قادری صاحب تو قبل ازیں انقلاب او ر تبدیلی کی کچی پکی خبروں پر ہی قوم کو کہہ دیا کرتے ہیں کہ... مبارک ہو... مبارک ہو...مبارک ہو۔لیکن یہ کچا پکا معاملہ نہیں ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان 20ارب ڈالر کے 12معاہدوں پر پکے پکے دستخط ہوگئے ہیں۔یہ معاہدے اقتصادی ،تجارتی اور بھارت کے وسیع ترین ریلوے سسٹم کو جدید اورتیز کرنے سے متعلق ہیں۔اس موقعہ پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ باہمی ترقی کے لئے سرحدوں پر امن وامان بہت اہم ہے۔چین بھارت کا اہم شراکت دار ہے لیکن دونوں ملک خطے میں اثر ورسوخ اور سرحد پر تنازعے میں الجھے رہتے ہیں۔ نریندر مودی نے چینی صدر سے درخواست کی کہ دونوں ملکوں کے مابین تجارت اور کاروبار کو مزید بڑھانے کے لئے آسانیاں پیدا کریں۔
ہم ایسی کج فہم قوم ہیں جس کا حال اس ''قوم ‘‘ جیسا ہے جو اپنا حال اورمستقبل سنوارنے کے بجائے اس چکر میں رہتی ہے کہ دوسرے کی ہانڈی بھی پھوٹ جائے۔ ہم طویل عرصے سے اس ڈبہ سینما سکوپ سٹوری کوسنتے آرہے ہیں کہ '' چین، بھارت کا دشمن اور ہمارا جگری یار ہے‘‘ جبکہ نیٹ رزلٹ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین 12معاہدے طے پاگئے اور ہم صرف تعویز گنڈا کرانے میں ہی مصروف رہے کہ اس تعلق کا بیڑہ غرق ہوتو ہمیں ٹھنڈ پڑے ‘‘۔یہ کیسی سوچ ہے؟ ہمارے کیا اہداف ہیں؟ دوسری طرف چین لگ بھگ اپنی ایک ارب 35کروڑ اور بھارت ایک ارب 25کروڑ سے زائد آبادی کے ساتھ پرانی دشمنی کو بھلا کر ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈالے نئے سیاسی، سفارتی ، تجارتی اورمعاشی سفر کاآغاز کر رہے ہیں۔ چین اور بھارت نے خود کو بدلا ہے، آنے والے وقت میں دونوں اپنے تعلقات میں مزید تبدیلی لائیںگے ۔ بقول عمران خان ہمارے ہاں بھی تبدیلی آرہی ہے۔لیکن سچی بات ہے کہ ہمیں یہ تبدیلی صرف اس وقت دکھائی دیتی ہے جب وہ بنی گالہ سے تیار ہو کر ٹیلی وژن پر انقلاب برپا کرتے ہیں۔عمران خان کو دھرنے دیے کم و بیش 35دن ہوگئے ہیں، اس عرصہ میں انہوں نے جتنی بھی تقریریں کیں سب میں انہوں نے وزیراعظم، ان کے خاندان اور قریبی ساتھیوں کی کرپشن کے مبینہ کھاتے کھولے۔ کنٹینرپر چڑھ کر سیاسی مخالفین کے خلاف تقریریں کرنے کے عمل کو سنجیدہ سیاست قرار نہیں دیا جاسکتا۔عمران خان نے تقریروں میں کبھی ملک کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے بات نہیں کی۔ حالانکہ متوازن اور پُرامن خارجہ پالیسی ہی وہ کلید ہے جو بھارت اور پاکستان میں بسنے والے پونے 2ارب انسانوں کے مقدر پر لگے تالوں کو کھول سکتی ہے۔کپتان یہ تو کہتے ہیں کہ صحت اور تعلیم جیسے اہم شعبوں کے بجٹ بڑھائیں گے لیکن کبھی یہ نہیں بتاتے کہ اس کے لیے سرمایہ آئے گا کہاں سے؟ ملک کے دفاعی بجٹ کا تذکرہ کبھی نہیں کرتے۔ عمران صرف کرپشن ختم کرنے کی ہی بات کرتے ہیں۔ کرپشن ہمارامسئلہ ہے اسے ختم ضرور کرنا چاہیے لیکن یہ مکمل سچ نہیں ہے ۔کپتان اگر بہادر ہے تو پور اسچ بولے اور پھر اس سچ کے مطابق قومی ترجیحات کودرست کرے۔ قوم اس کی آواز پر لبیک ضرور کہے گی ۔
چین اور بھارت کے مابین ہونے والے نئے معاہدوں کے بعد خطے کی سیاست بدل جائے گی۔میں نے چین کو تو سرسری طور پر ہی دیکھا ہے لیکن بھارت پر لگ بھگ اتنی بار ہی ''حملہ آور‘‘ ہوچکا ہوں جتنے حملے سومنات پر کئے گئے تھے۔ بھارت کے سیاستدان ، سرکاراور عوام سب میں نیشنل ازم کے ساتھ ساتھ احساس ذمہ داری پایا جاتاہے لیکن ہمارے ہاں اس کا فقدان ہے۔ہمارے ہاں جتنے جنگی ترانے ،قومی نغمے اورملی گیت فضائوں میں گونجے ہیں اس تناسب سے وطن پرستی فروغ نہیں پا سکی۔ جنگ جویانہ جذبات، غلبہ پانے کی خواہشات اور دشمن کو برباد کردینے کے جنون کو وطن پرستی کا نام نہیں دیا جاسکتا۔کیاہی اچھا ہوکہ ہماری فضائیں بارود کی خوشبو سے پاک ہوجائیں،ہمیں دہشت گردی کے عذاب سے نجات مل جائے اور ہمارے آنگن میں پیار ،محبت ،خلوص اور خوشحالی کے پھول کھلیں ۔لیکن یہ سب اس وقت ممکن ہوسکے گا جب ہم اپنی قومی ، سیاسی اورریاستی ترجیحات بدلیں گے۔ ہمارے سامنے بھارت اور چین اپنے آپ کو بدل رہے ہیں اور قریب آرہے ہیں ،دونوں میں دوستی پیدا ہورہی ہے ۔دوسری طرف ہم بھارت کو اپنا دوست نہیں بنارہے اور چین کے ساتھ بھی اپنی دوستی پکی کرنے کے بجائے اسے بھارت کے قریب جانے کے مواقع فراہم کررہے ہیں ۔ چین اگر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات میںبہتری لارہا ہے تو اسے اس کا حق حاصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپنے جگری یار کو دوسروں کے رحم وکرم پر کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ ہمیں اپنے دوست کے ساتھ دوستی کو تو پکا کرنا چاہیے، دوست کے دوست کو بھی دوست بنالینا چاہیے کیونکہ اسی میں ہم سب کی بہتری ہے۔
چین اور بھارت میں ہونے والے تجارتی اور کاروباری معاہدوں کوآگے بڑھانے کیلئے دونوںممالک ایک دوسرے کے اساتذہ کو ہندی اور چینی زبانیں سکھانے کے پروگرام بھی شروع کررہے ہیں۔چین کے اساتذہ جب ہندی سیکھ لیں گے اور ہندوستان کے گروئوں کو چینی لکھنا پڑھنا آجائے گی تو یہ رشتے اور بھی مضبوط ہو جائیں گے۔ بھارت اور پاکستان کے مابین تو زبان و بیان کا مسئلہ بھی نہیں ہے؛ تاہم سیاسی اور سفارتی ''دیوارچین‘‘ حائل ہے ۔بھارت اورچین تو اپنے درمیان حائل اس دیوار چین میں سے دوستی کی کھڑکیاں اوردروازے بنارہے ہیں۔ دیکھیں ہم میں یہ احساس کب پیدا ہوتا ہے؟ بھارت اور پاکستان کے حوالے سے ایک خیر کی خبر یہ ہے کہ فواد خان اور سونم کپور کی نئی ریلیز ہونے والی فلم ''خوبصورت ‘‘ کامیاب ہوگئی ہے جسے ہم سینما انڈسٹری کے لئے خوشگوار تبدیلی قرار دے سکتے ہیں۔ یہاں وضاحت کرنا ضروری ہے کہ مذکورہ تبدیلی کا عمران خان کی اس معروف تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں جس کے بارے میں وہ بڑے یقین سے کہتے ہیں کہ ''تبدیلی آنہیں رہی ، تبدیلی آچکی ہے ‘‘۔ یہ فوادخان وہی ہیں جن کے بارے میں عمران خان نے کہاتھاکہ ''فواد خان کا ڈرامہ آن ایئر ہوتو کوئی عمران خان کو نہیں دیکھتا‘‘۔ فواد خان اس حوالے سے خوش نصیب ہیں کہ انہیں عمران خان بھی پسند کرتے ہیں۔
عمران خان نے کہا ہے کہ وہ وزیر اعظم میاں نوازشریف سے استعفیٰ لے کر ہی اسلام آباد سے واپس لاہور جائیں گے چاہے انہیں سال لگ جائے۔ کپتان نے عید الاضحی بھی کنٹینر میں منانے کا اعلان کیا ہے۔ تبدیلی، دھرنے اور انقلاب کی شاہراہ پر گامزن ہوئے ہمیں ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے ۔اس دوران قومی معیشت کو کتنا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کا درست اندازہ تو کبھی نہیں لگایاجاسکتا مگر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے پاس اس کے اعداد وشمار ہیں اینکرپرسنز جن سے باقاعدہ پرہیز اختیار کئے ہوئے ہیں۔
عمران خان جواپنی تقریروں میں امپائر کی انگلی اٹھنے کا ٹائم ایک یا دو دن دے رہے تھے اب پورے سال کی بات کرنے لگے ہیں۔ کپتا ن عیدالاضحی بھی کنٹینر میںہی منائیں گے۔ ایسے میں چوہدری نثار نے کہاہے کہ ''وزیر اعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک کی گمشدگی کا اشتہار دیا جائے، موصوف اسلام آباد میں ہونے والے دھرنوں میں شامل ہو کر انقلاب لانے میں مشغول ہیں جبکہ صوبہ میں سب سے زیادہ امن وامان کی صورت حال خراب ہے‘‘۔ لگتا ہے کہ دھرنے ،انقلاب اور تبدیلی کنٹینر پر جاری ڈانسنگ مقابلے سے وزیر اعلیٰ خٹک کو چھٹی نہیں ملے گی ۔کیونکہ ؎
مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی، جس نے سبق یاد کیا
(جاری)