"TSC" (space) message & send to 7575

ہیجڑے ’’تیسری طاقت ‘‘

خبر ہے کہ ہیجڑوں نے سرگودھا اور ماموں کانجن کے علاقوں میں شادی بیاہ کی دومختلف تقاریب میں ''گونواز گو‘‘ کی دُھن پر رقص پیش کرکے بالترتیب 50ہزار اور45ہزار روپے کی دیہاڑی لگائی۔ مذکورہ کہنہ مشقوں کا سراغ لگانے کے لئے میں نے ہیجڑوں کے ''باوثوق ذرائع‘‘ سے رابطہ کیا۔ طباعت اور برقی صحافت میں کوئی مائی کا لال اپنے باوثوق ذرائع کو سامنے نہیں لاتا۔ انتخابات میں جس طرح دھاندلی میں مددگاروں اور پنکچر لگانے والوں کا نام آخری وقت تک چھپایاجاتاہے ، صحافت کا اصول ہے کہ سورس( خبر فراہم کرنے والا) کانام بھی صیغۂ راز میں رکھاجاتاہے ، لیکن یہ بندئہ صحافی کا طرہ ہے کہ بغیر کسی کنٹینر پر چڑھے دلیری کا مظاہرہ کیاجارہاہے اور صحافت کے بنیادی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے معزز خبردہندگان کو متعارف کرایاجارہاہے۔درج بالا خبر کی تصدیق کے لئے میں نے ہیجڑوں کے لیڈران سے رابطہ کیا جن میں گرو الماس بوبی اور گرو نصرت آرا المعروف عاشی بٹ شامل ہیں۔ ہیجڑوں کی دنیا میں دونوں گرو اسی طرح اہم ہیں جیسے اول حکومت ہواور دوم اپوزیشن ،دونوں کی مقبولیت کا اندازہ کسی گیلپ سروے سے لگانے کی بجائے شادی بیاہ کی تقریبات سے لگایاجاسکتاہے جہاں ''گوگو ‘‘ کے مخصوص سیاسی نعروں پر ویلوں ( انعام ) کی شکل میں گرو اور ان کے چیلوں پر لاکھوں روپے کے کرنسی نوٹ لٹائے جارہے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر قادری نے فیصل آباد جلسہ کیاتو انہوں نے اپنے جانثاروں سے سپورٹ ،ووٹ اورنوٹ دینے کے لئے کہا اور وعدہ کیاکہ اس کے بدلے وہ انہیں انقلاب دیں گے۔اس سلسلہ میں شیخ الاسلام صاحب کی خدمت میں عرض کرنا ہے کہ جادوکے کھیل کی طرح عوام کے ووٹ تو ہمیشہ کسی دوسری صندوقیچی سے ہی برآمد ہوتے ہیں ، رہی بات کرنسی نوٹوں سے انقلاب لانے کی تویہ بھی ممکن نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ چندے سے لانگ مارچ،دھرنے ،جلسے ،شامیانوں، تنبوئوں کے علاوہ ڈی جے بٹ کے بل کی ادائیگی تو کی جاسکتی ہے، انقلاب نہیں لایاجاسکتا۔ ویسے بھی قادری صاحب کے جانے کے بعد ڈی چوک کا ٹمپر یچر نومبر میں ہی خاصا نیچے آگیا ہے‘ دسمبر میں یہ علاقہ کہیں سیاچن ہی نہ بن جائے؟ 
کسی نے سوال کیاکہ ہیجڑوں نے 95ہزار روپیہ کمایا۔ انہوں نے قومی خزانے میں ٹیکس کتنا ادا کیا ؟ گرو نے تالی بجاتے ہوئے جواب دیا ''کھسرے ٹیکس نہیں بخرہ دیتے ہیں‘‘۔ ہیجڑوں کے ''نظام حکومت‘‘ میں بخرے سے مراد کمائی گئی رقم سے حصے کے ہیں۔ گرو نے 95ہزار روپے خسارے کا بخرہ یوں پیش کیاجیسے اسحاق ڈار خسارے کا بجٹ پیش کرتے ہیں۔ بیان کیاکہ کمائی گئی رقم کے کئی بخرے ہوتے ہیںجیسے ڈیرے دار ( مالک مکان ) کا بخرہ جس میں بجلی ، گیس، پانی اورٹیلی فون کا بل شامل ہوتا ہے۔ ہیجڑوں کی ٹیم اپنے گرو کی قیادت میں شادی بیاہ،تیل مہندی، سالگرہ ، گیٹ ٹوگیدر، بچے کی پیدائش سے لے کر ضمنی انتخابات میں کامیاب ہونے والے سیاسی رہنمائوں کے ڈیروں تک‘ غرض ہر جگہ اپنے فن کا مظاہرہ کرکے روزی روٹی کماتے ہیں۔ایک یا دو جونیئر ہیجڑے گھر کی دیکھ بھال اور ہانڈی روٹی کی غرض سے ''فیلڈ ورک ‘‘ نہیں کرتے جنہیں گھر پر ہی ان کے حصے کا بخرہ ادا کیاجاتاہے۔ اصول یہ ہے کہ چیلے کا ایک بخرہ ہوتاہے جبکہ گرو 2عدد بخرے وصول کرتاہے۔گرو نے تفاخرانہ انداز سے کہاکہ جوں جوں طوائف بوڑھی ہوتی ہے‘ اس کارزق کم ہوتاہے، دوسری جانب خواجہ سرا کے بزرگ ہونے پر اس کی کمائی ضرب در ضرب بڑھتی جاتی ہے۔نائکہ ،طوائف کے رحم وکرم پر ہوتی ہے جبکہ گرو اپنے چیلوں کے بل بوتے پر راج کرتاہے۔
ایک مرتبہ ہیجڑہ الیکشن پر کھڑا ہوگیاجس کانام حاجی عبدالرشید تھا ۔چیلے حلقے میں اس کی انتخابی مہم پر یوں نعرہ زن تھے کہ ''اب راج کرے گی ، حاجی عبدالرشید، اب راج کرے گی ، حاجی عبدالرشید‘‘۔شناختی کارڈ میں خواجہ سرا لکھے جانے سے پہلے یہ اپنے لئے مونث کاصیغہ پسندکرتے تھے مگران کے ساتھ اکثر ایسا بھی ہوتارہا کہ ''میں گجرانوالہ سے بس پر چڑھی اور لاہور اُتر گیا‘‘۔موسیقی اور رقص سے ان کی والہانہ وابستگی ہوتی ہے،جیسے پرندے اڑتے ہیں‘ ویسے کھسرے ناچتے ہیں، جیسے پرندے اڈاریاں مارتے اوراڑان بھرتے ہیں،ویسے کھسرے ٹھمکے لگاتے اور لڈیاں ڈالتے ہیں۔کھسرے رومانٹیک ہو ں تو وہ یہ گیت گاتے ہیں''جناں تیری مرضی نچا بیلیا ‘‘ ۔کھسرا اگر شرابی ہوجائے تو وہ یہ فرمائش کرتاہے ''مجھے نولکھا منگوا دے رے او سیاں دیوانے ‘‘۔کھسرے کی زندگی میں کوئی انقلاب آجائے اور وہ سیاسی ہوجائے تو یقینا اپنے جذبات، احساسات اورنظریات بیان کرنے کے لئے اس گیت کا سہارا لے گا کہ ''شرافت چھوڑ دی میں نے ‘‘۔کھسرا اگر سوشل ہوتو وہ یہ غزل گاکر اپنی پی آر (تعلقات عامہ) کا دائرہ وسیع کر سکتا ہے کہ ''ہنس کے بولا کروبُلایا کرو‘‘۔خواجہ سرا اگر ڈپلومیسی سے کام لے رہاہوتو وہ یہ گیت گنگنا سکتا ہے ''نظر میں رہتے ہوپر تم نظر نہیں آتے، یہ ُسر بلاتے ہیں پر تم اِدھر نہیں آتے ‘‘۔
مردوں اور عورتوں کے بعد خواجہ سراہی تیسری طاقت کہلانے کے حق دار ہیں۔ان کی رنگین،سنگین ، غمگین، نمکین، ماہین اور رنگوں سے بھری زندگی اور دیگر سچویشنز پر کون سے گیت فٹ بیٹھتے ہیں‘ ان کے گردبھی حاشیہ کھینچتے ہیں۔بے وفائی کی سچویشن میں اس گیت کا نغماتی حوالہ دیاجاسکتا ہے ''چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘‘۔ ناراض خواجہ سرا اگر اچانک مان جائے تو فضاوں میں یہ گیت گونج سکتا ہے ''چلو سجناں جہاں تک گھٹا چلے‘‘ کسی دیرینہ پرستار کی شادی کی سچویشن ہوتو وہ اس گیت کو پرفارم کرنا پسندکرتے ہیں ''آخری گیت سنانے کے لئے آئے ہیں‘‘۔سہیلی کی شادی پر وہ یہ گیت گاکر اپنا کتھارسس کرسکتے ہیںکہ '' وہ بے وفا کسی اور کے ساجن کی سہیلی ہوگئی ‘‘ ۔ بالغ ہونے پر کھسرے کا منشور یہ گیت ہوسکتا ہے کہ '' آج میں اوپر آسمان نیچے ‘‘ ۔ نظر انداز ہونے پر یہ تیسری نمائندہ طاقت صدائے احتجاج یوں بلند کرسکتی ہے کہ ''دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتاہے ‘‘۔کھسرے کا رجحان اگر فاسٹ ردم اور ڈسکومیوزک سے صوفی میوزک کی طرف ہوجائے تو وہ سب کچھ تیاگ کر کانوں پر واک مین چڑھائے محمد رفیع کا یہ گیت سنتا پھرتا ہے ''آج پرانی راہوں سے کوئی مجھے آواز نہ دے‘‘۔ اگر کوئی کھسرا کام چھوڑ دے تو اس کی برادری اسے واپس آنے کے لئے یوں مجبور کرتی ہے''تجھ کو پکاریں میرے گیت 
رے ‘‘۔دوسری جانب کھسرا اگر ''عامیانہ ‘‘ زندگی گزارنے کا مصمّم ارادہ کرچکا ہوتو جواب آں غزل کے طور پر شہنشاہ غزل مہدی حسن کی گائی غزل اپنی درمیانہ آواز میں یوں الاپتا ہے ''میں کب کا جاچکاہوں صدائیں مجھے نہ دو‘‘۔ 
کسی نے مجھے کہاکہ سیاسی اور دفاعی تجزیہ نگار تو میڈیا میں مصروف عمل تھے‘ کیا اب خواجہ سرائی کی آڑ میں تیسری طاقت کی نمائندگی ہوگی؟ جب دعویٰ کیا جارہاہے کہ قوم بیدار ہوچکی ہے تو کیاخواجہ سرا اب بھی خواب ِخرگوش کے مزے لوٹنے میں مصروف رہتے ؟ اگرچہ ملتان میں خرگوش،شیر کو کھاگیاہے مگر ہیجڑوں کا پسندیدہ جانور اب بھی مور ہے کیونکہ جب مورناچتا ہے توسارا جنگل محوِرقص ہوتا ہے ۔آپ یوں کہہ سکتے ہیںکہ ناچنا اورگانا کھسروں کا آئین اورمنشور ہوتاہے جس میں وہ کبھی بھی کوئی ترمیم نہیں کرتے ۔کھسرے ڈیموکریٹک ہوتے ہیں لیکن اپنی پرم پرا اور رسم ورواج پر عمل درآمد کرنے کے معاملے میں وہ ڈکٹیٹر کے بھی باپ ہوتے ہیں ۔ 
ذوالحج ختم ہونے کو ہے اور محرم الحرام کا مہینہ شروع ہونے والا ہے۔ پہلے اسلامی مہینے میں خواجہ سرا عاشورہ محرم کے شہدائے کی یاد مناتے ہوئے اپنا کاروبار بند کردیتے ہیں۔ دوسری طرف ''جہاد‘‘ کے نام پر مخالفین کے لئے خودکش حملہ آور بھیجنے والے ان دنوں کو اپنے قبیح منصوبے کے لئے موزوں پاتے ہیں۔ ان حملہ آوروں سے خواجہ سرا سوفیصد بہتر ہیں۔قوم کو پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے فیصلے کا انتظار ہے کہ عاشورہ محرم کے دنوں میں دھرنا ہوگا یانہیں؟کپتان نے کہاکہ وہ جب تک زندہ ہے دھرنا دے گا۔ پروردگار کپتان کو صحت کے ساتھ لمبی زندگی عطا کرے، کپتان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے چاہنے والوں کو دہشت گردوں کے رحم وکرم پر نہ چھوڑیں! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں