"TSC" (space) message & send to 7575

جالبی یا نیازی؟

منیر نیازی ان دنوں شدت سے یاد آ رہے ہیں جنہوں نے مشکل حالات کے ساتھ ساتھ اپنی طبیعت میں پائے جانے والے ''شوقیہ خودکشی‘‘ کے رجحان کو پنجابی کی نظم میں یوں بیان کیاتھاکہ 
کجھ انج وی راہواں اوکھیاں سن 
کجھ گل وچ غماں دا طوق وی سی 
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن 
کجھ ساہنوں مرن دا شوق وی سی
منیر نیازی کی درج بالا پنجابی نظم کا آسان اورمختصر اردو ترجمہ یوں کیاجاسکتا ہے کہ'' غموں اور مصیبتوں کے باعث حالات تو مشکل ہی تھے اور کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم تھے‘ مگر ہمیں بھی مرنے کا شوق تھا‘‘۔ خادم اعلیٰ پنجاب منیر نیازی کے بجائے حبیب جالب کے پرستار ہیں لیکن ان کی سیاسی زندگی پر غور کریں تو بحرانوں سے نبٹنے کے لئے منیر نیازی کے پرستار اور شیدائی لگتے ہیں ۔شیدائی کی جگہ اگر فدائی بھی استعمال کیاجائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح شیخ الاسلام کی کال پر ''یوم شہدا‘‘ اور عمران خان کی طرف سے ''آزادی مارچ‘‘ کے رستے میں ناکے اورکنٹینر کھڑے کئے گئے وہ طریقہ کار جالبی نہیں نیازوی ہے۔ گزشتہ 13سال سے میں ماڈل ٹائون سے ملحقہ علاقہ گارڈن ٹائون کا رہائشی ہوں۔ لاہور کے پوش علاقہ ماڈل ٹائون کو پنجاب پولیس نے غزہ کی پٹی بنا دیا ہے ۔نارمل حالات میں رات دیر گئے جب لاہور کی سڑکیں سنسان ہوتی ہیں تو میں ایبٹ روڈ پر واقع ''دنیا نیوز‘‘ کے دفتر سے اپنے گھر گارڈن ٹائون صرف بارہ سے چودہ منٹ میں پہنچ جاتاہوں‘ لیکن پچھلے تین دن سے میرایہ مختصر سفر ''سند باد کا آخری سفر‘‘ دکھائی دینے لگا ہے ۔پنجاب حکومت کے ناکوں اورکنٹینروں کو عبور کرتے ہوئے مجھے یوں لگتاہے کہ میں گھر واپس نہیںجارہابلکہ ورلڈ ٹوئر پر نکل پڑا ہوں۔کہتے ہیںکہ صبح کا بھولااگر شام کو گھر واپس آجائے تو اسے بھولانہیں کہتے ۔مگر میرے اس روزانہ کے سفر کے پس پردہ مجھے استاد نصرت فتح علی خاں کی گائی قوالی ''شاماں پئیاں رانجھا نہ آیا‘‘ بیک گرائونڈ میوزک کے طور پر گونجتی سنائی دیتی ہے۔یقین کیجئے میں جب اپنے گھر واپس پہنچتا ہوں تو رانجھا کے بجائے کیدو دکھائی دینے لگتاہوں۔
ہمارے ملک میں اس وقت جو ڈرامہ ہورہاہے وہ ہمیشہ سے ہوتا آ رہاہے۔14اگست 1947ء کے دن عوام سے یہ وعدہ کیا گیاتھاکہ انہیں ایک آزاد ملک میسر آرہاہے جس میں انہیں معاشی اورمذہبی آزادی مہیا کی جائے گی۔سچ یہ ہے کہ 67سال بعد بھی عوام ان آزادیوں سے محروم ہیں۔آج جس ڈنڈے سے نون لیگ کی حکومت کو عمران خان اورطاہر القادری ہانک رہی ہے‘ اسی ڈنڈے سے شریف برادران نے بے نظیر بھٹو شہید اور پیپلز پارٹی کی تین عدد حکومتوںکو ان کے انجام تک پہنچایا ہے۔ابھی کل کی بات ہے جب منتخب صدر آصف علی زرداری کے بارے میں کہا جاتاتھاکہ ''ہم انہیں گلیوں، بازاروں اورسڑکوں پر گھسیٹیں گے‘‘۔ ٹیلی وژن پر میاں محمد نوازشریف کی وہ تقریر نشر کی گئی ہے جس میں چیف جسٹس کی بحالی کے لئے کئے گئے لانگ مارچ کے سلسلہ میں وہ اپنے ماڈل ٹائون والے گھر سے نکلتے ہوئے حکومت اور پنجاب پولیس کوخبر دار کررہے ہیں۔ میاں صاحب بھی، قادری اورعمران کی طرح اپنے کارکنوں کو حکومت کے خلاف سول نافرمانی کرنے کے لئے کہہ رہے ہیں ۔شیخ رشید اس وقت عوامی حقوق اوراحتجاجی سیاست کو عوام کا اولین حق قراردیتے تھکتے نہیں ہیں ۔ جب ان سے پوچھا گیاکہ عمران خان اورطاہر القادری کی سکیورٹی کے لئے حکومت کو کیاکرنا چاہیے؟ شیخ صاحب نے کہاکہ ''حکومت کنٹینر اٹھا دے‘ سکیورٹی ہوجائے گی‘‘۔ 
شیخ رشید صاحب کو یاد ہوگا کہ کنٹینر ٹیکنالوجی کے ''سائنسدان‘‘ ان کے دوست اور سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف ہیں۔ مذکورہ اکسیری ٹیکنالوجی کامظاہر ہ کراچی میں 12مئی 2007ء کو اس وقت دیکھنے میں آیا تھا جب بیرسٹر چوہدری اعتزاز احسن معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ہمراہ کراچی ہائی کورٹ پہنچنا چاہتے تھے مگر ''غیبی طاقت‘‘ نے شہر میں 52لاشیں گرائیں تھیں۔ کنٹینر ٹیکنالوجی کا مظاہر ہ بھی اسی دن کیاگیاتھا۔دن بھر بے گناہوں کی لاشیں گرتی رہیں اورشام کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویزالٰہی اور وزیر اطلاعات شیخ رشید کی جارحانہ تقریریں جبکہ صدر جنرل پرویز مشرف کی مُکا لہراتے ہوئی تقریر کسے بھول سکتی ہے؟ جنرل صاحب نے شہریوں کے قتل عام کو ''عوامی طاقت کے سامنے آکر کچلے جانا قرار دیا تھا‘‘۔ 
ملک کے اس سیاسی ڈرامے ، افسانے اورالمیے کو سمجھنے کے لئے مولانا حافظ حسین احمد کا ظریفانہ بیان ملاحظہ کیجئے جنہوں نے قوم کی اگلی منزل کا نقشہ کھینچ دیا ہے ۔مولانا فرماتے ہیں کہ '' میاں نوازشریف نے14اگست کے لئے 14ماہ بعد مشکل سے ہی اپنے حلیفوں سے رابطہ کیاہے ۔عمران خان حریف ہیں‘ لہٰذا وزیراعظم اب اگر ان سے رابطہ کرنا چاہیںگے تو انہیں نمبر انگیج (مصروف) ملے گا۔ چوہدری نثار کو پتہ چل گیا ہے کہ سیاست میں کلاس فیلوکا خیال تو نہیںرکھا جاتاالبتہ کسی اور حوالے سے رکھا جائے تو وہ اور بات ہے۔اشارہ کرنے والے پہلے عمران کا تیر استعمال کریں گے اورپھر انقلابی تیر کو کمان میں رکھیںگے۔ملکی سیاست میں ''پرویزیت‘‘ مشترک ہوتی جارہی ہے۔ موٹے پرویز کے بعد کوہ قاف والوں کے پاس 'نکا پرویز‘ (چھوٹاپرویز) ہے۔پی ٹی آئی والوں کے پاس 'پتلاپرویز‘ اور نون لیگ کا 'درمیانہ پرویز‘ ہے‘‘۔ سبحان اللہ... حافظ صاحب کی حسِ ظرافت نے ملکی سیاست کی پہلوداریوں کو کتنے شگفتہ انداز میں بے نقاب کیاہے۔ قومی سیاست موٹے ،نکے ، پتلے اور درمیانے پرویز وں میں بٹی ہوئی ہے ۔کاش !ہم اس قابل ہوسکیں کہ ہر قسم کے پرویز سے قانون کے مطابق نبٹ سکیں۔ 
اسلام آباد میں دفعہ 144نافذ ہے اور لاہور کو رینجرز کے حوالے کردیاگیاہے۔عوامی تحریک کے کارکنوں نے خوشاب میں تھانے کو جلادیااورگجرانوالہ میں تحریک کے کارکنوں نے پولیس پر دھاوا بول کر 55سے زیادہ اہلکار زخمی کردئیے ہیںجن میں 8کی حالت تشویشناک ہے۔طاہر القادری دوسال قبل پیپلز پارٹی کی حکومت پر بھی تلوار بن کر لٹک چکے ہیں‘ لیکن اس وقت اتنا کچھ نہیں ہوا تھا جو نون لیگ کی حکومت میں ہورہاہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی معاملات کو سیاسی انداز میں ہینڈل کرنے کی روایت رکھتی ہے جبکہ نون لیگ سیاست میں چھانگا مانگا اورگلو بٹ سٹائل کی قائل رہی ہے جس سے واقعات ،حادثات کی صورت اختیار کرجاتے ہیں۔
قومی سلامتی کانفرنس میں جمہوری اور عسکری قیادت ایک ساتھ بیٹھی ہے۔کانفرنس میں وزیر اعظم نے عمران خان کا جائز مطالبہ تسلیم کرلیاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ 10حلقوں میں دوبارہ گنتی کروانے پر راضی ہیں۔اب عمران خان کو بھی چاہیے کہ وہ اس نرمی کا مظاہرہ کریں جس کی توقع ایک سیاستدان سے کی جاتی ہے۔اگر ایسانہ کیا گیاتو لوگ کہیں گے کہ ''کپتان آزادی مارچ نہیں‘ ضدی مارچ کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ حکومت، عمران خان، طاہر القادری اور دیگر ذمہ داران کو اس ملک کے یتیم، مسکین اوردکھیارے عوام کے دکھوں کو صدق ِدل سے محسو س کرتے ہوئے ان کے حل کے لئے حقیقی کوشش کرنی چاہیے۔شہباز شریف نے کہاہے کہ عمران خان طالبان سے مذاکرات کرنے کی تجویز پیش کررہے ہیں لیکن منتخب جمہوری حکومت سے مذاکرات نہیں کرتے ۔عمران خان اگرچہ نون لیگ کے مینڈیٹ کونہیںمانتے لیکن طالبان کے پاس بھی تو ہمیں برباد کرنے کا مینڈیٹ نہیںہے۔ شریف حکومت کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ 10 اور 14اگست کے ''دوعدد یوم‘‘منیرنیازی سٹائل اختیار نہ کرے وگرنہ پھر کبھی جالب کے اندازمیں یہ کہنے کی مہلت نہ ملے گی کہ ''میں نہیں مانتا،میں نہیں مانتا‘‘۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں