"TSC" (space) message & send to 7575

موسلادھارآگ

وقت کی ستم ظریفی ہے کہ رائٹ ہینڈ دانشور، آمروں کے ہاتھوں ترشے ہوئے بھگوانوںکو ہی جمہوریت کا سومنات قرار دیتے نہیں تھکتے۔ تاریخ میں بیان کیاگیا ہے کہ سومنات پر سترہ حملے کئے گئے تھے، حالیہ حملے کو پہلا یا دوسرا حملہ سمجھنا چاہیے، ترکش میں تیر ابھی باقی ہیں‘ اس لئے مزید حملے ہوں گے۔ سیاسی رن بھومی پر نظر ڈالیں تو ناتجربہ کاروںکے بعد آزمودہ مہرے کو بساط پر اتارنے کا اشارہ دے دیاگیا ہے۔
ادھر حکومت کے وزیر ''دفاع‘‘ چودھری نثار علی خان اورپیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ اورچودھری اعتزازاحسن میں اچھی بھلی ہتھ جوڑی ہوگئی۔ وجہ یہ ہوئی کہ حکومت کے دفاع پر مامور وفاقی وزیرچودھری نثار علی خان‘ جن کے پاس وزارت داخلہ کا بھی قلمدان ہے‘ کی طرف سے چودھری اعتزازاحسن کے بارے میں جو کلمات ادا کئے گئے اسے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے حکومت اور وزیراعظم نوازشریف کے خلاف سازش قراردیا ہے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ چودھری نثار بذات خود وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ اس وقت چودھری نثار اسمبلی میں موجودنہیں تھے لیکن وزیراعظم نوازشریف اپنی نشست پرکھڑے ہوگئے اور انہوں نے پیپلز پارٹی اور اعتزاز احسن سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہم پارلیمان کی عزت اورجمہوریت کو بچانے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں لہٰذا ہمیں اپنی راہ سے بھٹکنا نہیں چاہیے۔ پیپلز پارٹی اور چودھری اعتزاز کے زخموں کی ہلکی پھلکی مرہم پٹی کرنے کے بعد نوازشریف مطمئن ہوکر بیٹھ گئے لیکن بیرسٹر نے پارلیمان کی تاریخ کی تاریخی تقریرکرڈالی۔ چودھری اعتزازاحسن نے وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی تقریرکا آغاز استاد داغ دہلوی کے اس آگ لگاتے شعر سے کیا : 
کبھی فلک کو پڑا دل جلوں سے کام نہیں 
اگر نہ آگ لگا دوں تو داغؔ نام نہیں 
اور پھر واقعی بیرسٹر نے آگ لگادی۔ اعتزاز احسن کی تقریر کے دوران ہی چودھری نثار اپنی نشست پر واپس آگئے اور باقی تقریر انہوں نے وزیر اعظم کے ساتھ بیٹھ کرسنی۔ خورشید شاہ اور اعتزاز احسن کی طرف سے پارلیمنٹ کے اجلاس کے پہلے دو سے تین روز میں وزیراعظم نوازشریف سے کہا گیا تھا کہ آگ لگانے اور سازشیں کرنے والے آپ کے دائیں بائیں بیٹھے ہیں، انہیں پہچانیے۔ پیپلز پارٹی کے دونوں رہنمائوں نے نون لیگ کے کسی وزیرکا نام نہیں لیا تھا لیکن چودھری نثاراپنے چیمبر میں صحافیوںکو علیحدہ لے کربیٹھ گئے۔ یہ تو'' وزیرکی داڑھی میں تنکا ‘‘ والی بات ہوئی۔
چودھری نثار نے اعتزازاحسن پرالزامات عائد کئے۔ انہوں نے کہاکہ بیرسٹر صاحب لینڈ مافیا کے وکیل ہیں، ان کی اہلیہ نے حکومت سے ایل پی جی کا کوٹہ لے رکھا ہے وغیرو وغیرہ ۔ بیرسٹر صاحب نے اپنا مقدمہ خوب لڑا۔ انہوں نے کہاکہ میں واحد سیاستدان ہوں جس نے ایوب خان سے لے کر مشرف تک چار آمروں کی حکومتوں کے خلاف قانونی اورسیاسی جنگ لڑی ہے۔ میرے دادا بہاول دین بخش نے تحریک پاکستان کی جدوجہد میں حصہ لیتے ہوئے 86 برس کی عمر میںگرفتاری دی۔ انہی دنوں میری والدہ رشیدہ احسن نے بھی گرفتاری دی۔ اس وقت میری عمر صرف ایک سال تھی۔ یوں میرے خاندان کی طرف سے پاکستان کی جدوجہد میں معمراورکم سن ترین قیدی شامل رہے۔
بیرسٹر صاحب نے مزید کہا: ''ایوب خان کے دور میں نوجوان تھا، یحییٰ خان کا مارشل لا جھیلا، جنرل محمد ضیاء الحق نے مجھے وزیر بنانا چاہا، میں نے انکارکردیا۔ جنرل مشرف مجھے وزیر اعظم بناناچاہتے تھے، ان کے معتمد ِخاص طارق عزیز میرے پاس آئے اور بتایا کہ میں وزیر اعظم کے لئے حامی بھروں لیکن میں نے انکارکردیا۔ مشرف دور میں، مَیں نوازشریف صاحب کا وکیل رہا اورپھر انہی کے دورمیں معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا وکیل بنا۔ جنرل ضیا، نوازشریف اورجنرل مشرف کی حکومتوں میں اپوزیشن میں رہا۔ میں تو وہ شخص ہوں جو اپنی حکومت میں بھی اپوزیشن میں ہوتا ہے‘‘۔ بیرسٹر صاحب کا اشارہ اپنی جماعت پیپلز پارٹی کی حکومت میں چلائی جانے والی تحریک کی طرف تھا جس کے نتیجے میں سابق چیف جسٹس بحال ہوئے۔ ان کی تقریرکے دوران چودھری نثار فلور پر واپس آگئے تھے۔ وہ کچھ کہہ رہے تھے لیکن چودھری اعتزاز مائیک پر گرج رہے تھے‘ ان کے سامنے وفاقی وزیراپنا دفاع نہ کرسکے اور ان کی آواز نگارخانے میں طوطی کی آواز بن کرگم ہوگئی۔
مشتاق احمد یوسفی نے کہاتھا : '' پاکستان کی افواہوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ سچ نکلتی ہیں‘‘۔ ایک کہنہ مشق نے لکھا کہ 
''نومبر 2013ء میں اپنے ناظرین کو یہ بتایا تھا کہ مارچ 2014ء میں اسلام آباد کی طرف ایک لانگ مارچ ہوگا۔ اس لانگ مارچ کا مقصد صرف اور صرف سابق صدر جنرل ریٹائرڈ مشرف کو غداری کے مقدمے سے بچانا ہوگا اوراس لانگ مارچ میں ایسے ایسے لوگ بھی شامل ہوجائیں گے کہ ہم حیران رہ جائیں گے‘‘۔ کہنہ مشق کا کہنا ہے کہ لا نگ مارچ اگست میں اس لیے ہوا کہ فلم کے ہیروکو سائیڈ ہیرو پسندنہیں آرہا تھا۔ ادھر پی ٹی آئی کے باغی جاوید ہاشمی نے اپنے ایک انٹرویو میںکہاکہ عمران خان اور قادری صاحب اب بھائی بھائی بنے ہیں ورنہ پہلے توعمران خان، قادری صاحب کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔ باغی نے یہ بھی کہا کہ عمران خان سیاسی حلیف کے طور پر قاف لیگ کے چودھری برادران اور قادری صاحب کو پسندنہیں کرتے تھے مگر انہیں مجبور کیاگیا تو انہوں نے سمجھوتہ کرلیا۔ جاوید ہاشمی نے کہاکہ انہیں پتا نہیں‘ یہ سارا سکرپٹ کس نے اورکہاں لکھا لیکن عمران یہ تاثر دیتے رہے ہیںکہ فوج اور عدالت ان کے ساتھ ہیں۔
سکرپٹ، ڈرامے اورفلم کا ہوتا ہے۔ دونوں صورتوں میں سکرپٹ لکھوانے کا کام پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کرتے ہیں۔ سکرپٹ لکھنے کا مرحلہ اس وقت آتاہے جب یہ طے کرلیا جاتا ہے کہ فلم بنانی ہے۔ فلم بنانے کا فیصلہ تو قبل ازالیکشن ۔۔۔۔۔ مم مم مم میرا مطلب ہے بہت پہلے سے کرلیا گیا تھا۔ پاکستان کی ہرسیاسی جماعت نے 2013ء میں ہونے والے انتخابات کو دھاندلی زدہ قراردیاتھا۔ سب سے پہلے آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ ''یہ آر اوز(ریٹرننگ آفیسرز)کا الیکشن تھا‘‘۔ مراد یہ تھی کہ ریٹرننگ افسران نے انتخابات میں دھاندالی کرائی ۔ مذکورہ انتخابات ایک آزاد الیکشن کمشن نے کرائے تھے جس کا انتخاب اس وقت کی حکومت اور اپوزیشن بشمول عمران خان نے کیا تھا۔ فخروبھائی کو الیکشن کمشن کے سربراہ کے طور پر سب کا ووٹ حاصل تھا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ آزاد عدلیہ ، بااعتماد الیکشن کمشن اور فوج کے سائے تلے ہونے والے الیکشن کے نتیجہ میںقائم ہونے والی حکومت کو دھاندلی کی یادگار قراردے کرگرادینے کے لئے تحریک چلائی جارہی ہے۔ 2013ء کے انتخابات پر قومی خزانے سے تین ارب روپے سے زائد رقم خرچ کی گئی تھی۔ اگرچہ اس کی شفافیت پر سب سیاسی جماعتوں نے اعتراض کیا تھا مگر سب نے اسے قبول کرتے ہوئے کہا تھاکہ جمہوری نظام کو مستحکم اور ان گنت مسائل کے دلدل میں دھنسی ہوئی قوم کو مصیبتوں سے نجات دلانے کے لئے مل کرکام کریں گے۔ 
عمران خان نے چار حلقوں کی گنتی دوبارہ کرانے کی بات کی تو وزیر اعظم بنی گالہ گئے جس سے یہ تاثر ملاکہ کپتان مطمئن ہو گیا ہے لیکن جلد ہی وہ بیٹ تھام کرگراونڈ میں آ گیااور ساتھ انقلابی گگلی ماسٹرکو بھی لے آیا۔ ملک میں اس وقت مون سون کی طوفانی بارشیں ہورہی ہیں، بھارت کے ڈیم بھی پانی اگل رہے ہیں ،کچھ سیلاب میں بہہ گئے ہیں اور کچھ کرنٹ لگنے سے مرچکے ہیں۔کنٹینر والے بھی بارشوں سے محفوظ ہیں اور پارلیمان کے محافظوں کی پوشاکیں بھی خشک ہیں۔ دونوں اپنے مفادات اورانا کی جنگ لڑرہے ہیں۔ حکمران اپنی اناکے الائو تو جلابجھا رہے ہیں لیکن غریب کو موسلادھار قاتل بارش کے سپردکردیا گیا ہے۔ اس ابرکرم میں وہ جل جل کر مر رہے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں