"TSC" (space) message & send to 7575

دلدار پرویز بھٹی اور تبدیلی

دلدار پرویزبھٹی مرحوم کی 20ویں برسی الحمر ا ہال نمبر تھری میں منائی گئی ۔دلدار بھٹی جیسے بڑے فنکار کی برسی کی تقریب الحمرا آرٹس کونسل کے پچھواڑے میں دیکھ کر وطن عزیز میں رائج اس کلچر سے کراہت اور گھن محسوس ہوئی جس میں اپنے محسنوں، ادیبوں، شاعروں، دانشوروں اورفنکاروں کو فراموش کردیاجاتاہے۔بھٹی صاحب کا شمار ملک کے ان فنکاروں میں ہوتاتھا جن کا سٹارڈم پوری دنیا میں تھا۔1988ء میں ،میں نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیاتو دلدار پرویز بھٹی پوری آب وتاب کے ساتھ آسمان ثقافت پر چمک دمک رہے تھے۔ وہ ایسا وقت تھا جس تقریب کے میزبان دلدار بھٹی نہ ہوتے اسے ''درجہ دوم‘‘ سمجھاجاتا۔انگریزی میں وہ جیسے شیکسپیئر پڑھاتے‘ اتنی ہی مہارت سے پنجابی میں وارث شاہ اور اُردو میں غالب کا کلام سناتے اورسمجھاتے تھے۔وہ انگریزی کے پروفیسر ، پنجابی کے ٹی وی پروگراموں کے ہر دلعزیز میزبان اور اردو زبان کے نامور کالم نگار تھے ۔میں نے انہیں فیض امن میلے سے لے کر بھانڈوں کے مابین جگتو ں کے ''ورلڈ کپ‘‘ تک کی نظامت کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے دیکھا ہے ۔وہ جس طرح شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال ؒ کے یوم ِولادت کی تقریب کو نبھاتے تھے‘ اسی احسن انداز سے قدیم یونانی شعرا اور ڈرامہ نگاروں میں شامل ہومر اور ایڈے پس کے قصے کہانیاں سنایاکرتے تھے۔پاکستان میں ان جیسا دوسرا کوئی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی اگر اردو کا ماسٹر ہوتاہے تو اس کی انگریزی ماٹھی ہوتی ہے اور حسن اتفاق سے اگر انگریزی دان ہو تو پھر پنجابی میں پیدل ہوتا ہے۔ پروردگار نے دلدار پرویز بھٹی کے ''سم کارڈ‘‘ میں اس قدر آپشنز ڈائون لوڈ کر دئیے تھے کہ "64GB" جدید انٹرنیٹ سہولیات سے مرصع موبائل سیٹ بھی ان کے سامنے سستا پڑجاتا۔ 
دلدار بھٹی کی یاد میں سجائی گئی تقریب میں ان کے ایک دوست نعمت اللہ شکاگو سے آئے تھے ۔انہوں نے بیان کیاکہ میں وہاں سے آیا ہوں جہاں دلدار پرویز بھٹی لقمہ اجل بنے تھے ۔ دلدار بھٹی امریکہ میں شوکت خانم میموریل ہسپتال کی تعمیر کے لئے فنڈز اکٹھے کرنے کے لئے چیریٹی شوز کرنے گئے ہوئے تھے۔وہ ہائی بلڈ پریشر کے مریض تھے اور اوپر تلے مسلسل چیریٹی شوز کررہے تھے ، اس کے ساتھ رت جگا بھی جاری تھا۔ ایک رات جب وہ ہیوسٹن میں تھے ان کا بلڈ پریشر شوٹ کرگیا جس کے باعث عظیم فنکار اور انمول انسان موت کے گھاٹ اتر گیا۔
دلدار بھٹی کے بھانجے فراز بھٹی اور نعمت اللہ نے شکوہ کیاکہ ''مرحوم نے چیریٹی ہسپتال کی تعمیر کے لئے کام کرتے ہوئے اپنی جان تک دے دی مگر 20سالوں میں کسی نے ہمیںپُرسہ دیا نہ رابطہ رکھا‘‘۔ نعمت اللہ نے کہاکہ یہ کونسی تبدیلی ہے جس میں اپنے محسنوں کو فراموش کردیا جاتاہے۔یقینا تبدیلی کے نام پر یہ ڈھونگ ہوگا وگرنہ محسن، اعلیٰ انسان اور عظیم فنکار کیسے بھلائے جاسکتے ہیں؟ توفیق بٹ نے نعمت اللہ کی لفظی تھراپی کرتے ہوئے کہاکہ دلدار بھٹی کو ان کے چاہنے والوں اور دوستوں نے بھلایانہیں ہے اور تبدیلی کامطلب احسان فراموشی نہیں ہے ،عمران خان سیاسی ،سماجی اور پاکستان میں معاشی تبدیلی کی بات کررہے ہیں۔
عمران خان جس تبدیلی کا دعویٰ کررہے ہیں وہ مشروط ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نوازشریف استعفیٰ دیں جس کے بعد غیر جانبدار اور آزاد الیکشن کمیشن مڈٹرم الیکشن کرائے۔ نوازشریف کے استعفیٰ کے بعد عبوری حکومت قائم کرنا ہوگی جو صاف شفاف، منصفانہ اور دھاندلی سے پاک الیکشن کرائے گی۔اب خود ہی فیصلہ کیجئے ہمارے ہاں ایسا کون ہے جو ایک ہی وقت یہ سب کچھ کرسکے؟ فخروبھائی کی ایمانداری پر کسی کو شک نہیں تھا ۔فخرو بھائی الیکشن کمیشن کے سربراہ تھے۔ ملک کے طول وعرض میں قائم کئے گئے پولنگ سٹیشنز کے باہر فوجی دستے تعینات تھے۔ اس کے باوجود پاکستان کی تاریخ کے بدترین دھاندلی زدہ الیکشنز ہوسکے ؟یہ سب کیاہے ؟ ہمارے ہاں جب سے برقی میڈیا کا غلغلہ مچا ہے‘ تب سے زیب داستان (بریکنگ نیوز ) کا رواج یوں عام ہوا ہے کہ ع 
بڑھا بھی لیتے ہیں کچھ زیبِ داستان کیلئے
فیلڈ میں ''موقعہ واردات‘‘ (سپاٹ) پر کھڑے آزادیٔ اظہار کے مجاہد سے لے کر ٹاک شو کے ایئر کنڈیشنڈ سیٹ سے آج کے ارسطو (اینکرپرسن) تک کے پاس عوام کا بلڈ پریشر بڑھانے کے ساتھ ساتھ اپنے پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے کے علاوہ دوسرا کوئی ''قومی ہدف‘‘ نہیں ہوتا‘ لہٰذا زبان وبیان ،اعداد وشمار ،معروضیت ،پیشہ ورانہ 
متانت‘ کسی کی پروانہیں کی جاتی۔کوئی بھی شعلہ بیاں کچھ بھی کہہ دیتاہے جس کے بعد ہمارے ''اولاہمافیم‘‘ ( جن سے متعلق شکایت کی جائے) اپنے اپنے لائوڈ سپیکر کھول کر شروع ہوجاتے ہیں۔کسی لیڈر نے اگر یہ کہاکہ ''یہ پاکستان کی تاریخ کے بدترین الیکشن ہیں‘‘ تو سیاسی ہسٹورین جنرل ایوب خان ،جنرل یحییٰ خان اور جنرل محمد ضیاالحق کے بالترتیب دھاندلی فیم ، علیحدگی فیم اور غیر جماعتی فیم جیسے تاریخی دھاندلی فیم الیکشن بھول جاتے ہیں۔جملہ الیکشنزکے درمیان میں بھٹو صاحب کے وہ الیکشن بھی جن کے بعد 11سال تک براہ راست اور بالواسطہ مارشل لاء نافذ رہا تھا اور جس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ دہشت گردی سے لے کر آج کی جمہوریت تک سبھی کچھ انہی کی ''دین‘‘ ہے جنہوں نے قرآنی آیات پڑھ کر 90 دن میں الیکشن کرانے کا وعدہ کیاتھا مگر 11سال اس وقت تک ملک پر قابض ہوگئے تھے جب تک سی ون طیارہ ''پھٹا‘‘ نہیں۔ دودھ کا جلاچھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے لیکن ہم وہ بدقسمت ہیں جو دودھ اور چھاچھ کے ساتھ گنے کے رس اور ملک شیک سمیت ہر قسم کے صحت افزا مشرقی ومغربی مشروب سے قومی سطح پر مضروب ہوئے ہیں۔
30نومبر کو کیاہونے والاہے؟اداکار سہیل احمد المعروف عزیزی جو ''حسب حال ‘‘ میں قبلہ شیخ رشید کے روپ میں پیشین گوئی پرفارم کررہے تھے‘ نے فرمایا ''30نومبر کو نوازشریف اینڈ کمپنی کے ساتھ جو ہونے والا ہے‘ یہ سب آنے والے سالوںکے کیلنڈروں سے 30نومبر کی تاریخ ہی کھرچ دیں گے‘‘۔شیخ رشید سمیت کسی قائد کو یہ خیال نہیں ہے کہ ان کی پیشین گوئی، شعلہ بیانی اور الزام تراشی سے وطن عزیز پر کیااثرات مرتب ہورہے ہیں؟ پلان Aاور پلان B کے بعد پلان Cدینے کا اعلان کردیا گیا ہے۔ ادھر وزیر اعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ شہباز شریف، چوہدری نثار، خواجہ سعد رفیق، خواجہ محمد آصف، اسحاق ڈار،حمزہ شہباز، مریم نوازشریف، طلال چوہدری ، راناثنا اللہ ، عابد شیر علی ، خرم دستگیر خان اور پرویز رشید سمیت دیگر نون لیگی عمران خان کے ساتھ شکوہ اور جواب شکوہ کا ورلڈ کپ کھیلنے میں مصروف ہیں۔ پرویز رشید جس کثرت سے تردید ی پریس کانفرنسیں کررہے ہیں انہیں تو اپنا تخلص ہی ''تردیدی‘‘ رکھ لینا چاہیے۔ 
عمران خان الزام لگارہے ہیں کہ نوازشریف اور ان کے ساتھیوں نے انتخابات میں تاریخی دھاندلی کی اور ان کے ساتھ الیکشن کمیشن ، سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار محمد چوہدری ،سابق جسٹس رمدے اور بعض دوسرے شامل تھے۔نون لیگ کو جعلی مینڈیٹ دینے کیلئے 55لاکھ اضافی ووٹ سپلائی کئے گئے‘ جبکہ ان الزامات کے جواب اور مزید الزامات کے ساتھ نون لیگ الیون نے الزام لگایاہے کہ عمران خان خود ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ٹیکس ادا کرنے کامعاملہ ہوتو وطن عزیز میں اکادکا قائدین کے علاوہ کوئی بھی ٹیکس ایمانداری سے ادا نہیںکرتا۔ خواجہ سعد رفیق کا حلقہ ان چار حلقوں میں شامل ہے جن کے لئے ابتدائی طور پر عمران خان نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی عدالت میں دوبارہ گنتی کرانے کی درخواست کی تھی۔ خواجہ ـسعد نے عمران خان کی طرف سے دھاندلی کے ثبوت فراہم کرنے کے اعلان کو ''کھودا پہاڑ نکلاچوہا‘‘ قرار دیا ہے۔ کبھی کبھی لگتا ہے ان دیکھی طاقتوں نے عمران خان کو کچھ نہ کچھ ثبوت مہیا کر دیے ہیں‘ تبھی وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ''کھودا الیکشن ‘ نکلا مڈٹرم‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں