"TSC" (space) message & send to 7575

…اب میرا انتظار کر

بوم بوم شاہد آفریدی نے اپنے 8000ہزار رنز مکمل کرلئے ۔قوم اور ان اشتہاری کمپنیوں کو مبارک ہوجن میں وہ چوکے اور چھکے لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔اس مبارک موقع پر رمیض راجہ نے آفریدی سے پوچھاکہ آپ کو یہ اعزاز چالیس سال کا ہونے پر نصیب ہوا ہے ؟بوم بوم اپنی عمر کا تذکرہ سن کر شرما گئے ،مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ ابھی تو ان کی عمر 36سال ہے۔ کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والے احباب بتاتے ہیں کہ آفریدی نے اپنا پہلامیچ1996ء میں اس وقت کھیلاتھا جب وہ 21سال کے تھے ۔اس حساب سے بوم بوم کو 40واں سال لگ گیاہے۔کرکٹ اور شوبز کے شعبے ملتے جلتے ہیں جن میں کم سن ہونا اچھائی کی علامت سمجھاجاتاہے ۔کرکٹ کے بوم بوم نے تو 40کاہونے پر اپنے آپ کو 36سالہ تسلیم کرلیالیکن آفرین ہے پاکستانی شوبز پر جس میں میرا،ریشم ،ثناء اور لیلیٰ سمیت بعض دوسری اداکارائوں نے تاحال اپنی عمر کی سلورجوبلی نہیں منائی حالانکہ ذاتی طور پر وہ پلاٹینم جوبلی سے بھی چھ مہینے بڑی ہوچکی ہیں۔ یوں لگتا ہے انہوں نے عمر کے حوالے سے کسی ''واقف عدالت ‘‘ سے Stay (حکم امتناعی) لے رکھاہے۔
کرکٹ اور شوبز میںنجانے کن وجوہ کی بنا پر چھوٹے پن کوبڑا پن سمجھا جاتاہے حالانکہ بعض دوسرے شعبوں میں عمررسیدہ ہونا سنیارٹی کے زمرے میں آتا ہے۔سینئروکیل ،سینئر ڈاکٹر، سینئر انجینئر، سینئر جرنلسٹ ،سینئرکالم نگار، سینئر تجزیہ نگار ،سینئرعسکری تجزیہ نگار ایسے عہدے ہیں جنہیں ہمارے ہاں خصوصاًمیڈیا میں عزت واحترام کے ساتھ روپیہ پیسہ بھی دیاجارہاہے ۔ حالانکہ سینئر ہونے پر پیکج میں روپے پیسے سے زیادہ میڈیکل سہولیات اہم ثابت ہوتی ہیں۔ اس نوع کے معاملات میں سینئروفاقی وزیر اور سینئرصدر بھی ہمارے ہاں مرکز نگاہ رہتے ہیں ۔سینئرصدر ہمارے ہاں میڈیا میں تب دکھائی دیتے ہیں جب راتوں رات کوئی آرڈی نینس لانا مقصود ہویاوزیر اعظم کی عدم دستیابی پر ہارس اینڈکیٹل شو کا افتتاح کرنا مقصود ہو۔سبھی شعبوں اور ان سے جڑے افراد کے ساتھ سینئر کاسابقہ اچھا نہیں لگتا۔مثال کے طور پر سینئرپاپ سنگر ،سینئربیلے ڈانسر، ڈبلیوڈبلیوایف کی فی میل سینئرریسلرز بھی بھلی محسوس نہیں ہوتیں۔ ہم نے آج تک کوئی سینئرطوائف بھی نہیں دیکھی۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہوتی ہے کہ طوائف جب سینئرہوتی ہے تو وہ نائکہ کے عہدے پر ترقی پاجاتی ہے ۔طوائفوں کی طرح سینئر ہیجڑے بھی ناپید ہیں ،ہم نے آج تک کسی ہیجڑے کے سا تھ بھی سینئرکا سابقہ نتھی نہیں دیکھا۔ہیجڑے بھی ترقی پاکر گوروکے عہدے پر فائز ہوجاتے ہیں۔سابقہ سے مراد ایسے لفظ سے ہے جو کسی لفظ سے پہلے آئے اور اس کے مفہوم میں اضافہ کردے جیسے (بو) سے پہلے خوش آئے تو خوشبو بن جاتاہے ۔اسی طرح لاحقہ وہ لفظ ہوتاہے جوکسی لفظ کے بعد آتا ہے جیسے نامہ بر اور دلبر میں بَرآتے ہیں۔ ہیجڑے سابقے اور لاحقے سے آزاد ہوتے ہیں کیونکہ جہاں وہ سینئرنہیں ہوتے وہیں ان کے لواحقین بھی نہیں ہوتے ۔
کرکٹ میں مڈل آرڈر پر آنے والے بلے بازوں کی طرح مڈل ایج (درمیانی ) عمر کی فلمی ہیروئنیں بھی لمبی اننگز کھیلتی ہیں۔فلم انڈسٹری میں رواج ہے کہ وہاں فلمی ہیروئن کی عمرنہیں صرف وزن بڑھتا ہے۔اداکارہ انجمن اس وقت تک ہیروئن بنتی رہیں جب تک وہ اپنے پیروں پر چل کر سٹوڈیو آتی رہیں۔ ایک فلمی ہیروئن کی طبعی عمر جتنی ہوسکتی ہے انجمن نے اس سے کئی گنا زیادہ عرصہ کام کیا۔ اپنی ایک ٹرم میں تو اس نےLiposuction(جسم سے فالتو چربی نکالنے کا آپریشن)کرا کرساتھی اداکارائوں کی ضمانتیں ضبط کرادی تھیں۔ انجمن فلم انڈسٹری میں اپنے کم بیک کاہیٹرک کرچکی ہیں۔سیاست اور اقتدار کے کھیل میں وزارت عظمیٰ کا ہیٹرک بعد میں متعارف ہوا ہے۔دوسرے محکموں میں ایکسٹین شین لی جاتی ہے یا شب خون ماراجاتاہے ۔انجمن ہماری وہ مطلق العنان فلمی ہیروئن ہے جس نے طویل عرصہ تک لوگوں کے دلوں پر راج کیاہے۔انجمن سے پہلے لالہ سدھیر ہمارے ایسے ہیرو تھے جنہیں اپنی عمر سے تین گنا چھوٹی ہیروئن آسیہ کے مقابل فلم ''لاٹری ‘‘ میں ہیرو کاسٹ کیاگیاتھا۔لالے سدھیر کا فلمی ٹائیٹل جنگجو ہیروہوا کرتاتھا ،دنیا نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی جنگ سے توبہ کر لی تھی مگر لالہ جی نے اپنے فلمی تخلص میں کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہ کی۔ لالے سدھیر کے بعد سلطان راہی اور محمد علی کی فلمی جوانی کا دائرہ کار بھی وسیع تر رہا۔ فلمی شائقین کے جذبات اور احساسات کے احترام کے لئے اگر کوئی ادارہ ہوتا تو ایسے ہیروز اور ہیروئن کا چالان ہوسکتا تھا جو مصنوعی بتیسیاں لگا کر ربع صدی تک بی اے کے سٹوڈنٹس بنتے رہے۔ہمارا بس چلتا تو محکمہ انسداد بے رحمی برائے حیوانات کی طرز پر محکمہ انسداد بے رحمی برائے فلمی حیاتیات قائم کرتے جس کے تحت ایسے فنکاروں کا احتساب کیاجاسکتا۔
عمران خان نے سینئرکرکٹراور کپتان کے طور پر 1992ء کا ورلڈ کپ جیتاتھا،علاوہ ازیں انضمام الحق،انتخاب عالم،مشتاق محمد،آصف اقبال،سرفراز نواز،ظہیرعباس،ماجدخان اور جاویدمیانداد بھی اچھے خاصے سینئرہوتے ہوئے بھی قومی کرکٹ کے لئے ایک مفید کردار اداکرتے رہے۔ کرکٹ کے بعض سینئرزاپنے جونیئرز پر جوا کھیلنے کا
الزام لگاتے ہیں جبکہ جونیئرز کا کہنا ہے کہ ہم اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم پیسہ کمانے کے لئے آئوٹ ہوتے یا نوبال کراتے تھے اور یہ عادی آل رائونڈر تھے۔ کرکٹرز کی طرح ہمارے بعض لکھاری بھی ادبی گرائونڈ میں اپنی ففٹیاں اور سنچریاں مکمل کررہے ہیں۔مشتاق احمدیوسفی کی تازہ کتاب ''شام شعرِیاراں‘‘ حال ہی میں شائع ہوئی ہے جبکہ ماشااللہ وہ 90سال سے اوپر جارہے ہیں۔یوسفی صاحب کے علاوہ ہمارے بعض دوسرے مزاح نگار ایک طویل عرصہ سے ادبی کڑک کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ مزاح کے میدان میں انڈہ د یا نہ بچہ مگر وہ اس سفاری جنگل کے شیر بنے ہوئے ہیںاور اسی نسبت سے وہ اصلی شیر کے مزاحیہ مشیر بھی ہوتے ہیں۔ ہمارے بعض مزاح نگار اپنی وضع قطع سے مضافاتی علاقوں کے پہلوانی دنگلوں کے آرگنائزر دکھائی دیتے ہیں ، ان سے مزاح کی امید کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی سادہ لوح الماس بوبی سے اولاد کی توقع کربیٹھے۔جیسے کوئی فلم کا شوقین کسی ایسے وکیل سے کالا باغ ڈیم کامسئلہ حل کرانے کی توقع کربیٹھے جو اصلی وکیل نہ ہو،صرف کالاکوٹ پہن کر وکیل بننے کی ایکٹنگ کررہاہو۔
مغرب میں عورتوں اورمردوں کے ساتھ ساتھ ادیبوں کی عمر یں بھی لمبی ہوتی ہیں۔ اس کی وجوہ جغرافیائی ،معاشرتی ،معاشی ،ثقافتی اورنفسیاتی ہیں۔منٹو ،شیوکمار بٹالوی،شکیب جلالی نے بہت تھوڑی عمریں پائیں۔شکیب جلالی اور مصطفی زیدی نے خود کشی کی تھی جبکہ منٹو اور شیو کی موت کو بھی ایک طرح سے خودکشی ہی قراردیاجاتا ہے، دونوں نے اپنے آپ کو سنگدل معاشرے میں احساس کی سولی پر لٹکارکھاتھا۔ طویل عمری کی نعمت پانے والے خوش نصیبوں کی زندگیوں کے گر دحاشیہ کھینچئے تو سراغ ملتا ہے کہ یہ قدرت کی عطا ہے اور اس کا راز سادہ طرززندگی ہے۔ غالب،اقبال ؒ،فیض،پطرس بخاری،اشفاق احمد،بانوقدسیہ ،انتظار حسین،لتامنگیشکر،آشابھوسلے،استاد فتح علی خاں پٹیالہ والے ،دلیپ کمار اور احمدندیم قاسمی نے طویل عمریں پائیں۔قاسمی صاحب نے فن کے جہاں میں موت کے بعد بھی زندہ رہنے کاتصور یوں پیش کیاتھاکہ ؎
کون کہتا ہے موت آئی مر جائوں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اُتر جائوں گا
چھوٹی عمریں پانے والے بڑے شاعروں اور فنکاروں میں منورظریف، پروین شاکر، مصطفی زیدی، سارہ شگفتہ، ایلویس پریسلے،مائیکل جیکسن،پاول واکر ،مارلن منرو اور مدھوبالا شامل تھیں۔مارلن منرو اور مدھوبالا دونوں مغربی اور مشرقی فلم نگر کی وہ اپسرائیں تھیں جن سے زیادہ خوبصورتی کا تصور خواب میں بھی نہیں کیاجاتا۔سکندر اعظم نے چھوٹی عمر میں دنیافتح کرلی تھی ،پاکستان کے 18کروڑ عوام اور سکندر اعظم میں ایک قدر مشترک ہے ،سکندر دنیا سے گیاتو اس کے دونوں ہاتھ خالی تھے جبکہ پاکستانی عوام کے دونوں ہاتھ اور کھیسے(جیبیں) خالی رہتے ہیں۔ایک سینئرفلمی ہیروئن اپنی 31 ویں سالگرہ کا کیک کاٹ رہی تھی،ایک مداح نے سوال کیا:چار سال پہلے آپ نے اپنی 30ویں سالگرہ منائی تھی، سینئر ہیروئن نے جواب دیا ،میری تاریخ پیدائش 29فروری ہے۔ لیپ کے سال پیداہوئی تھی اس لیے چار سال بعد ایک سال بڑی ہوتی ہوں۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمید گل کہتے ہیںکہ ''جنرل کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتا‘‘۔ہمارے ہاں سینئرہونے سے احتراز برتا جاتا ہے، ریٹائرڈ ہونا ہمارے ہاں بزدلی تصورکی جاتی ہے۔اقبال ؒ نے اس جہان کی رنگینیوں سے وابستہ اپنی گوناگوں مصروفیات اور خالق سے اپنی طبع میں پائے جانے والے عذر کویوں بیان کیاتھاکہ ؎
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں