"TSC" (space) message & send to 7575

ہیپی نیو ایئر

2014ء کے بارے میں احمد فراز کے اس شعر سے زیادہ مناسب تبصرہ نہیں ہو سکتا: 
نہ شب و روز ہی بدلے ہیں، نہ حال اچھا ہے 
کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے 
31 دسمبر کی رات‘ جسے نیو ایئر نائٹ بھی کہا جاتا ہے‘ خیر سے گزر گئی۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی طرف سے اطلاع عام تھی کہ ''نیو ایئر نائٹ پر دہشت گردی کا خطرہ ہے‘‘۔ وزیر داخلہ کی طرف سے یہ اطلاع خفیہ اداروں کی مہیا کردہ رپورٹ کی بنیاد پر دی گئی‘ جس میں انتباہ کیا گیا تھا کہ دہشت گردوں کے رابطوں اور ان کے درمیان ہونے والی گفتگو میں یہ بات ریکارڈ کی گئی کہ ''نیو ایئر نائٹ پر پاکستان کو تحفہ دیں گے‘‘َ۔ نیو ایئر نائٹ سجانے کے شائقین اس بار انڈر گرائونڈ چلے گئے اور کچھ دبئی پہنچے۔ ایک اداکارہ نیو ایئر نائٹ پارٹی سجانے کے لیے کراچی سے لاہور آئیں‘ جس میں اہم سیلبرٹیز نے آج کے مقبول پارٹی سونگ ''ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے‘‘ پر تھرکنا تھا، لیکن جب سرکار کی طرف سے دہشت گردی کی سرکاری مخبری کی گئی تو یہ پارٹی دبئی منتقل کر دی گئی۔ اس پارٹی میں ہمیں بھی مدعو کیا گیا تھا‘ لیکن ہم نے دبئی تک اس کا تعاقب کرنے کے بجائے موسیقار ساجد حسین چھکو کی مردانہ پارٹی میں شریک ہونا مناسب جانا، جہاں گرم گرم تکے کبابوں کے ساتھ نرم سُریلی موسیقی سے مہمانوں کی تواضع کی گئی۔ اس پارٹی میں شریک گلوکار، موسیقار، قوال اور شاعر دوستوں نے دہشت گردی کی باتیں کرنا شروع کیں تو امیر خسرو عزیز میاں قوال نے کہا: ''خدارا! یہ باتیں بند کریں، لگتا ہے ٹاک شو شروع ہو گیا ہے‘‘۔
ٹاک شو سے یاد آیا، پرویز رشید صاحب کہہ رہے تھے کہ عمران خان کے مطالبے پر چار حلقوں میں تھیلے کھل چکے ہیں اور دوبارہ ووٹ گنے جا رہے ہیں۔ جناب عالی! تھیلوں سے تو نون لیگ کے ووٹ ہی برآمد ہو رہے ہیں، اگر الیکشن ٹربیونل کا فیصلہ عمران خان نے قبول نہ کیا تو سیاسی حالات میں دوبارہ کشیدگی پیدا ہونے کے اندیشے پیدا ہو جائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو ملک میں قائم قومی اتحاد کی فضا خراب ہو جائے گی۔ خدا نہ کرے قومی فضا آلودہ ہو مگر یہاں تو شادی خانہ آبادی کی خبریں ماحول کو معطرکیے ہوئے ہیں۔ کپتان نے اپنی دوسری شادی کی خبروں کے بارے میں کہا: ''دوسری شادی کا اعلان مناسب وقت پر کریں گے، ابھی تو ملک کی فضا سوگوار ہے، لوگ غم سے نڈھال ہیں‘‘۔ عمران کی شادی کی تردید ان کی بہن علیمہ خان نے بھی کی۔ ان کا کہنا ہے: ''مخالفین ان کے بھائی کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے ایک ٹی وی اینکر سے شادی کی افواہیں پھیلا رہے ہیں‘‘۔ شادی ایک سماجی بندھن ہے، اس سے کسی کی سیاسی ساکھ کو نقصان کیسے پہنچ سکتا ہے؟ جہاں تک اینکر پرسن سے شادی سے ساکھ متاثر ہونے کی بات ہے تو اس میں بھی ساکھ سے زیادہ ٹاک متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ شادی کے بعد اکثر اوقات میاں بیوی میں ہونے والی رومانٹک ٹاک، ہارڈ ٹاک میں بدل جاتی ہے۔ کچھ لوگ شادی کے بغیر ہی ہارڈ ٹاک کرنے کے چمپئین مانے جاتے ہیں۔ شیخ رشید قبل از شادی ہی 'ہارڈ ٹاکر‘ ہیں۔ شیخ صاحب شادی کے حق میں نہیں ہیں لیکن اگر کبھی عمران خان نے دوسری شادی کا فیصلہ کیا تو شیخ صاحب اس کے بھی چیف باراتی ہوں گے۔ دولہے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اگر کسی نوجوان کو مُکا دے مار دے تو اس مُکا کھانے والے کی بھی شادی جلد ہو جاتی ہے، لیکن شیخ رشید جیسے سینئر ترین کنوارے کی زندگی میں مکے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا کیونکہ یہ کیس تو مکے سے کہیں آگے جا چکا ہے۔
شادی کی دیگر رسومات میں جوتا چھپائی، دودھ پلائی، منہ دکھائی کے علاوہ سلامی (دولہے کو دی جانے والی رقم) اہم ہوتی ہیں۔ متوقع شادی میں اگر امپائر نے بھی شرکت کی تو پھر دولہے کے بجائے امپائر کو ہی اکیس توپوں کی سلامی دی جائے گی۔ فی الوقت سلامیوںکی گنتی کے بجائے ووٹوںکی گنتی جاری ہے اور منہ دکھائی کی رسم بھی اس بار دہشت گردوں کے خلاف ہو گی۔ سیاسی اور عسکری قیادت قومی ایکشن پلان کے تحت ریاست کی رٹ قائم کرنا چاہتی ہے۔ وہ دہشت گردوں اور ان کے مقامی ہمدردوں کے نیٹ ورک کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہر سطح تک جانے کو تیار ہیں۔ اس ضمن میں سیاسی قیادت کے ملٹری کورٹس کے حوالے سے کچھ اندیشے بھی ہیں‘ جن کی وجہ سے جملہ ٹاک شوز میں بھی پھونک پھونک کر قدم رکھے جا رہے ہیں؛ حالانکہ اس ضمن میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں کیونکہ ٹاک شوز کی اکثریت کچھ دنوں سے قومی سلامتی کے رنگ میں رنگی دکھائی دیتی ہے۔ وطن عزیزکے سیاستدان اور تجزیہ کار خصوصاً اینکر پرسن دہشت گردوں کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔ اکثر پروگراموں میں اینکرز، تجزیہ کار اور مہمان سبھی قومی سلامتی کی ایک ہی بولی بولتے دکھائی دیتے ہیں۔ قومی ایکشن پلان کے تحت قومی سلامتی کی یہ میڈیائی فضا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کبھی کبھار قومی سلامتی کے آگے آزادی صحافت کی قربانی بھی دینا پڑتی ہے، اس ضمن میں گھبراہٹ کی ضرورت نہیں، قومی صحافت یہ سنگ میل طے کر چکی ہے۔
عمران خان دبنگ خان ہیں۔ وہ اپنی ذاتی زندگی کا کوئی پہلو عوام سے چھپاتے نہیں‘ ورنہ ہمارے ہاں تو ان معاملات کی ہوا بھی نہیں لگنے دی جاتی۔ شادی اگرچہ ذاتی معاملہ ہوتا ہے لیکن قائدین اور لیڈر چونکہ پبلک پراپرٹی ہوتے ہیں اس لیے ان کے جملہ حقوق اور رجسٹریاں بھی چھپا کر لاکرز میں نہیں رکھی جا سکتیں۔ شیریں مزاری صاحبہ نے کہا کہ شادی عمران کا ذاتی معاملہ ہے۔ محمودالرشید صاحب کا کہنا ہے: عمران کو شادی کی مبارکباد دوں گا، اگر انہوں نے قبول کر لی تو سمجھوں گا‘ وہ شادی کر رہے ہیں‘ ورنہ اس کی تردید سمجھیں۔
عمران نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر شادی کرنے کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا: نیا پاکستان بنانے کے بعد میں شادی کر لوں گا۔ نئے پاکستان کے آثار تاحال تو دکھائی نہیں دے رہے اور پرانے ہی پاکستان میں شادی بیاہ کے شادیانے اور گیتوں کی دھنیں سنائی دے رہی ہیں: ''دیساں دا راجہ، پی ٹی آئی دا پیارا، قریشی دے دل دا سہارا، نی کپتان میرا گھوڑی چڑھیا‘‘(دیسوں کا راجہ، پی ٹی آئی کا پیارا، قریشی کے دل کا سہارا، کپتان میرا 
گھوڑی پر بیٹھا) شادی واقعی ذاتی معاملہ ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں ذاتیات پر اترے بغیر بہت سے فرائض کی ادائی نہیں ہو پاتی۔ عمران خان نے دکھ درد اور مشکل وقت میں جس سنجیدگی کا اظہار کرتے ہوئے قومی اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے‘ اس سپرٹ کو سراہنا چاہیے۔ ہم سب کو اپنے معمولات میں اپنے ان بہن بھائیوں کو بھولنا نہیں چاہیے‘ جنہیں دہشت گردوں نے ایسا گھائو لگایا ہے‘ جو زندگی بھر‘ بھر نہ پائے گا۔ شکیب جلالی نے کہا تھا: 
رہتے ہیں کچھ ملول سے چہرے پڑوس میں 
اتنا نہ تیز کیجئے ڈھولک کی تھاپ کو 
وطن کی فضا سوگوار ہے۔ فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ قومی ایکشن پلان پر جلد عمل درآمد کی بات کی جا رہی ہے۔ پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔ یورپی یونین صفائی پیش کر رہی ہے کہ پھانسی کی سزا پر عمل درآمد سے پاکستان کو کبھی نہیں روکا۔ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ فوجی عدالتیں ہمیں دہشت گردی سے نجات دلا پائیں گی؟ سیاسی قائدین کی طرف سے خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ کہیں انہیں ہی کٹہروں میں کھڑا نہ کر دیا جائے۔ آرمی چیف کا کہنا ہے کہ مزید وقت ضائع کیے بغیر قومی ایکشن پلان پر فوری عمل درآمد کیا جائے۔ اندیشوں کو دور کرنا چاہیے، حادثات اور سانحات سے سبق سیکھنا چاہیے، ماضی میں ایسا کیا ہوتا تو شاید ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ کے پی کے حکومت نے 5 لاکھ افغان مہاجرین کو افغانستان بھیجنے کی سفارش کی ہے۔ یہ وہ قدم ہے جو بہت پہلے اٹھانا چاہیے تھا، لیکن یہ کافی نہیں، اب صرف قدم نہیں اٹھانا ہوں گے‘ بلکہ امن کی منزل کی جانب ہر وقت گامزن رہنا ہو گا۔ دعا ہے 2015ء میں ہم سب دائمی امن پا لیں۔ اہل وطن کو نیا سال مبارک۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں