بڑی عید کی ویسے تو کوئی چاند رات نہیں ہوتی لیکن اگر صبح عیدالاضحی ہو اور آپ رات دیر تک اپنے یاروں اور پیاروں کے ساتھ جاگتے رہیں تو اس رت جگے کو چاند رات قرار دینے میں کوئی حرج نہیں۔ نیا پاکستان معرض وجود میں آنے کی باقاعدہ کوئی تاریخ تو نہیں دی گئی مگر ملک کے پرانے بلکہ قدیمی سیاسی باوے یہ پیشین گوئی کر رہے ہیں کہ ''قربانی نہیں اب جھٹکا ہو گا‘‘۔ عمران خان نے بڑی عید کے موقع پر اپنی بڑی تقریر میں جو بڑی بات کی وہ یہ ہے کہ ''صحت مند جانوروں کی قربانی تو عید پر کر لی گئی ہے‘ اب پیچھے زخمی اور بچے کھچے رہ گئے ہیں‘ ان کا جھٹکا ہی ہو گا‘‘۔ طویل عرصہ سے جھٹکا صرف عوام کا ہی ہوتا چلا آ رہا ہے۔ گرمیوں میں بجلی کے بلوں کا جھٹکا، سردیوں میں سوئی گیس کے بلوں کا جھٹکا اور پھر بارہ مہینے ریکٹر سکیل پر مہنگائی کے شدید جھٹکے پاکستانی عوام کو پناہ گزینوں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کئے ہوئے ہیں۔ خدا کرے ہمارے عوام کو نئے اور پرانے جملہ اقسام کے جھٹکوں سے نجات ملے۔ آمین!
چاند رات پر رت جگے کے باوجود صبح سویرے اٹھا اور گجرانوالہ پہنچا‘ جہاں تبدیلی آ چکی تھی۔ پہلوانوں اور میرے شہر میں کیا کچھ بدل چکا تھا‘ اس کا تذکرہ بعد میں کروں گا‘ پہلے زندہ دلان کے شہر کا نظارہ کر لیں۔ لاہور کے اصل حُسن کا نظارہ کرنا ہو تو اسے عید کی چھٹیوں میں دیکھنا چاہیے‘ جب مجھ جیسے امیگرینٹس عید منانے اپنے اپنے گجرانوالہ چلے جاتے ہیں۔ گجرانوالہ کا استعمال استعاراتی ہے‘ ورنہ اٹک سے لے کر گھوٹکی اور عیسیٰ خیل سے لے کر ملتان تک اور دوسرے کئی علاقوں کے لوگ بھی لاہور میں آباد ہیں۔ لاہور کی اصل آبادی کے بارے میں علم تو اس دن ہو گا‘ جب مردم شماری کرائی جائے گی‘ مگر اندھا دھند اور اندھی ٹریفک، کسی منصوبہ بندی کے بغیر ہائوسنگ سوسائٹیز اور رہائشی علاقوں میں پانچ سے سات مرلہ پلازوں کی بھرمار اور تجاوزات نے شہر کو آفت زدہ علاقے کا ''درجہ‘‘ د ے رکھا ہے۔ بہرحال عید کے دنوں میں لاہور آبادی اور ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہوتا ہے۔ آبادیوں نے فطرت کے حُسن میں ہر قسم کا گند گھولا ہے۔ جنگل میں چونکہ انسان کا راج نہیں ہوتا اس لئے وہاں ٹریفک، ہائوسنگ سوسائٹیز، پلازے اور تجاوزات کے ساتھ ساتھ دھرنے بھی نہیں دیے جاتے۔ جنگل میں چونکہ دھرنے نہیں دیے جاتے اس لئے وہاں ناکے، خندقیں اور کنٹینر بھی دکھائی نہیں دیتے۔
عید کے دنوں میں لاہور کا کھویا ہوا حُسن تو بحال ہو جاتا ہے مگر اپنے شہر گجرانوالہ کا ناک نقشہ ویسا ہی رہتا ہے۔ گجرانوالہ کے ساتھ کوئی نہر سویز نہیں بہتی اور نہ ہی اس میں بچوں کے لئے کوئی ڈزنی لینڈ ہے لیکن جو تھوڑا بہت تھا‘ اسے بھی ہندو اور سکھ ورثہ قرار دے کر مسمار کر دیا گیا ہے۔ مجھے یاد ہے ستر اور اسی کی دہائی تک شہر کے وسط میں واقع شیرانوالہ باغ میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی بارہ دری ہوا کرتی تھی۔ شیرانوالہ باغ کی جگہ ایک عرصہ سے چھوٹا موٹا پارک دکھائی دیتا ہے اور مہاراجہ کی بارہ دری کے بارے میں خیال ہے کہ گجرانوالہ کارپوریشن نے اسے ''فتح‘‘ کر کے ''مسمار‘‘ کر دیا ہو گا۔ باغ اور پارک میں فرق ہوتا ہے۔ پارک دو چار سال کی محنت کا نتیجہ ہوتا ہے جبکہ باغ کی آبیاری ایک نسل کرتی ہے اور اس سے اگلی نسل اس کے پھل پھولوں سے مستفید ہوتی ہے۔ گجرانوالہ کے شیرانوالہ باغ کو پارک بنا دیا گیا ہے اور اس کے عقبی دروازے پر کھڑے شیر بھی ایک عرصہ سے دکھائی نہیں دیتے‘ حالانکہ اب تو شیروں کی حکومت ہے انہیں ببرشیر ہو جانا چاہیے تھا‘ لیکن وہاں تو لگڑ بگڑ بھی نہیں ہیں۔ وفاقی وزیر صنعت خرم دستگیر خان‘ جن کا اصلی نام خرم دستگیر بٹ ہے‘ کو چاہیے کہ شیروں کی حکومت میں شیرانوالہ باغ کے شیر تو واپس دلوا دیں۔ نواز شریف صاحب کے شیروں کے متعلق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ انہیں جگایا نہ جائے،شیر اگر جاگ گئے تو سرخی رہے گی نہ پائوڈر۔ شیر اگرچہ گوشت خور ہوتا ہے لیکن سرخی پائوڈر ڈسٹرب کرنے والے شیر کو ٹویٹر پر کسی شرارتی نے بالی وڈ کے بولڈ ہیرو عمران ہاشمی کا لقب دیا ہے۔ ٹویٹر پر لوگ ایک دوسرے کو گالیاں بھی دیتے ہیں‘ لیکن اس پر بہرحال دھرنا نہیں دیا جا سکتا کیونکہ آپ مطلوبہ اور ''لغویہ اکائونٹ‘‘ کو پہلی گالی کے بعد بلاک کر سکتے ہیں، دھرنے اور کنٹینر سے براہ راست موصول ہونے والے ''القابات‘‘ کو بلاک کرنے کے بارے میں تو سوچا بھی نہیں جا سکتا کیونکہ آزادیٔ اظہار کا معاملہ ہے۔
ٹویٹر پر صرف شرارتی نہیں ذہین لوگ بھی ٹویٹ کرتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے جملوں میں کسی اہم سیاسی اور قومی مسئلے پر اپنی رائے کا فوری اظہار کرتے ہیں۔ ٹویٹر کو میں ''چھوٹا کالم ‘‘ بھی کہتا ہوں۔ گزشتہ چند دنوں سے میری دلچسپی اس میڈیم میں بڑھی ہے‘ جس کا کریڈٹ اپنے جونیئرز اور دوستوں اجمل جامی اور طارق متین
کو دیتا ہوں۔ یوں تو ٹویٹر پر کئی ایک لوگوں کے ٹویٹ پڑھتا ہوں مگر دو لوگوں کا ذکر کرنا چاہوں گا: ایک محسن حجازی اور دوسری افشاں مصعب‘ جن کے ٹویٹ بعض اوقات ''چھوٹے کالم‘‘ ہوتے ہیں۔ افشاں مصعب نے اپنی ٹائم لائن پر اجڑے ہوئے دھرنوں اور کنٹینروں کے ارد گرد بکھرے شاپروں، غلاظت اور پارلیمنٹ کے جنگلوں پر ٹنگے انقلابی پیراہن کی جو تصویریں لوڈ کی ہیں‘ وہ کام بڑے بڑے پروفیشنلز نہیں کر سکے۔ افشاں نے اپنے بلاک میں لکھا ہے کہ وہ جب ریڈ زون میں گئیں تو ان کا سواگت پارلیمنٹ کے جنگلوں پر ٹنگی مستقیمی شلواروں اور آزاد پتلونوں نے کیا۔ تبدیلی کے روح و رواں کی رشتہ دار خاتون نے کہا کہ جنگلے یونہی خالی پڑے تھے انقلابیوں کا کپڑا لتّا سکھانے کے کام آ گئے تو اچھا ہوا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عمران اور قادری صاحب کو دھرنوں سے کچھ نہیں ملا‘ مگر دونوں کا کہنا ہے کہ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ پوری قوم جاگ گئی ہے‘ جو ایک بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔
جس طرح کسی دوسرے کو مکھن لگایا جاتا ہے‘ برقی صحافت میں کسی ناکام تحریک پر مبارکباد دی جاتی ہے۔ یہ کارنامہ ایک مفرور... مم مم معاف کیجئے گا‘ ایک معروف اینکر پرسن انجام دے رہے تھے۔ اینکر پرسن قبلہ طاہرالقادری کو مبارکباد دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ آپ اور عمران خان ان 54 دنوں کے طویل ترین دھرنوں سے پاکستان میں انقلاب اور تبدیلی کا باعث بنے ہیں اور میں آپ کو اس بہت بڑی تبدیلی پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہمارے ہاں بعض اوقات اینکر پرسن‘ اینکر ہونے کے علاوہ سب کچھ ہوتا ہے۔ وہ سائل ہوتا ہے، ملزم ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ مدعی بھی ہوتا ہے‘ یعنی الٹا چور کسی کوتوال سے پنجابی والا سیدھا ہوا ہوتا ہے۔ میرے بڑے بھائی اور آپ کے عزیزی اداکار سہیل احمد عید کے دنوں میں سابق صدر آصف زرداری سے ملے‘ تو انہوں نے ہر قسم کے مڈٹرم الیکشن کے امکان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ''میاں نواز شریف اپنی ٹرم پوری کریں گے اور ان کی حکومت کو کچھ نہیں ہو گا‘‘۔ زرداری صاحب کی گارنٹی اور ہر قسم کی وارنٹی کے باوجود آخری فیصلہ پاکستان کے عوام کا ہی ہو سکتا ہے‘ جسے جمہوریہ میں کوئی سکھ میسر نہیں اور تبدیلی ان کی زندگی کے لئے ہمیشہ ایک اجنبی چیز رہی ہے۔
عید کے دنوں میں اپنے آبائی شہر میں تبدیلی یہ دیکھی کہ باربی کیو، مٹھائیوں اور سری پایوں سمیت کھابوں کے ''پینٹاگون‘‘ سمجھے جانے والے گجرانوالہ میں امریکی برگر کے فرنچائزڈ پر عوام الپہلوان (عوام الناس کے وزن پر) کی قطاریں دیکھیں۔ پہلوانوں کے شہر میں تبدیلی سے بڑی تبدیلی یہ تھی کہ برگر Taste کرنے والوں کے سامنے 'جوکر‘ کے ساتھ تصویریں بنوانے والوں کی قطاریں اس سے بھی لمبی تھیں۔ جوکر کو میرے شہر میں باقاعدہ ایک سلیبرٹی کا پروٹوکول دیا جا رہا تھا۔ میں گجرانوالیہ ہوں۔ مجھے ادراک ہے کہ یہ کتنی بڑی تبدیلی ہے۔ نامور کالم نگار اور تجزیہ نگار ہارون الرشید 2013ء کے انتخابات سے قبل دوماہ تک اہلِ گجرانوالہ کے مہمان بنے تھے‘ جب وہ نون لیگ کے شیروں کے گڑھ سمجھے جانے والے شہر میں پی ٹی آئی کا ''انتخابی ڈائنامائٹ‘‘ فٹ کر رہے تھے۔ آئندہ اگر ہارون صاحب اپنے دوستوں سے ملنے گجرانوالہ آئیں تو ذہن میں رکھیں کہ مٹن جوائنٹ کے بجائے ان کی تواضع برگر سے بھی کی جا سکتی ہے کیونکہ کھابوں کا پینٹاگون تبدیلی کی زد میں ہے۔