"TSC" (space) message & send to 7575

Hybrid Inqlab (دونسلاانقلاب)

لاہورسے نیویارک اورنیویارک سے کینیڈا تک محوِپرواز رہا۔ اس دوران بڑے بھائی اورمعروف کالم نگار حسن نثارکا ہم سفر تھا۔ سفر اتنا دلچسپ تھا جتنا سندبادکے سفر ہوا کرتے تھے۔ اس سفرکا موازنہ اگر سندبادکی ''ایڈونچر سٹوریز‘‘ کے ساتھ کیاجائے تو اسے کسی طرح بھی ''سند باد کا آخری سفر‘‘ سے کم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ 10اور11اگست کی درمیانی شب جب میں اپنے گھر گارڈن ٹائون سے لاہور ایئر پورٹ کی طرف روانہ ہوا تو پنجاب پولیس نے ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے جانثاروں کو یوم شہدا منانے اور اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے سے روکنے کے لئے کنٹینروں کے پہاڑکھڑے کررکھے تھے۔ بعدازاں حکومت نے 100گنڈھے کھاکرکنٹینر بھی اٹھالیے۔ یوم ِشہدا کے بعد عمران خان کی طرف سے آزادی مارچ اورطاہر القادری کا انقلابی مارچ اپنے ہدف یعنی اسلام آباد کی طرف بڑھنے کی تیاریوں میں مصروف تھا۔اس وقت دلیل دی جارہی تھی کہ دھرنا دینا اورمارچ کرنا سیاسی جماعتوں کا جمہوری حق ہے، انہیں روکا کیوں جارہاہے؟ یہ کتابی اور نصابی سوال اپنی جگہ مگر اسٹیبلشمنٹ کے سابق لاڈلے جانتے تھے کہ اگر انہیں ڈی چوک پہنچنے دیاگیا تو حکومت کے ''ہینڈز اپ‘‘ کرالیے جائیں گے۔ وہی ہوا جس کا ڈرتھااور ویسے بھی ''یہ بازوان کے آزمائے ہوئے ہیں‘‘۔ صورت حال یہ ہے کہ دھرنا بازوں اورانقلابیوں کی تعداد میں اچھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے لیکن پیشہ ور اس کی کوریج کرتے ہوئے یہ خیال رکھے ہوئے ہیں کہ خالی کرسیوں پر نگاہ جانے نہ پائے۔ 
حکومت اوراپوزیشن کے معاملے کو اگر محاورے کی زبان میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو''جیسی حکومت ویسی چپیڑ(تھپڑ) والاسلسلہ دکھائی دیتا ہے۔ آئینی اور قانونی میدان کے بعد ''سہولت کار بننے‘‘ والی درپردہ خواہش کا اظہار کرنے والے اخلاقی گرائونڈ پر بھی مات کھاگئے ہیں۔ بازی ہارتی ہوئی دلہن کے بارے میں محسن نقوی نے کہاتھا:
بہا رہی تھی وہ سیلاب میں جہیز اپنا
بدن کی ڈوبتی کشی سنبھالنے کے لئے
Calgaryکینیڈا کے جنوب مغرب میں واقع ایک خوبصورت شہر ہے۔ حسن نثار صاحب اور مجھے وہاں ایشیائی باشندوںسے خطاب کرنے کے لئے مدعو کیاگیاتھا۔ تقریب کا اہتمام ''کوزہ ڈاٹ کام‘‘ کے روح و رواں برہان خان نے کرایاتھا۔''کوزہ‘‘ ایک ای پیپر اورویب سائٹ ہے جو اوور سیز میں پاکستان کی سیاست اورثقافت سے متعلق مفیدمعلومات مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر بہت سی دلچسپاں سمیٹے ہوئے ہے۔ تقریب میں مجھ سے سوال کیا گیا کہ ''پاکستان میں سیاست کے نام پر کیاہورہا ہے اور آپ عمران خان اورطاہرالقادری کی سیاست اور ان کے انقلاب کوکیانام دیں گے ؟‘‘ میرا فوری جواب تھا کہ عمران خان اورطاہرالقادری کے انقلاب کو میں Hybrid Inqlab (دونسلاانقلاب) کا نام دیتا ہوں۔ اوور سیز مارکیٹ میں جہاں انسانی جان کو قدرت کاانمول تحفہ سمجھا جاتاہے وہاں Hybrid vehicles (دونسلی گاڑیاں) تیزی سے مقبول ہورہی ہیں۔ ہائبرڈگاڑیوں کے مقبول ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انہیں چلاتے ہوئے پٹرول کا کم از کم استعمال کیاجاتا ہے جو بیک وقت بچت کے ساتھ ساتھ مالیاتی آلودگی سے بھی محفوظ رکھتی ہیں۔ خیال کیاجارہاہے کہ مینوفیکچرر اس بار'' ہیوی مینڈیٹ ‘‘پٹرول وہیکلز کی جگہ''ہائبرڈ انقلابی گاڑیاں‘‘ متعارف کرانا چاہ رہی ہیں جس کی مارکیٹنگ چودہ اگست سے جاری ہے۔ الطاف بھائی نے قومی حکومت کو وقت کا اہم تقاضا قرار دے کر ''قومی ہائبرڈ وہیکلز‘‘ کے لئے راستہ کھولنے کی تجویز بھی پیش کردی ہے جس کی توقع کی جارہی ہے۔ لیکن شاید انٹرنیشنل مارکیٹ میں اس بار قومی ہائبرڈ وہیکلز کو اس طرح پسند نہ کیاجائے جیسے ماضی میں کیاجاتارہا ہے۔ 
ٹورنٹو اورکیلگری میں میری تجویزکردہ ہائبرڈ انقلابی اقسام کو بہت پسند کیاگیا۔ سب سے پہلے پان کے ناموں سے موسوم کئے گئے انقلابی ماڈلز پیش کئے گئے،مثال کے طور پر میٹھا انقلاب، الائچی سپاری انقلاب، ساداسونف انقلاب ، پیلی پتی راجہ جانی انقلاب، گروتین سو انقلاب،گرو ایک سو بیس انقلاب، سہاگ پڑا انقلاب، بنارسی انقلاب، ظہورراجہ جانی انقلاب، سلیمانی انقلاب (جس میں کتھانہیں لگایاجاتا) انقلاب مع کالا قوام انقلاب، ہلکابرابر پیلی پتی انقلاب، نجمہ چندن انقلاب اور نجمہ چندن بنارسی انقلاب وغیرہ وغیرہ ۔ 
اسی طرح اگر آموں کی اقسام پر انقلاب متعارف کرائے جائیں تو ان کی اقسام یوں ہوسکتی ہیں : چونسہ انقلاب، انوررٹول انقلاب، دوسہری انقلاب، سندھڑی انقلاب، مالدا انقلاب، فجری انقلاب، رتناگری انقلاب، الفونسو انقلاب، ثمربہشت انقلاب، تخمی انقلاب، قلمی انقلاب، اچاری انقلاباوردیسی انقلاب وغیرہ وغیرہ۔ پان اور آم کی طرح انقلاب کو چاولوں کی اقسام سے بھی موسوم کیاجاسکتاہے مثلاً ایری پاک انقلاب، ایری پچاسی اورایری ھیاسی انقلاب، پی کے تین سوپچاسی باسمتی انقلاب اور سپرکرنل باسمتی انقلاب وغیرہ ۔
ہمارے ہاں سب سے زیادہ مقبول چاولوںکی قسم سپرکرنل باسمتی ہے۔ مختلف ادوار میں اس سے قومی اتحاد کا متنجن اور جمہوری پلائو پکایا جاتا رہا ہے۔ جمہوری پلائوتو تناول ماحضرکے طور پر دسیتاب ہوتا تھا مگر جب کبھی معدہ بوریت محسوس کرتا تو سپر کرنل باسمتی سے تیارکردہ اس ڈش کو جمہوری ہیوی مینڈیٹ بریانی کا نام دے دیا جاتا۔
امریکہ اورکینیڈا میں مقیم پاکستانیوں سے پان ،آم اورچاول کی اقسام کی جمہوریتوں اور انقلابوںکے علاوہ سیدھی باتیں بھی ہوئیں۔ سوال کیاگیاکہ کیا پاکستانی سیاستدان ہربار جمہوریت کو بچانے میں ناکام نہیں ہوجاتے جس پر فوج کو مجبوراً مداخلت کرنا پڑتی ہے؟ میں نے کہا: ''یہ تاثر درست نہیں ہے‘‘۔ شیخ رشید کہاکرتے ہیں کہ پاکستان کے ننانوے فیصد سیاستدان عسکری نرسریوں میں پل بڑھ کرجوان ہوئے ہیں۔ نرسری کے بجائے شیخ رشید اگر انہیں... فارم کا نام دیں تو زیادہ بہتر ہوگا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نرسریوں میں پودے اورپھول اگائے جاتے ہیں جبکہ پولٹری فارموں میں چوچوں( چوزوں) کو قبل از وقت مرغ بناکر ان کا روسٹ بنا لیا جاتا ہے۔ پودے اور پھول فارمی بھی ہوں تو کم ازکم خوشبو اور سایہ مہیا کرتے ہیں جبکہ ککڑ تو صرف چرغہ بنانے کے کام ہی آتے ہیں۔ لگتاہے چوچے جوان ہوکر ککڑ بن چکے ہیں لہٰذا اب انہیں چرغہ بنانے کی تیاریاں کرلی گئی ہیں۔
تبدیلی اورانقلاب سے قبل نرسریوں اورپولٹری فارموں میں قومی اتحاداور اسلامی جمہوری اتحاد کے نعرے مقبول رہے ہیں۔ ان نعروں کے تحت اسلامی جمہوری پاکستان کو پیپلز پارٹی سے''محفوظ ‘‘ رکھاگیا۔ ان دنوں پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کو ''سکیورٹی رسک‘‘ قراردیا جا رہا ہے۔ سیاست میں جنرل غلام جیلانی خان ،میاں نوازشریف کے Mentor(اتالیق) تھے۔ جنرل جیلانی نے انہیں سیاسی طور پر تخلیق کیا، جنرل اختر عبدالرحمان نے آگے بڑھایا، جنرل حمید گل نے راستہ دکھایا، جنرل اسد درانی نے اقتدار تک پہنچایا اورجنرل جاوید ناصر ان کے مشیر اقتدار ہوئے۔ شیخ رشید جب کہتے ہیں کہ 99 فیصد سیاستدان عسکری نرسریوں کی پیداوار ہیں تو پھر اس لیڈر شپ کو خالص جمہوری لیڈر شپ قراردینا درست نہیں ہے۔ ملک میں جب جمہوریت اورجمہوری لیڈر شپ کو پروان چڑھنے نہیںدیا گیاتو پھر یہ بھی نہیں کہاجاسکتا ہے کہ جمہوریت فلاپ ہوگئی اورسیاستدان فیل ہوگئے ہیں ۔ پھر اصل کہانی کیاہے؟ 
اس سوال کا جواب مل جائے تو پھراس سوال کا جواب بھی ڈھونڈا جائے کہ ملک میں لائے جانے والے حالیہ ہائبرڈ یعنی دونسلے انقلاب کی کامیابی کیا ایک نئے پاکستان کی تعمیر کر سکے گی؟ قومی اتحاد اوراسلامی جمہوری اتحاد کے ہیرو مانے جانے والے میاں نوازشریف اب ولن کیسے بن گئے؟ الطاف بھائی جو اکثر قومی بیماریو ںکی تشخیص کرتے ہوئے اس کا علاج قومی حکومت ہی تجویزکیاکرتے ہیں، ان کی طرف سے ایک بار پھر قومی حکومت کا اکسیری نسخہ پیش کر دیا گیا ہے یعنی پھر اسی ''عطارکے لونڈے‘‘ سے دوائی لینے کی بات کی جارہی ہے۔ قومی حکومت کی وضع قطع جیسے تجربات جنرل ایوب، جنرل ضیاء الحق اورجنرل مشرف کے ادوار میں کئے جاتے رہے ہیں۔ ٹیکنو کریٹس کے نام پر معین قریشی کو ہم پر بطور وزیراعظم مسلط کیاگیا۔ معین قریشی پہلے امپورٹ کئے گئے اوراسلامی جمہوریہ پاکستان نے انہیں شناختی کارڈ بعد میں جاری کیا تھا۔ قومی اتحاداور اسلامی جمہوری اتحاد کے بعد اب تبدیلی اورانقلاب کے نعروں کے تحت نئے پاکستان کی تعمیر کی جارہی ہے۔ مایوسی چونکہ گناہ ہے لہذا ہائبرڈ انقلاب پر یقین کرنا پڑے گاکیونکہ یہ ہمارے سیاسی مقدر میں لکھ دیاگیاہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں