"TSC" (space) message & send to 7575

کپتان اور ہیروئن کی کہانی

کپتان کی شادی کے حوالے سے مجیب الرحمن شامی اور حسن نثار کے مابین یاد گار ڈائیلاگ ہوئے ۔صحافت کے جوبلی کمار اور بگ بی کے درمیان جواں سال اینکر پرسن اجمل جامی کا کردار بھارتی فلم ''شکتی‘‘ کے انیل کپور جیسا لگا۔ یوں تو شامی صاحب کے بارے میں یہ تاثر پایاجاتا ہے کہ وہ دائیں بازو کے ہر دلعزیز دانشور ہیں لیکن ان کی حسِ ظرافت اوربذلہ سنجی کو بائیں بازو کے حلقوں میں بھی سراہا جاتاہے۔ ماضی کے نامور ہیرو لالہ سدھیر کی طرح جس کی فلم مغربی اورمشرقی پاکستان کے دونوں سرکٹ میں سپر ہٹ ہواکرتی تھی۔ میرے نزدیک شامی صاحب مزاح کا وہ یورو ہیں جسے کامیڈی کے یورپی یونین میں کہیں بھی کیش کرایا جاسکتا ہے۔ایک مدت سے ''حسن نثار لورز ایسوسی ایشن‘‘ کاجنرل سیکرٹری ہوں اور میرا یہ عہدہ اسی طرح پکا ہے جیسے پیپلز پارٹی میں جہانگیر بدر کی سیکرٹری شپ پکی ہے۔حسن بھائی اگرچہ مزاح نگاری کی دنیا کے کھلاڑی نہیںمگر ایسی کانٹے دار بات کرتے ہیںکہ بڑے بڑے جگت باز ان سے گنڈا بندھوائیں اور نذر کریں۔ انہوں نے کپتان کی شادی سے متعلق شامی صاحب کے ''بائونسر‘‘ اور ''یارکر ‘‘ کو یوں بائونڈری کی طرف اچھالا جیسے شاہد آفریدی ٹی ٹوئنٹی میں ففٹی کیاکرتے ہیں۔
پاکستانی میڈیا کے متعلق سنجیدہ خیال ہے کہ ابھی اس کے دودھ کے دانت ہی نکلے ہیں اور یہ ابھی پالنے میں ہے لیکن اُمید ہے کہ بڑا ہوکر ٹھیک ہوجائے گا۔کپتان کی دوسری شادی کی خبر کو یوں لیاگیاجیسے کالا باغ ڈیم کے کالعدم منصوبے پر عمل درآمد شروع ہوگیاہو۔ہمارے میڈیا میں اکثر اوقات بہت سے ایشوز کو نان ایشوز اور نان ایشوز کوایشو بنا کر پیش کرنے کی میراتھن شروع ہوجاتی ہے۔ صدر جنرل مشرف کے دور میں بحالی ٔ آزاد عدلیہ کے نام سے چلائی جانے والی تحریک کا وائنڈ اپ کیاہوا؟عمران خان نے الیکشن چرائے جانے کے جو مبینہ الزامات عائد کئے ان میں آزاد عدلیہ کی تحریک کے ''ہیرو‘‘ کانام سب سے پہلے لیاگیا۔یہی نہیں فلم کے ہیرو کی نسبت سے'' چھوٹا ہیرو‘‘ مانٹی کارلو کی مہنگی ترین لوکیشن پر اصلی ''شوٹنگ ‘‘ کرتاپایاگیا۔اس عظیم کار خیر کے لئے فرداََفرداََ کس کس کا نام لوں‘ ایک ''تاریخی‘‘ ایڈووکیٹ اور ایک فنکار ایڈووکیٹ نعیم بخاری کے سوا پورا ملک اس وقت کے معزول چیف جسٹس کو مسیحا قرار دے رہاتھا۔لیکن کیاہوا ؟مایوسی کی اس ڈگری کو ماپنے کے لئے اگر کوئی پیمانہ ہوتاتو یقینا سیاچن اور انٹارکٹکا سے بھی زیادہ منفی ٹمپریچر ماپا جاتا۔
اس روش کا ذمہ دار صرف میڈیا نہیں ہے۔ یہ ذمہ داری دیکھنے والوں کی بھی ہوتی ہے کہ وہ کس بات ،کس لیڈر ،کس خبر، کس اینکر ، کس مسیحا اور کس تحریک سے متاثر ہوتے ہیں ۔یوں تو جنرل مشرف کو اقتدار سے نکالنے کا کریڈٹ کئی ایک صحافتی بھولو پہلوان لیتے ہیں لیکن ایک ٹارزن نے زرداری صاحب کے دور میں سرکاری ٹیلی وژن جوائن کرلیاتھا۔مجھے یاد ہے عباس اطہرشاہ جی اور اپنے دوست گلوکار جواد احمد کے ساتھ ان کے سرکاری آفس اسلام آباد گیاتو موصوف نے کہاتھاکہ ''لوگ بہت معصوم ہوتے ہیں جو صحافیوں اور اینکرپرسنز کو مسیحا سمجھنے لگتے ہیں‘ ہم تو اپنا ٹی وی پروگرام کررہے ہوتے ہیں اوریہ سادہ لوگ ہمیں نجات دہندہ سمجھ لیتے ہیں‘‘۔ نیوز چینلز اور ٹاک شوز دیکھنے والوں کی اکثریت کو اس حقیقت کا اندازہ ہی نہیں کہ ان کی پسندیدگی کی بنیاد پر صحافت کا وہ سومنات تعمیر ہوتاہے جس میں آزادیٔ صحافت اور مہنگی تشہیری مہمات کے بت آمنے سامنے سجائے جاتے ہیں اور پھر اس کی پوجا پاٹ شروع ہوجاتی ہے۔ ٹیلی وژن ناظرین کی طرف سے کسی ٹی وی اورکسی پروگرام کوقبولیت کی سند بخش دینا بھی بالکل ویساہی معاملہ ہوتا ہے جیسے ووٹرز کسی لیڈر ،پارٹی یا اتحاد کو پانچ سال کیلئے مینڈیٹ فراہم کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک کا ووٹ دوسرے کی صندوقچی سے برآمد ہونے کافیشن بھی پُرانا ہے۔ عمران خان کو یقین تھاکہ 2013ء کے انتخابات میں ان کا ووٹ ،نون لیگ کی صندوقچیوں سے برآمد ہوا اور ان کا جیتا ہوا الیکشن چُرا لیاگیا۔ کپتان نے کہاکہ الیکشن کو پنکچر لگائے گئے ہیں اور پھر مبینہ بددیانتی سے بنائی گئی حکومت کے خلاف احتجاج کا سونامی لے آئے۔ عمران وہ لیڈر ہیں جو گزشتہ 6ماہ میں ایک کروڑ سے زائد خواتین وحضرات کو سڑکوں ،جلسوں اور دھرنے میں لے آئے۔ عمران کا اعزاز ہے کہ وہ تبدیلی کے نام پر یوتھ کو سیاست کے دھارے میں لے آئے ہیں ۔جی ہاں وہی یوتھ جو موبائیل ، انٹر نیٹ،سوشل میڈیا اور'' ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے‘‘ کے علاوہ قومی معاملات میںزیادہ دلچسپی نہیں رکھتی۔
کپتان نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر کہاتھاکہ انہیں نیاپاکستان بنانے کی اس لیے بھی جلدی ہے کہ وہ شادی کرنا چاہتے ہیں۔ کپتان کا وعدہ تھاکہ وہ نیا پاکستان بنانے کے بعد شادی کریں گے۔ نیا پاکستان ایک مشکل ٹاسک ہے ،یہ کوئی چٹ منگنی اور پٹ بیاہ والا کام نہیں ہوتا۔ لوگوں کو بھی سمجھ آجانی چاہیے کہ لیڈروں او ر قائدین کے پاس الہ دین کے چراغ نہیں ہوتے جن کے رگڑنے سے نیا پاکستان تعمیر ہوجائے یا بجلی ،گیس، پانی اور دیگر لوڈشیڈنگز ختم ہوجانے کے بعد رعایا کے دیگر دکھ بھی دور ہوجائیں ۔ہمیں یاد ہے پیپلز پارٹی کے دور میں خادم اعلیٰ ،غلام فرید صابری قوال جیسے اونچے سروں میں یہ کہاکرتے تھے کہ ''ہمیں ووٹ دیں‘ اگر 6ماہ میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ نہ کردیں تو میرانام بدل دیں‘‘۔لگ بھگ پونے دوسال ہونے کو ہیں‘ کسی قسم کی لوڈشیڈنگ میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ اس سے قبل خادم اعلیٰ ،خواجہ محمد آصف اور وزیر اعظم سمیت حکومت کے دیگر ذمہ داران سے پوچھا جاتاکہ ''کیاہوا تیرا وعدہ، وہ قسم وہ ارادہ‘‘ لیکن بنیادی ضرورتوں کے بندوبست سے پہلے دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان، 21ویں ترمیم کے تحت آرمی ایکٹ میں تبدیلی اور فوجی عدالتیں بنانے کے معاملات میںالجھنا پڑا۔ 
آج عمران خان کا ولیمہ ہے اور میں کون سی رام کہانی لے کربیٹھ گیاہوں۔ایک نظریہ تویہ ہے کہ شادی کرنا عمران خان کا ذاتی معاملہ ہے‘ اسے کالم ،ٹاک شو، نیوز بلیٹنزاور شہ سرخیوں کا موضوع نہیں بنانا چاہیے۔ دوم یہ کہ عمران قومی لیڈرہیں ،انہوں نے کئی بار باآواز بلند یہ کہاہے کہ وہ قوم کو مسائل ،دکھوں اور آلام سے نجات دلائیں گے ۔یعنی وہ نجات دہندہ ہیں۔ اب قوم کو اپنے نجات دہندہ کے قول وفعل کو جانچنے کاحق تو ہے۔کپتان کی شادی پر کسی کوکیااعتراض ہوسکتاہے‘ صرف اتنا کہاجارہاہے کہ شادی نیا پاکستان بنانے سے پہلے کی گئی ہے۔
عمران کی شادی سے مجھے مصطفی کھر کی طرف سے میاں نوازشریف کو دیا جانے والا الٹی میٹم یاد آگیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نوازشریف ہوا کرتے تھے ۔ان دنوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ میں زبردست کشیدگی پائی جاتی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی و فاقی حکومت کو میاں نوازشریف کی پنجاب حکومت کی طرف سے ہر روز نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتاتھا۔تب مصطفی کھر نے محترمہ کو یقین دلایا کہ وہ چند دنو ں میں پنجاب میں میاں نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیںگے۔پیپلز پارٹی کے ترجمان اخبار نے صفحہ اول پر شریف حکومت کے لئے کائونٹ ڈائون شروع کیااور اس پر سرخی جمائی ''دن گنے جاتے ہیں اس دن کے لئے‘‘۔ کھر صاحب کا بڑھک پر مبنی ایک بیان ہر روز شائع ہورہاتھاکہ شریف حکومت چند دن کی مہمان ہے اور اصلی شیر پنجاب میں ہوں۔کائونٹ ڈائون جاری تھا۔ ایک روز انکشاف ہواکہ شریف حکومت کا دھڑن تختہ تونہیں ہوا البتہ کھر صاحب نے ایک اور شادی کرلی ہے۔کائونٹ ڈائون، شریف حکومت کا دھڑن تختہ اور اصلی شیر ِپنجاب کی کہانی کو ملک کے ذہین کارٹونسٹ جاوید اقبال نے یوں عنوان دیاتھاکہ ''مصطفی کھر شیرِ پنجاب کے بجائے شیرِ ازدواج نکلے‘‘۔ ایک خبر، ایک سرخی اور ایک موضوع کارٹون کسی طرح تاریخ رقم کرتا ہے‘ یہ میں تب جانا تھا۔ عمران خان کی دوسری شادی پر دی جانے والی مبارکبادیں خاص طور پر اداکارہ میرا کی مبارک باد پر بات کل ہوگی۔ (جاری ہے) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں