"TSC" (space) message & send to 7575

قومی سانحات اور شیدے پستول

شیخ رشید اور امجد اسلام امجد میں ویسے تو کوئی قدر مشترک نہیں لیکن نجانے کیوں اس سیاسی موڑ پر دونوں کے خیالات میں اس قدر ہم آہنگی پیدا ہو گئی کہ وہ ایک دوسرے کے محب اور محبوب بن بیٹھے؟ شیخ رشید نے کہا ہے کہ نواز شریف اور پاکستان ایک دوسرے کے ساتھ نہیں چل سکتے، اگر پاکستان کو بچانا ہے تو پھر نواز شریف اور ان کی ٹیم کو گھر بھیجنا ہو گا۔ امجد اسلام امجد کے لکھے اور ملکہ ترنم نور جہاں کے گائے گیت کی استھائی کچھ یوں ہے:
میں تیرے سنگ کیسے چلوں ساجنا 
تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ شیخ رشید کبھی نواز شریف کو اپنا قائد مانا کرتے تھے۔ شیخ صاحب اپنی کتاب میں تفاخرانہ احساس کے ساتھ لکھتے ہیں: میں ''فرزندِ راولپنڈی‘‘ تھا اور اس سزا نے بقول نواز شریف مجھے ''فرزندِ پاکستان‘‘ بنا دیا ہے۔ شیخ رشید نے جس سزا کا تذکرہ کیا‘ وہ انہیں محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں ''کلاشنکوف کیس‘‘ میں سنائی گئی تھی۔ راولپنڈی میں ہونے والے ایک جلسے میں شیخ رشید اور اعجازالحق نے کلاشنکوف لہراتے ہوئے بڑھکیں لگائی تھیں۔ اگلے روز لال حویلی سے تو کلاشنکوف برآمد کر لی گئی‘ لیکن اعجازالحق کی طرف کوئی میلی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھ سکا۔ شیخ رشید صاحب کو جب کلاشنکوف کیس میں سزا ہو گئی تو وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ اعجازالحق جنرل کا بیٹا تھا‘ اس کی طرف کوئی نہیں گیا، جاتا بھی کیسے‘ اس طرف جاتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ان کے محافظوں کے پَر جلتے ہیں، لیکن میں چونکہ غریب کا بیٹا ہوں اس لئے پاکستان کی جیلوں کی یاترا میرا مقدر بنی۔ شیخ صاحب نے ''فرزند پاکستان‘‘ بہاولپور جیل میں لکھی تھی۔ ان دنوں وہ پیپلز پارٹی کو اپنا ازلی دشمن جبکہ نواز شریف کو اپنا تاحیات لیڈر مانتے تھے۔ میاں محمد نواز شریف اور شیخ رشید کا سیاسی جنم جنرل محمد ضیاالحق کی نرسری میں ہوا تھا۔ شیخ صاحب نے راولپنڈی سے پیپلز پارٹی کے امیدوار جنرل ریٹائرڈ ٹکا خان کو الیکشن میں ہرایا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران شیخ رشید جنرل ٹکا خان کو ''ٹوکا خان‘‘ کہہ کر پکارتے رہے۔ شیخ رشید نے ٹکا خان کو الیکشن میں ہرایا تو نواز شریف کے قریب ہو گئے۔ نواز شریف کی دونوں ٹرموں میں یہ قربتیں بڑھتی رہیں۔ شیخ رشید دونوں ادوار میں نواز شریف کی کچن کابینہ میں شریک رہے‘ لیکن پھر ستاروں کی گردش بدل گئی اور بقول شیخ رشید، نواز شریف اور پاکستان ایک دوسرے کی ضد بن گئے۔ شاید یہ بھی کوئی ویسا ہی رشتہ ہو جس کے لئے قتیل شفائی نے کہا تھا:
ثبوتِ عشق کی یہ بھی تو ایک صورت ہے 
کہ جس سے پیار کریں اُس پہ تہمتیں بھی دھریں
اس وقت وزیر اعظم میاں نواز شریف، خادم اعلیٰ شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی اور دیگر حکومتی وزرا کے حق میں تاویلیں گھڑنا دل گردے کا کام ہے۔ گیس، بجلی، پانی اور پٹرول کے بحرانوںکے ساتھ ساتھ دہشت گردی، مہنگائی اور بیروزگاری کے مہا بحرانوں کے ہوتے ہوئے حکومت کے حق میں کوئی نکتہ آفرینی کرنا ایسے ہی ہے‘ جیسے ان دنوں پاکستان میں فرانسیسی پروڈکٹس کی حمایت میں ریلی نکالی جائے‘ لیکن آفرین ہے ان شہ دماغوں پر جو ایسی نااہل حکومت کی پیٹھ بھی تھپکا رہے ہیں۔ پٹرول کے بحران نے تو حکومتی لیاقت، نظامت اور دیانت کے رُخ روشن پر پڑا آخری پردہ بھی اٹھا دیا۔ وزیر اعظم کی سربراہی میں روزانہ اجلاس ہوتا رہا‘ لیکن مجال ہے کہ ذمہ داروں کا تعین کیا گیا ہو کہ کس کی نااہلی کی وجہ سے عوام کو ذلیل و رسوا ہونا پڑا۔ لاہور اور پنجاب کے دوسرے شہروں میں پٹرول کے بحران کا یہ عالم تھا کہ ایدھی ٹرسٹ اور ریسکیو ون ون ٹو ٹو کی گاڑیاں بھی بے سُدھ کھڑی رہیں۔ ایسے میں وزیر پانی و بجلی قبلہ چوہدری عابد شیر علی اور پٹرول و قدرتی وسائل کے وزیر شاہد خاقان عباسی کی طرف سے معذرت خواہانہ انٹرویوز نشر کئے گئے۔ دونوں وزرا گونگلوئوں (شلجم) سے مٹی جھاڑتے ہوئے بھی محتاط نہ تھے۔ وہ تھوڑی بہت معذرت کو ہی اپنے لئے بامشقت عمر قید تصور کر رہے تھے۔ ان کے چہرے ان کے دلوں کا حال بیان کر رہے تھے کہ شفیق اینکر پرسنز کے دوستانہ قسم کے انٹرویوز میں وہ پٹرول بحران پر معذرت کرتے ہوئے اپنے آپ کو گوتم سدھارتھ المعروف بدھا سے بھی زیادہ دیالو اور دنیا کی ہر نعمت سے نروان لینے والی ہستیاں ثابت کر رہے تھے۔ شکیب جلالی نے کہا تھا:
دل میں پرائے درد کی اک ٹیس بھی نہیں 
تخلیق کی لگن ہے تو زخموں کو پالیے 
یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ ملک میں پائی جانے والی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے پٹرول کے بحران اور عوام کے اس مسئلے کو کس قدر اہمیت دی۔ ملک کی کسی سیاسی جماعت نے اتنے بڑے بحران کو تنقید کا باقاعدہ ہدف نہ بنایا؛ البتہ ضمنی طور پر حکومت مخالف بیانات پر پٹرول چھڑکنے کا کام ضرور ہوتا رہا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکمران ایلیٹ اور اشرافیہ کو عوامی مسائل اور دکھوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ رواں سردیوں میں بجلی، پانی، گیس اور پٹرول سمیت ہر قسم کی لوڈشیڈنگ جاری رہی۔ غریب کا چولہا مہنگائی نے پہلے سے ہی ٹھنڈا کر رکھا ہے۔ ہمارے ہاں شدید سردی سے نبٹنے کے لئے چونکہ کوئی انفراسٹرکچر موجود نہیں‘ اس لئے کئی غریب موسم کی شدت سے مرتے رہے۔ حکمرانوں کے پاس شمسی توانائی سے لے کر پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والے جملہ جنریٹرز موجود ہیں اور غریب کے پاس صرف سورج ہوتا ہے جو موسم سرما میں سرد پڑ جاتا ہے ؎
یوں آئینہ بدست ملی پربتوں کی برف 
شرما کے دھوپ لَوٹ گئی آفتاب میں 
لاہور ہائی کورٹ نے پٹرول بحران کیس پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزارت پٹرولیم ذمہ داری نہیں نبھا سکتی تو اسے بند کر دیتے ہیں، یہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے کسی کو یہ حقوق غصب نہیں کرنے دیں گے۔ معاملات عدالتوں میں جانے سے پہلے بھی قصورواران کو اپنی نااہلیوں کا پتہ ہی ہوتا ہے لیکن وہ معاملے کو سرد خانے میں ڈالنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ بہت سے دوسرے ان گنت معاملات کی طرح پٹرول بحران کی کہانی بھی انہیں بلیک ہولز میں کہیں گم ہو جائے گی‘ جہاں آج تک قومی سانحات کی تجہیز و تکفین ہوتی رہی ہے۔ قومی سانحات کے ذمہ داران اور مجرمان کو سامنے تو نہیں لایا جاتا‘ لیکن عوام الناس کو ان شیدے پستولوں کے بارے میں سارا علم ہوتا ہے کہ کو ن سا شیدا اور کون سا میدا کس قماش کا قومی مجرم ہے؟
ملک میں اس وقت کئی ایک محاذ کھلے ہوئے ہیں‘ جن میں تین طلاقوں سے لے کر سینیٹ کے انتخابات کے لئے جوڑ توڑ تک سبھی معاملات جاری ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے بیک وقت تین طلاقیں دینے کے عمل کو جرم قرار دیتے ہوئے اس حوالے سے قانون سازی کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ تجویز کیا گیا ہے کہ پہلی، دوسری اور تیسری طلاق کے درمیان سوچ بچار کے لئے مناسب وقفہ ہونا چاہیے۔ قومی سیاست کے ماہرین نے تین طلاقوں کے مسئلے کو سینیٹ کے انتخابات کے جوڑ توڑ کے ساتھ بھی جوڑا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری کے اشارے پر سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے چار استعفوں کو منظور کر لیا گیا ہے۔ یہ استعفے انہوں نے دھرنوں کے عروج کے دنوں میں جمع کرائے تھے جنہیں سپیکر نے اب منظور کر لیا ہے۔ استعفے اب ویسے ہی موثر ہو گئے‘ جیسے تیسری طلاق کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے ''غیر مطلقہ‘‘ نہیں رہتے۔ پی ٹی آئی کے ان استعفوں سے پیپلز پارٹی، متحدہ کی طرف سے سینیٹ کے انتخابی پریشر سے قدرے آزاد ہو گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے سامنے متحدہ کی بارگیننگ پوزیشن کمزور ہو گئی ہے۔ سینیٹ میں ایک خاتون اور ایک ٹیکنوکریٹ نشست کے لئے ووٹوںکی بات چیت ممکن تھی۔ اب سندھ سے سینیٹ میں پیپلز پارٹی کو چھ کی بجائے سات نشستیں مل سکتی ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے اس سیاسی دائو کے متعلق کہا ہے کہ پی پی پی نے دوعملی کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ پی پی والوں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی والے تو کب کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو تین طلاقیں دے چکے اب انہیں دوبارہ شادی کرنے کے لیے ''حلالے‘‘ کے آپشن پر غور کرنا چاہیے:
پتھروں کی پناہ میں کیوں ہے 
آئینہ ساز کی دکاں سوچو؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں