہے کہ حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کرے۔ شیروں کی حکومت کے بارے میں امریکہ کو باور کرایاجاتاہے کہ یہ لوگ طالبان کے خلاف جنگ کرنے میں حیل وحجت سے کام لیتے رہے ۔ ایک صوبے میں بعض مذہبی گروہوںکی طرف سے جاری سرگرمیوں کے حوالے سے بھی امریکہ کو تشویش ہے۔
وزیر اعظم نوازشریف کا دورہ سعودی عرب اورامریکہ میں سابق صدر آصف علی زرداری کے ''لنگر انداز‘‘ ہونے کے معاملات بھی خاص اہمیت کے حامل ہیں۔عمران خان اوران کے ساتھی نوازشریف اورزرداری کی جدہ اورواشنگٹن حاضری کو پی پی پی اور مسلم لیگ ن کی ملی بھگت قراردے رہے ہیںلیکن ''دوست ایجنسی‘‘ کا کہناہے کہ زرداری صاحب سولو کھیل رہے ہیں جس کا تعلق ''ٹھاہ ‘‘ کے بعد اگلے میچز سے ہے۔عمران خان کے آزادی مارچ سے قبل نوازشریف کا ''وژن 2025ء‘‘ بھی مارکیٹ کیاجارہاہے‘ یعنی سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں کے مصداق سامان سو برس کا ''ٹھاہ‘‘ کی خبر نہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں