"TSC" (space) message & send to 7575

2015ء کے سیاسی حروف تہجی…(2)

Recapحاضِر خدمت ہے... 
2نومبر بروزاتوار کو شائع ہونے والے کالم ''2015ء کے سیاسی حروف تہجی ‘‘لکھتے ہوئے بات ''ش‘‘ تک پہنچی تھی ۔میں نے لکھاتھاکہ: ''ش‘‘ سے شیر ہوتاہے جو نون لیگ کا انتخابی نشان ہوتاہے۔کسی زمانے میں شیر کو جنگل کا بادشاہ تصور کیاجاتاتھا مگر نیشنل جیوگرافک چینل میں پیش کی جانے والی ڈاکومینڑیز میں دکھایاگیاہے کہ چارپانچ لگڑ بگڑ (Hyenas) اگر اتحاد کرکے شیر پر حملہ آور ہوجائیں تو شیر کو نہ صرف بکری بنادیتے بلکہ بعض صورتوں میں وہ اسے چیر پھاڑ کر ڈکا ربھی نہیں مارتے۔ ''ش‘‘ سے شیخ رشیداور شیخ الاسلام بھی ہوتے ہیں۔ دونوں اگر ایک Pageپر ہوں تو سمجھ جائیں کہ ''س‘‘ سے سکرپٹ اسی کمپنی کا مہیا کردہ ہے جس کے بارے میں سب جانتے ہیں، لیکن کمپنی کی مشہوری کے لئے اس بار پاکستان کو شروع سے تعمیر کیاجارہاہے۔
2015ء کے سیاسی حروف تہجی میں ''ص‘‘ سے صدر ہوتاہے جس کے پاس اٹھاون ٹو‘ بی جیسا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ماضی میں صدر جنرل ایوب خان ،صدر جنرل یحییٰ، صدر جنرل ضیا الحق اور صدر جنرل مشرف جیسے باوردی اور با اختیار صدور کا رواج تھا۔ یہی کام صدر غلام اسحاق خان اور صدر لغاری نے شیروانیوں میں سرانجام دیا۔ صدر زرداری نے جمہوریت کو اس کی کھوئی ہوئی ''جمہورانہ طاقت‘‘ واپس دلانے کے لئے اپنے عہدے کے اندر پائی جانی والی آمرانہ قوت توبخش دی مگر اسٹیبلشمنٹ کو قدرے ڈسٹرب کرنے کی پاداش میں اقتدار کے سانپ سیڑھی کھیل میں اپنی پارٹی پوزیشن خراب کربیٹھے۔ ''ض‘‘ سے ضرب عضب جیسا آپریشن ہوتا ہے جس سے دہشت گردوں کی کمر توٹوٹ جاتی ہے لیکن اس کے باجود جنداللہ نامی کوئی کالعدم تنظیم 60سے زائد بے گناہ پاکستانیوں کو شہید کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔سابق چیف جنرل کیانی نے کہاتھاکہ ہمیں باہر سے نہیں اندر سے خطرہ ہے ،اس دن بھی وہی ہوا خودکش دھماکہ سرحد کے پار نہیں اندر سے ہوالیکن ہمارے نعروں کا رخ سرحد کی اس طرف تھا۔ ''ط‘‘ سے طاہر القادری ہوتے ہیںجو گاہے بگاہے سکائی لیب کی طرح ہم پرگرائے جاتے ہیں۔ طاہر القادری ظالمانہ اور سفاکانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے کے لئے کینیڈا سے طلوع ہوتے ہیں مگر 14 جانثاروں کی شہادت اور 72دن کے دھرنے کے بعد اچانک غروب ہوجاتے ہیں۔ اگلے منظر میں وہ کینیڈا میں اپنے فیورٹ ریستوران میں فاسٹ فوڈ نوش فرماتے دوبارہ طلوع ہوتے ہیںیعنی ''جہاں میں قادری بھی صورتِ خورشید جیتے ہیں ،اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے ،اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے‘‘۔
وزیر اعظم نوازشریف کی ہدایت پر تیارکئے جانے والے نئے سلیبس میں اگرچہ جمہوریت کے اسباق پڑھائے جانے پر زور دیاجائے گا مگر معروضی سیاسی حالات میں جو حروف تہجی وضع ہوں گے ان میں بھی رعایا کیلئے ''ظ‘‘ سے ظلم رہے اورامن بھی ہو جیسی معاشی پالیسیاں اپنائی جائیںگی۔انہی پالیسیوں کے تحت بجلی اورگیس کے نرخ بڑھا کر ثابت کیاجائے گاکہ سبسڈی سے فائدہ اٹھانا زندہ قوموںکاشیوہ نہیںہوتا۔ نئے حروف تہجی میں ''ع‘‘ خصوصی اہمیت کا حامل رہے گا۔ ''ع‘‘ سے عدلیہ جیسے ادارے معرض وجود میں آتے ہیں ۔اداروں کی کشمکش سے عدم استحکام اورعدم اعتماد بھی پیدا ہوتاہے اور ''ع‘‘ عمران خان بھی ہوتے ہیںجو بالترتیب آزادعدلیہ کی جنگ لڑتے ہیں،سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال کرانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں،چیف صاحب 2013ء کے الیکشن کراتے ہیں،نتائج کو عمران جیسے تیسے قبول کرلیتے ہیں ،چیف صاحب پر انتخابات میں دھاندلی کرانے کے سنگین الزامات عائد کرتے ہیں،دنیا میںدیاجانے والاطویل ترین دھرنا دیتے ہیں ، وزیر اعظم سے استعفیٰ طلب کرتے ہیں اورپھر سراج الحق کے اسرار پر سپریم کورٹ سے تحقیقات کرانے کے لئے راضی ہوجاتے ہیں۔ ''غ‘‘ سے غیر پارلیمانی ، غیر جمہوری ، غیر اخلاقی ،غیر آئینی اور غیر سیاسی جیسی اصلاحات متعارف کرائی جائیںگی۔علاوہ ازیں ''غ‘‘ سے غداری اورغنڈہ گردی جیسی تشبیہات اور استعارے بھی سلیبس میں شامل کئے جائیں گے۔ ''ف‘‘ سے فاٹا ہوتا ہے جہاں سے تعلق رکھنے والے ممبران کے بیش قیمت ووٹ جمہوری اورآمری جملہ حکومتوں کے لئے اکسیری نسخے کا کام کرتے ہیں۔ 
نئے قاعدوں اورکتابوں میں ''ق‘‘ سے مراد قائد اعظم ؒ ہوں گے مگر ان کے دائیں بائیں آج کے قائدین بھی جلوہ گر ہوں گے۔نئے قائدین کے کلر فل پورٹریٹس کے ساتھ ساتھ درج عبارت میں یہ ثابت کیاجائے گاکہ ہم بڑی خوش نصیب قوم ہیں کہ ہمیںایسے قائدین میسر آئے جوناپید ہوچکے ہیں۔ ''ک‘‘ سے کراچی ہوتاہے۔ اسے کبھی عروس البلاد (شہروں کی دلہن) کہاجاتاتھاپھراپنوں اوربیگانوں نے 
اس کا سہاگ اجاڑ دیا۔ کراچی میں رینجرز تخریب کاروں اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے،خدا کے حضور دعا ہے کہ اس شہر کی رونقیں اورسکون بحال ہوجائے۔جمہوری سلیبس میں خیال رکھا جائے گا کہ ''گ‘‘ سے گلو بٹ اور ''گونوازگو‘‘ کانعرہ بلند نہ ہونے پائے۔ ''گ‘‘ سے گناہ، گمراہ اور گندگی بھی ہوتی ہے جس کے ڈھیر ہمارے ہاں جابجا ''گڈ گورننس‘‘ کے رنگوں میں مزید رنگ بھرتے دکھائی دیتے ہیںلیکن کتابوں میں ایسے غیر شائستہ الفاظ اورمناظر سے بھی احتراز برتاجائے گا۔ ''ل‘‘ سے لاقانونیت،لوٹا کریسی اورلارے لپے ہوتے ہیںجو چین کے تعاون سے ہوا،کوئلہ اورپانی سے بجلی بنانے کے پراجیکٹس کے سلسلہ میں لگائے جاتے ہیں۔ ''م‘‘ سے مذاکرات ہوتے ہیںجو ناکام ہوجائیں تو آپریش ضرب عضب کیا جاتا ہے۔ ''م‘‘ سے مردم شماری ہوتی ہے جو ہمارے ہاں لگ بھگ ربع صدی (25سال ) بعد کروائی جانے کی بات ہوتی ہے۔ ''م‘‘ سے موٹروے ہوتاہے اور ''م‘‘ سے ہی میاں نوازشریف ہوتے ہیں‘ موٹروے جن کامعرکہ لکھا اورپڑھاجاتاہے۔ اسی طرح ''ن‘‘ سے پی ایم ایل ن ہوتی ہے یعنی پاکستان مسلم لیگ (نواز )جو پاکستان میں ووٹ کی طاقت سے تیسری بار اپنی حکومت قائم کرتی ہے اور اس طرح میاں نوازشریف کی بطور وزیر اعظم ہیٹرک بھی مکمل ہوتی ہے۔ نون لیگ، نوازشریف اوران کے اہل خانہ 30سے 35 سال اقتدار میں رہتے ہیں لیکن عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوپاتے ۔آخر الذکر صحافیانہ اورناصحانہ جملہ معترضہ پاکستان ٹیکسٹ بورڈ سے جاری شدہ کسی بھی قاعدے کتاب میں شامل نہیں ہوگا لہٰذا زبان کے چٹخارے کے لئے یہیں منہ کرارا کیجئے!
ویسے تو ''ن‘‘ سے نوازلیگ ہی اپنے سماجی ،سیاسی، معاشرتی، معاشی ،جمہوری معنی اورمفہوم کے وسیع جثے کے لحاظ سے کماحقہ‘ ہے لیکن اس ''فرہنگ صحافیانہ‘‘ کے دامن میں ''ن‘‘ سے نعرہ، نوٹ، نظام ،نااہل ، نوراکشتی اور نصیبو لال کے نام بھی پائے جاتے ہیں۔ نصیبو لال جس نے دکھیارے عوام کی خودساختہ نمائندگی کرتے ہوئے یہ گیت گایاتھاکہ ''نصیب ساڈے لکھے گئے کچی پنسل نال‘‘یعنی (ہمارے نصیب کچی پنسل کے ساتھ لکھے گئے ) ۔
نئے سلیبس میں ''و‘‘ سے وکیل ہوگا۔ہمارے ہاں قانون کی معاونت اورتشریح کرنے والے بہت سے وکیل ہیں۔اسی طرح جمہوریت اور آمریت کے حق میں دلائل دیتے مہنگے وکیل صفائی اوروکیل استغاثہ بھی ہیں۔وکیل چونکہ بہت اچھے ہوتے ہیں اس لیے ہمارے ہاں وکیل گردی اورلاقانونیت بالکل نہیں ہے۔ ''ہ‘‘ سے ہلچل ہوتی ہے جو ہمارے ہاں آئی رہتی ہے ۔ہلچل کو میڈیا میں دکھانے کے لئے ہلچل رہتی ہے۔ ''ہ‘‘ سے قومی کھیل ہاکی ہوتاہے جس کا برا حال ہوتا ہے۔ ''ہ‘‘ سے ہندو اور ہندوستان ہوتا ہے، نئے سلیبس میں دونوں کو ازلی دشمن ہی قراردیاجائے گا۔ 
حروف تہجی میں اب باقی بچی چھوٹی ''ی‘‘ اور بڑی ''ے‘‘ پرانے قاعدوں میں چھوٹی ''ی‘‘ سے یکّہ ہوا کرتاتھاجس سے مراد گھوڑے سے لدی خوبصورت رتھ ہوا کرتی تھی۔یکّا تاش کے پتوں میں سب سے بڑا پتہ ہوتاہے۔یوں توچڑیا ،اینٹ اورپان کے یکّے بھی ہوتے ہیں لیکن حکم کایکاّسب سے پاور فل ہوتاہے۔ بعض صورتوں میں حکم کے یکّے کو امپائر کا نام بھی دے دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اقتدار کے کھیل میں امپائر انگلی اٹھا دے تو اس کامطلب جبراً استعفیٰ لینے یا جمہوریت کا بستر گول ہونے سے لیاجاتاہے۔سکرپٹ پر سوفیصد عمل درآمد نہ ہوسکے تو امپائر کو اوپر والا قراردے کر بات گول کردی جاتی ہے۔ (ختم) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں