"TSC" (space) message & send to 7575

Love Triangle

بھارت سے دوستی اور امن کی آس لگائے میڈیا کہہ رہا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور بھارتی وزیر اعظم مودی کے مصافحہ نے 18ویں سارک کانفرنس کی اختتامی تقریب میں جان ڈال دی۔ نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں ہونے والی سارک کانفرنس میں میاں صاحب اور مودی کی حیثیت بھارتی فلم ''شعلے‘‘ کے امیتابھ بچن اور دھرمیندر سے کم نہ تھی۔ ناراض ہمسایہ ممالک کے وزرائے اعظم کو ''Kill Dil‘‘ کے ہیروز علی ظفر اور رنویر کپور سے بھی تشبیہ دی جا سکتی ہے‘ لیکن دونوں (میاں اینڈ مودی) کے سیاسی سٹارڈم کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بگ بی اور دھرم جی کا حوالہ دینا مناسب جانا۔ 
دو روزہ کانفرنس کا آغاز ہوا تو دونوں رہنما ایک دوسرے سے دُور دُور دکھائی دیے، دونوں کے چہروں پر تنائو تھا‘ لیکن آخر میں کمال ہو گیا۔ پہل مودی نے کی‘ بھارتی وزیر اعظم کی اپنے پاکستانی ہم منصب سے آنکھیں چار ہوئیں تو انہوں نے ہاتھ بڑھایا‘ جسے وزیر اعظم نواز شریف نے گرمجوشی سے تھام لیا اور پھر 30 سکینڈ تک دونوں طرف سے پُرجوش مصافحہ ہوتا رہا۔ سارک میڈیا نے کہا ہے کہ Sharif-Modi handshake rescues SAARC summit بھارت اور پاکستان کے سربراہان کو مصافحہ کرتے دیکھا‘ تو افغانستان کے صدر اشرف غنی دُور سے چلتے ہوئے آگے بڑھے۔ اب وزیر اعظم نواز شریف درمیان میں تھے‘ ان کے دائیں اور بائیں بھارت اور افغانستان کے سربراہان تھے۔ تینوں کیمروں کی طرف دیکھ کر مُسکرا ئے تو یوں لگا جیسے محبوب خان کی بلاک بسٹرLove triangle فلم ''انداز‘‘ کا پوسٹر ہو‘ جس میں دلیپ کمار، راج کپور اور نرگس تینوں پہلی بار جلوہ گر ہوئے اور یہی وہ فلم تھی‘ جس نے برصغیر میں Love triangle فلموں کا باقاعدہ رواج ڈالا‘ جو لگ بھگ 65 برس بعد آج تک جاری ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف اور نریندر مودی کو ایک دوسرے کے قریب دیکھ کر مجھے وہ منظر بھی یاد آیا‘ جب سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی واہگہ کے راستے لاہور آئے تھے۔ یہ 21 فروری 1999ء کی صبح تھی۔ واجپائی کے ساتھ آنے والے وفد میں اداکار دیو آنند، ششی کپور، شتروگھن سنہا، گلوکار مہندر کپور، لوک گلوکارہ سریندر کور اور شاعر جاوید اختر سمیت کئی افراد تھے۔ جاوید اختر سے میری پہلی ملاقات 1995ء میں استاد نصرت فتح علی خاں نے کرائی تھی۔ استاد نصرت اور جاوید اختر ''آفریں آفریں‘‘ کے نام سے ایک آڈیو البم تیارکر رہے تھے‘ جس کے گیت لاہور میں لکھے گئے تھے۔ شاہراہ قائد اعظم پر واقع ہوٹل کے تیسرے فلور پر ایگزیکٹو سویٹ میں میوزک کی ٹکسال لگی رہتی تھی۔ مجھے یاد ہے‘ جتنے دن جاوید اختر لاہور میں تھے‘ وہ رائونڈ دی کلاک استاد نصرت فتح علی خان کے ساتھ میوزک سیشن میں مصروف رہے۔ میں بھی میوزک کی اس ایمرجنسی وارڈ میں میوزیکل فرسٹ ایڈ سے روحانی خوراک سٹور کرتا رہا۔ جاوید اختر اور شتروگھن سنہا نے مجھے دیو آنند، ششی کپور، مہندر کپور اور سریندر کور سے بھی ملوایا۔ دیو آنند اور سریندر کور کی لاہور سے بہت سے یادیں وابستہ تھیں۔ دیو آنند کا آبائی علاقہ شکر گڑھ ہے‘ جو متحدہ پنجاب کے ڈسٹرکٹ گورداسپور کی تحصیل میں شامل ہوا کرتا تھا اور ان دنوں نارووال ڈسٹرکٹ میں شامل ہے۔ دیو آنند کا لڑکپن لاہور میں گزرا تھا۔ وہ فرسٹ ایئر سے لے کر بی اے تک گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ یہی وجہ تھی کہ شکرگڑھ، لاہور اور پاکستان ان کے دل سے نکل نہیں پایا تھا۔ میرا دوست محسن جعفر اور میں جب دیو آنند کو لے کر گورنمنٹ کالج گئے‘ تو کبھی اس کے صحن کی گھاس پر بیٹھے اور کبھی دیواروں کو چُھوتے ہوئے ان کی آنکھیں بھیگتی رہیں۔ 
سریندر کور کا آبائی شہر بھی لاہور ہے۔ وہ جب یہاں آئیں تو ٹمپل روڈ پر واقع اپنا گھر دیکھنے گئی تھیں۔ سینئر فوٹو گرافر عارف نجمی اور میں بھی ان کے ہمراہ تھے۔ مجھے وہ منظر یاد ہے‘ جب سریندر کور اپنے گھر کے صحن میں کھڑی تھی اور اپنے آپ سے مخاطب ہوئی تھی: ''ایدھر میں شٹاپو کھیڈیا کردی ساں‘‘ (یہاں میں شٹاپو کھیلا کرتی تھی) اس وقت مجھے 70 سالہ سریندر کور اپنے گھر کے صحن میں کھڑی بچی دکھائی دے رہی تھی۔ سریندر کور 57 سال بعد چند لمحوں کے لئے اپنے گھر لوٹی تھی۔ وہ اپنے گھر کی دیواروں، کھڑکیوں، دروازوں اور کوٹھے کو یوں دیکھ رہی تھی‘ جیسے وہ اپنے گھر کو نظروں میں محفوظ کر کے اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہو۔ یہ کیسی کہانی ہے اور کیسا کردار ہے؟ ایک 70 سالہ بوڑھی عورت مدتوں بعد اپنے گھر میں داخل ہوتی ہے تو اس کے اندر کی ننھی بچی عود کر آتی ہے۔ یہ عجیب مگر دلدوز منظر دیکھ کر مجھے لگا کہ سریندر کور اور اس کی Feelings کو سیلولائیڈ پر منتقل کرنے کے لیے یاور حیات صاحب جیسا استاد یا محبوب خان جیسا کوئی بڑا فلم میکر ہو جو اس کہانی، کردار اور المیے کو فلم بند کرتے ہوئے صورتحال کے ساتھ انصاف کر سکے۔
وفد میں بھارت کے مین سٹریم میڈیا سے وابستہ بیسیوں نمائندگان بھی شامل تھے‘ جن سے ملاقات کر کے بھارت سے متعلق بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ شام کو بھارتی صحافیوں اور سریندر کے ساتھ لاہور کے گورنر ہائوس میں وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ملاقات کی گئی۔ نواز شریف نے پُرتپاک اور لاہور سٹائل سے سریندر کور سے دریافت کیا ''تسیں اپنا لہور ویکھ کے خوش ہوئے او‘‘ (آپ اپنا لاہور دیکھ کر خوش ہوئی ہیں) اس پر سریندر کور نے بھی پنجابی میں کہا کہ لہور وکھا کے تسیں میرا مرنا اسان کر دِتا اے‘ میں بہت خوش آں‘‘ (لاہور دکھا کر آپ نے تو میرا مرنا آسان کر دیا ہے‘ میں بہت خوش ہوں) اس پر وزیر اعظم نواز شریف نے کہا: خدا آپ کو لمبی عمر عطا کرے اور آپ سدا پیار، محبت اور بھائی چارے کے گیت گاتی رہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے سریندر کور سے فرمائش کی کہ وہ اپنا مشہور گیت ''لٹھے دی چادر اُتے سلیٹی رنگ ماہیا‘‘ سنائیں۔ سریندر کور اگرچہ بوڑھی ہو چکی تھی‘ لیکن پاکستانی وزیر اعظم کی فرمائش پر اس نے پوری قوت اور سُروں کے ساتھ اپنا یہ مشہور زمانہ گیت سنایا۔ مجھے یاد ہے وزیر اعظم نواز شریف نے تالی بجا کر سریندر کور کا ساتھ دیا تھا۔ 
دونوں ملکوں کے درمیان پیار، محبت اور بھائی چارے کی تالی بھی دونوں طرف سے بجائی گئی تھی۔ 21 فروری 1999ء کو پاکستان اور بھارت کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو آگے بڑھاتے ہوئے کئی معاہدوں پر مشتمل ''اعلان لاہور‘‘ ہوا۔ اسی سال بھارت کی راجیہ سبھا اور پاکستان کی قومی اسمبلی نے اعلان لاہور کے معاہدے کو بھاری اکثریت سے قبولیت کی سند بخش دی‘ مگر سب کچھ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ ہماری طرف پہلے کارگل برپا ہوا اور پھر وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کے خلاف جنرل مشرف نے ہی ''بارہ اکتوبری‘‘ کر ڈالی۔ بھارت کے خفیہ اداروں نے سمجھوتہ ایکسپریس میں کئی ایک پاکستانیوں کو زندہ جلا کر پاکستان اور بھارت کو دور کھڑا کر دیا تھا۔ پاکستان کے خفیہ اداروں کا کہنا ہے کہ بھارت بلوچستان کے علیحدگی پسندوں سمیت پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات میں کسی نہ کسی طرح ملوث رہتا ہے‘ جبکہ بھارت، پاکستان کے خلاف بھی ایک لمبی چوڑی چارج شیٹ رکھتا ہے۔
اس خطے سمیت پوری دنیا کے حالات بدل رہے ہیں۔ افغانستان سے نیٹو فوجوں کے انخلا کے بعد کابل میں اسلام آباد کا عمل دخل مزید اہمیت کا حامل ہو گا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے پاکستان کی ڈوبتی معیشت اور عسکری مدد نہیں کی‘ جس کے باعث ایک طویل مدت بعد پاکستان نے روس سے جدید اسلحہ خریدنا شروع کیا ہے۔ پاکستان کی نئی دفاعی اور خارجی ڈاکٹرائن کے مطابق اسلام آباد اور ماسکو اپنے نئے رشتوں کو مضبوط بناتے ہوئے دہلی اور واشنگٹن کی پروا نہیں کریں گے۔ ایشیائی عالمی فلم کی اس بدلتی ہوئی کہانی اور سکرین پلے میں بیجنگ کا کردار بھی بنیادی ہے۔ پاکستان، روس اور چین کی یہ نئی Love triangle محبوب خان کی لّو ٹرائی اینگل ''انداز‘‘ کی طرح سُپرہٹ ہونے کے چانس موجود ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں