"TSC" (space) message & send to 7575

سیاست کا بائیو مکینیکل ٹیسٹ

سیاست کے بعد قومی کرکٹ بھی اپ سیٹ ہے۔ جادوگر آف سپنر سعید اجمل کے باؤلنگ ایکشن کو ''غیر آئینی‘‘ قرار دے دیا گیا ہے۔ اس سے قبل انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (ICC) نے پاکستان کے ایک ابھرتے ہوئے پیسر شبیر احمد کے بائولنگ ایکشن پر اعتراض کرتے ہوئے ان کے کیریئر کو بھی ''پنکچر‘‘ لگا دیا تھا۔ کرکٹ ہسٹری میں مشکوک ترین باؤلنگ ایکشن سری لنکا کے لیجنڈ کرکٹر مرلی دھرن کا تھا۔ مرلی کو بھی ان اعتراضات اور بائیو مکینیکل ٹیسٹ کا سامنا کرنا پڑا تھا؛ تاہم عارضی پابندی کے بعد وہ دوبارہ اسی جنون کے ساتھ گراؤنڈ میں دکھائی دیے اور جب تک کھیلے پوری دنیا کے بیٹنگ آرڈرز کے لئے اسی طرح خطرناک ثابت ہوئے جیسے ڈی چوک کا دھرنا۔ 
سعید اجمل سے پہلے پنڈی ایکسپریس شعیب اختر کے بائولنگ ایکشن پر بھی اعتراض کیا گیا تھا‘ جس پر سپیڈ سٹار کا بائیو مکینیکل ٹیسٹ کیا گیا اور ثابت ہوا کہ اس کے بازو میں پیدائشی طور پر خم ہے؛ چنانچہ جسمانی کجی کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے کھیلنے کی اجازت دے دی گئی۔ کرکٹ کے میدانوں میں تو بائیو مکینیکل اور ڈوپ ٹیسٹ کے بعد کھیلنے کی اجازت دے دی جاتی ہے لیکن سیاست میں شاید یہ تردد نہیں کیا جاتا، اس لیے بڑے بڑے سیاستدان جسمانی، روحانی اور نظریاتی کج ادائی کے باوجود سیاسی افق پر چھائے رہتے ہیں۔ اس کاروبار سے وابستہ چوہدریوں کے ڈوپ ٹیسٹ کئے جائیں تو ممکن ہےObsessive Compulsive Disorder کی تشخیص ہو۔ یہ کیفیت ایک خاص قسم کی سوچ کا نام ہے یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک نفسیاتی کیفیت ہے جس میں ایک خوف یا وہم ہر وقت انسان پر طاری رہتا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ لوگ دروازہ بند کرنے کے معاملے میں بے حد وہم کرتے ہیں۔ دروازہ بند کر کے بھی انہیں یہ خیال ستاتا رہتا ہے کہ شاید دروازہ ابھی کھلا ہے۔ کچھ لوگ جراثیم کے معاملے میں بہت محتاط ہوتے ہیں۔ واش روم میں دیر تک ہاتھ دھوتے رہتے ہیں اور ہاتھ دھونے کے بعد بھی انہیں یہ گمان رہتا ہے کہ شاید ہاتھ ٹھیک سے نہیں دھلے۔ چوہدری صاحب کو بھی گمان رہتا ہے کہ شاید ڈکٹیٹرشپ کی حمایت کئے بغیر سیاست ٹھیک سے نہیں ہو سکتی۔ چوہدریوں سے پہلے اگر یہی ٹیسٹ شریفوں کا کیا جاتا تو رزلٹ پازٹیو ہی آتا، لیکن انہوں نے ایک بڑی سرجری سے اپنے جسم سے یہ آمری رسولی نکلوا لی ہے۔
پیپلز پارٹی کے سابق دورِ حکومت میں جس قسم کے بحران آئے‘ اس سے پتا چلتا ہے کہ 'شب خون بازی‘ کا کھیل اب اپنی شکل بدل چکا ہے، لیکن میاں صاحب دودھ کے جلے ہیں‘ اس لیے سارے کاموں کو پسِ پشت ڈال کر اس کا سدباب کرنا چاہتے ہیں ۔ بار بار ہاتھ دھو کر بھی انہیں لگتا ہے شاید آمری جراثیم ابھی موجود ہیں۔ چھوٹے میاں صاحب کا سیاسی اور نفسیاتی بائیو مکینیکل ٹیسٹ کیا جائے تو ممکن ہے دلچسپ رزلٹ آئے اورMultiple Personality Disorder ظاہرہو۔ اس کیفیت کا تعلق بھی نفسیات کے ساتھ ہے‘ جس میں انسان بیک وقت کئی شخصیات میں الجھا ہوتا ہے یا یوںکہہ لیجیے کہ متاثرہ شخص کے اعصاب پر بیک وقت دو یا دو سے زیادہ شخصیات سوار ہوتی ہیں‘ جن میں کوئی ایک شخصیت کسی بھی وقت غالب آ جاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو وہی شخصیت سمجھتا ہے۔ مثال کے طور پر دوران تقریر اچانک ذوالفقار علی بھٹو جیسا جوشِ خطابت اپنا لینا، جوشِ خطابت میں باڈی لینگویج کا اڈولف ہٹلر جیسا ہو جانا، 'ایموشنل بریک ڈاؤن‘ ہو جانے پر اچانک حبیب جالب بن جانا اور پھر بالی وڈ فلموںکا شاہی ولن موگیمبو بن جانا۔ مذکورہ سیاستدانوں کی نسبت کپتان خان کی بدلتی اور انقلابی کیفیات زیادہ دلچسپ ہیں۔ اس Obsessive Comupulsive کو میں کیا نام دوں؟ ذاتی طور پر لانگ مارچ کا متحمل ہوں نہ دھرنے کا۔ کپتان خان کئی برسوں سے وزارتِ عظمیٰ کے بارے میں اتنا سوچتے ہیں کہ اب ان میں ایک وزیر اعظم جھلکنے لگا ہے۔ اس کی عام فہم مثال یہی ہو سکتی ہے کہ ''پی ایم، پی ایم کردی نی میں آپے پی ایم ہوئی‘‘۔ یہ مثال صرف قارئین کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے دی گئی ہے ورنہ یہ عشقِ حقیقی کی کیفیت وحدت الوجود کا مقام ہے۔ 
خادم اعلیٰ اور کپتان خان کی وی آئی پی کیٹیگری میں ہی شیخ رشید کا کیس بھی شامل ہے۔ شیخ صاحب کا بائیو مکینیکل کیا جائے تو رپورٹ نیگیٹو ہو یا پازٹیو یہ الگ معاملہ ہے‘ لیکن اچھی خاصی ضخیم ہو گی۔ شیخ صاحب نے اپنے لمبے چوڑے کیریئر میں جنرل محمد 
ضیاالحق سے لے کر میاں نواز شریف کی دو عدد حکومتوں تک وزارتوں کے مزے لوٹے ہیں۔ اپنے رنگین اور سینما سکوپ کیریئر کے ہاف ٹائم کے بعد لگ بھگ آٹھ سال تک جنرل مشرف کے یس منسٹر رہے۔ میاں نواز شریف کی حکومتوں کے دوران چونکہ آپ اسمبلی فلور اور جلسے جلوسوں میں پیپلز پارٹی کی ویمن لیڈرشپ کے متعلق اپنے ''خیالات زریں‘‘ کا اظہار کرتے رہتے تھے اس لیے پورے پانچ سال تک گزشتہ حکومت میں ان کی دال گل نہ سکی۔ افہام و تفہیم فیم صدر آصف زرداری تو شیخ رشید کو گاہے ایوان صدر میں مہمان بناتے رہے لیکن جیالوں نے اپنی لیڈر محترمہ شہید کے کیس میں ورکنگ ریلشن شپ کی پازٹیو رپورٹ جاری نہ کی۔ 
شیخ رشید صاحب کے علاوہ وزرا میں شامل خواجہ سعد رفیق اور خواجہ محمد آصف کے بائیومکینیکل ٹیسٹ کرائے جائیں تو معالج انہیںکچھ کہنے کے بجائے وزیر اعظم کو یہ مشورہ دے گا کہ ''اپنے اقتدار کو وزرا کی پہنچ سے دور رکھیں، طبیعت زیادہ خراب ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کریں‘‘۔ محترم وزیر خزانہ اسحاق ڈار اپنی میڈیکل رپورٹ میں بھی افراطِ زر میں کمی کے ساتھ ساتھ روپے کی قیمت مستحکم ثابت کر سکیں گے؛ حالانکہ لانگ مارچ، تبدیلی، انقلاب اور سیلاب کے بعد قوم کی کوئی شے بھی مستحکم نہیں رہ پائی۔ مولانا کی بائیومکینیکل رپورٹ '' ہٰذا من فضل ر بی‘‘ کی تصویر ہوگی۔ مخدوم جاوید ہاشمی کی ممکنہ کیفیت ذرا یونیک ہے۔ متاثرہ شخص کی ہسٹری میں پڑھا جا سکتا ہے کہ جیسے بروقت شادی نہ ہونے پر لڑکیاں اس 
کیفیت میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ اس کیفیت کو ہسٹریا کہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کی لاتعداد لڑکیاں اس کیفیت کی علامات آسیب جیسی ہونے کی وجہ سے عطائی عاملوں کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ن لیگ کے لیے خاص طور پر مشرف دور میں ہاشمی صاحب نے ناقابلِ فراموش خدمات انجام دی ہیں لیکن ان کے ہاتھ اقتدار کی مہندی سے محروم رہے۔ اس بیماری کی علامات مخدوم امین فہیم اور شاہ محمود قریشی میں بھی ظاہر ہوئیں لیکن بروقت ابتدائی طبی امداد ملنے کی وجہ سے ان کی اس حالت پر قابو پا لیا گیا۔ قادری صاحب کی بیماری درحقیقت ایک سٹیٹ آف مائنڈ ہے جسے ابوالاثر حفیظ جالندھری ایک شعر میں بیان کر چکے ہیں:
یہ عجب مرحلۂ عمر ہے یارب کہ مجھے
ہر بُری بات، بُری بات نظر آتی ہے 
چوہدری اعتزاز احسن نے بھری اسمبلی میں بیان کیا کہ جنرل مشرف انہیں وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے مگر انہوں نے ہاتھوں کو اقتدار کی آمری مہندی لگانے سے انکار کر دیا۔ چوہدری اعتزاز اور خورشید شاہ نے وزیر داخلہ کے اندر پیدا ہونے والی مبینہ تبدیلیاں اور علامات بیان کیں‘ مگر چوہدری نثار نے اپنی ای سی جی رپورٹ کلیئر دکھاتے ہوئے ''درگزر‘‘ سے کام لیا۔
سعید اجمل کے بائولنگ ایکشن کی درستی کے لیے ثقلین مشتاق سے ڈیل ہو گئی ہے۔ کرکٹ اور بائولنگ میں ''دوسرا‘‘ کے بانی ثقلین مشتاق تو اپنے جونیئر کی اس کج ادائی کو چار سے چھ ہفتے میں دور کرنے کی گارنٹی دے رہے ہیں مگر سیاست میں 'پوتڑوں‘ کے بگڑوں کو کس طرح صحت یاب کیا جا سکے گا‘ اس بابت کوئی ٹیسٹ متعارف نہیں کرایا جا سکا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں