شیخ رشید احمد جس تندی و تیزی سے عمران خان کے 30 نومبر والے جلسے کی مشہوری کر رہے ہیں‘ اسی شد و مد سے وہ ''کمپنی کی مشہوری‘‘ کیا کرتے ہیں۔ شیخ صاحب جس جارحانہ انداز سے رواں ماہ کے آخر میں نمائش کی جانے والی ''فلم‘‘ کی مشہوری کر رہے ہیں اس سے مجھے اپنے بچپن اور پاکستان فلم انڈسڑی کے جوبن کا زمانہ یاد آ گیا۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان کا سرکٹ عیسیٰ خیل سے لے کر چٹاگانگ تک پھیلاہوا تھا۔ زیبا، محمد علی، ندیم‘ شبنم، وحید مراد اور دیبا سمیت لالے سدھیر کی فلمیں پشاور، لاہور، کوئٹہ، کراچی کے ساتھ ساتھ ڈھاکہ میں بھی نمائش پذیر ہوا کرتی تھیں۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ پنجابی فلموں کے جنگجو ہیرو لالہ سدھیر کی فلم میں انٹر ی ہوتی تو ''سابق‘‘ بنگالی بھائی کرسیوں پر کھڑے ہو کر بڑھکیں لگایا کرتے تھے۔ روبن گھوش لاہور میں بیٹھ کر نغمے بکھیر رہے تھے۔ محمد علی، ندیم اور وحید مراد ڈھاکہ میں پسند کئے جاتے تھے۔ یوں فلم نے مشرقی اور مغربی پاکستان کو آپس میں جوڑ رکھا تھا‘ مگر زندگی کی حقیقی فلم میں دونوں کو ایک دوسرے سے دور کیا جا رہا تھا۔ 71ء میں سانحۂ مشرقی پاکستان رونما ہوا۔ بنگالیوں نے اپنے علیحدہ دیس کا نام بنگلہ دیش رکھا اور پاکستانی فلم کا سرکٹ سکڑ گیا۔ یہ سانحہ قوم کے ساتھ ساتھ قومی فلم انڈسٹری کے زوال کا بھی آغاز تھا۔
مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوئے 43 سال ہونے کو ہیں مگر ہمارے ہاں اب تک ''فلم میکنگ‘‘ کا بزنس بند نہیں ہوا۔ شیخ صاحب ''انڈر گراونڈ فلم انڈسٹری‘‘ کے ایڈورٹائزمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے اہم رکن اور ایک منجھے ہوئے کلاکار ہیں‘ جو اس سے پہلے بنائی گئی فلموں کی تشہیر بھی ''کمپنی کی مشہوری‘‘ کے لئے کیا کرتے تھے۔ کبھی یہ میاں نواز شریف کی فلم ''ہم دل دے چکے صنم‘‘ کی کاسٹ میں شامل ہوا کرتے تھے اور پھر وہ دن بھی آئے جب جنرل پرویز مشرف کی فلم ''دل والے دلہنیا لے جائیںگے‘‘ میں نمایاں کردار میں دکھائی دیے۔ ایک سیلف میڈ آرٹسٹ کی طرح خالص آمری اور نیم جمہوری فلموں میں کام کرتے ہوئے انہوں نے اپنے فنی قد میں اضافہ کیا، لیکن ان کی بائیوگرافی کا مطالعہ کریں‘ تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز صدر جنرل محمد ضیاالحق کے دور میں کیا تھا اور ان کی Debut Film (پہلی فلم ) کا نام ''شعلے‘‘ تھا۔ اگرچہ فلم میں ان کا کردار ثانوی نوعیت کا تھا‘ لیکن یہ کوئی مسئلہ نہیں‘ بڑے بڑے کلاکار اپنی فنی زندگی کا آغاز اسی طرح کیا کرتے ہیں۔ شیخ صاحب کی فنی زندگی کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ عمران خان انہیں اپنی فلم میں کاسٹ نہیں کرنا چاہتے تھے‘ مگر جذبے اگر سچے ہوں تو منزل مل جایا کرتی ہے۔ تبدیلی کے روح و رواں ویسے تو عمران خان ہی ہیں مگر شیخ صاحب کی حیثیت سائیڈ ہیرو سے کم نہیں۔
ایک زمانہ تھا جب فلم انڈسٹری میں بڑی فلموں کے حصول کیلئے ''بنگالی بابوں‘‘ سے تعویذ لئے جاتے تھے۔ فلمی ہیروئنیں ایک دوسرے کو نیچے دکھانے، نمبر ون بننے، بڑے بجٹ کی فلم بنانے والے پروڈیوسر کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے علاوہ ایک دوسرے کا شوہر چھیننے کے لئے بھی تعویذ گنڈے کرایا کرتی تھیں۔ ایک جونیئر فنکارہ نے اپنی سینئر اداکارہ کا کمائو شوہر چھیننے کے لئے بابا سے استدعا کی تو اس نے الو کے خون سے تعویذ لکھ کے دیے۔ یہ الو کے خون کا کرشمہ ہے یا اس شوہر نامدار کی ذاتی پرفارمنس کہ وہ مذکورہ اداکارہ کی تابعداری میں الو کے پٹھے کو بھی بہت پیچھے چھوڑ گیا۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ کہنا صرف یہ تھا کہ شیخ رشید صاحب نے بھی عمران خان کو اپنے دام سیاست میں پھنسانے کے لئے بہت کچھ کیا ہو گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج شیخ رشید‘ پی ٹی آئی کے سٹیج سے گرجتے ہوئے عوام کو برسنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ شیخ صاحب کہہ رہے ہیں: ''کرپٹ حکومت کو گرانے کے لئے گھر سے نکلو‘ دھرنے دو‘ جلسوں میں آئو‘ جلائو‘ گھیرائو‘ مارو اور مر جائو... وغیرہ وغیرہ‘‘۔ شیخ صاحب اپنے فن کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اکثر اپنی ڈکشن میں ہی بات کرتے ہیں، جوڈو کراٹے، پکے راگ، ہلکی پھلکی موسیقی، غیب کا علم اور ایسے ہی دیگر دلچسپ جملوں اور لچھے دار گفتگو کے باعث وہ میڈیا کی ضرورت بنے ہوئے ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں ڈیڈلائن دینے کا رواج یوں تو پرانا ہے لیکن اس کی ضرورت اس وقت پڑتی تھی جب کوئی سیاسی تحریک اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والی ہوتی تھی۔ ملک میں الیکٹرانک میڈیا‘ جو پرنٹ میڈیا سے انتہائی تیز ہوتا ہے‘ متعارف ہوا تو یہ پہلو بھی سامنے آیا کہ اس کی بنیاد ہی غالباً ڈیڈ لائن پر استوار کی گئی ہے؟ فیلڈ مارشل ایوب اور جنرل محمد ضیاالحق کی حکومتوں کو لمبی چوڑی ڈیڈ لائنز نہیں دی گئی تھیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے ملک پر 10 سال حکومت کی‘ مگر پھر اقتدار سے یوں نکلے جیسے مکھن سے بال۔ جنرل محمد ضیاالحق کے گیارہ سالہ دور کا خاتمہ بھی سی ون تھرٹی کے کریش ہونے پر ہوا تھا۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں الیکٹرانک میڈیا متعارف ہو چکا تھا‘ لہٰذا انہیں اقتدار چھوڑنے پر مجبور کرنے کے لئے وکیلوں، سول سوسائٹی، سیاستدانوں اور میڈیا نے بھرپور تحریک چلائی لیکن ڈیڈلائن پھر بھی نہیں دی گئی تھی۔
ڈیڈ لائن صرف نیم جمہوری حکومتوںکو دی جاتی ہے۔ یہ وہ حکومتیں ہوتی ہیں جنہیں اپنا بندہ سمجھ کر اقتدار میں لایا جاتا ہے لیکن بعض اوقات آرٹسٹ کو یہ غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ لاکھوں اور کروڑوں عوام کا فین کلب اس کا ذاتی ہے۔ یہ آرٹسٹ اور سٹارز اپنے آپ کو ہیوی مینڈیٹ سمجھتے ہوئے پَر پُرزے نکالنے لگتے ہیں تو نئے سٹارز سامنے لائے جاتے ہیں۔ ایسا اس لئے کیا جاتا ہے کہ پرانے سٹارز کو ان کی اصلی باکس آفس پوزیشن اور اوقات یاد دلائی جا سکے۔ یہ طریقہ کار نیم جمہوری حکومتوں اور حکمرانوں کے لئے آزمایا جاتا ہے، کلاسیکی یعنی آمری حکومتوں کو ڈیڈ لائن دیتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کے بھی پَر جلتے ہیں۔ پَر بھلے جلتے ہیں لیکن ایسا نہیں کہ ہمارا آزاد اور بہادر میڈیا اسے کُھل کھیلنے کا موقع دیتے ہوئے کچھ کہتا نہیں۔ ڈکٹیٹر کو کُھل کھیلنے
کے لئے ٹائم ضرور دیا جاتا ہے لیکن فلم کی آخری ریلوں میں اسے اقتدار کے ایوانوں سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ ہر ڈکٹیٹر کا انجام ایک جیسا نہیں ہوتا۔ اس میں تنوع سے کام لیا جاتا ہے۔ وہ فیلڈ مارشل ایوب خان تھے جو اقتدار سے مکھن کے بال کی طرح نکلے، جنرل مشرف کا معاملہ دوسرا تھا۔ کمانڈو خان اقتدار سے بمشکل یوں نکالے گئے جیسے دلدل سے ہاتھی۔
جنرل ضیاالحق کے طویل گیارہ سالہ دور میں ہمارے ہاں سیاسی کلاکاروں کی کھیپ تیار کی گئی تھی۔ یہ کام یقینا اس لئے کیا گیا تھا کہ ایسے کلاکار پیدا کئے جائیں‘ جو صرف مہیا کئے گئے سکرپٹ کے مطابق اپنی اپنی پرفارمنس کا مظاہر ہ کریں۔ یہ قومی فریضہ اس لئے بھی ادا کیا گیا تھا کہ آئندہ کوئی ایسا سٹار پیدا نہ ہو جو بنگلہ دیش کے نام سے اپنا علیحدہ ''سرکٹ‘‘ قائم کر لے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ 70ء کے انتخابات میں منظر عام پر آنے والے دونوں محبوب لیڈروں شیخ مجیب الرحمان کو بنگلہ دیش (مشرقی پاکستان) میں اور بھٹو کومغربی پاکستان میں موت نصیب ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب روس اور امریکہ دنیا کا ''ڈان‘‘ بننے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اس خطرناک فلم کا سکرپٹ تیار تھا اور اس کی شوٹنگ کیلئے افغانستان کی لوکیشن مارک کی گئی۔ روس اور امریکہ اپنی معاشی اور عسکری بالادستی کی خطرناک جنگ افغانستان میں لڑ رہے تھے۔ جنرل محمد ضیاالحق نے اس ہارر ایڈونچر فلم میں ایکسٹرا سپلائی کئے اور اس کے عوض ڈالر وصول کئے۔ پاک افغان سرحدوں پر دنیا کی خطرناک ترین جنگ چھڑ چکی تھی۔ پاکستان جیسے پُرامن ملک میں طالبان، پنجابی طالبان، القاعدہ کے بعد داعش نامی ''نئی فلم‘‘ کی تشہیر کی جا رہی ہے۔ (جاری)