حوصلہ ،ہمت، محنت اور پھر عظمت

مروت و محبت سے بھرپور مروت احمد صاحب کے بے پناہ خلوص و ادب دوستی کے آگے کسی مصروفیت کا بہانہ کارگر ہوہی نہیں سکتا۔ سو اپنے ساتھ منائی جانے والی شامِ اعزاز میں شرکت کے لیے مجھے مسقط پہنچنا تھا، یہ شام اعزاز سفیر پاکستان برائے سلطنت عمان، جناب کے کے احسان و گن صاحب ،فہد اویس منیر اور میاں محمد منیر صاحب ودیگر پاکستانیوں کے بھرپور تعاون سے منعقد کی جارہی تھی۔ جہاز نے مسقط کے لیے پاکستانی سرزمین چھوڑی تو میں بہت دیر تک ان گھروں کو دیکھتا رہا جن میں بسنے والے پاکستانیوں کو پچھلی کئی دہائیوں میں چین کا شاید ایک پل بھی نصیب نہ ہوا۔ پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین والمناک ترین دور سے گزررہا ہے۔ جن کے پاس زندگی گزارنے کے وسائل نہیں ان 12کروڑ سے زائد پاکستانیوں کی تو جو حالت ہے سو ہے‘ مگر جو جیب میں رقم اور جائیدادیں لیے پھرتے ہیں وہ بھی جیبیں بھری ہونے کے باوجود نہ بجلی خریدپاتے ہیں نہ امن وسکون کی نیند انہیں نصیب ہے اور تو اور وہ مٹھی بھر اشرافیہ جن کے لیے پاکستان سونے کی چڑیا ہے اور بقول میرؔ ’ یہ وہی امراء ہیں جن کی بدولت غرباء کی تعداد بڑھتی چلتی جاتی ہے‘۔ وہ بھی سکواڈرکھ کر اور گاڑیاں کوبلٹ پروف کرواکر ایک خوف کے عالم میں زندگی گزاررہے ہیں۔ یہی سوچتے سوچتے دھرتی ماں کا چہرہ اوجھل ہوگیا اور بادلوں نے جیسے جہاز کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ چند لمحے کے لیے آنکھیں بند کرکے سیٹ کی پشت سے گردن ٹکادی۔ انسانی ذہن کا المیہ یہی ہے کہ بھلے آسمانوں میں محوسفر ہو زمین کی سوچیں ساتھ لیے پھرتا ہے، کوشش کی کہ ساتھ لایا ہوا خالد حسینی کا ناول A Thousand Splendid Sunsجہاں چھوڑا تھا وہاں سے آگے پڑھ سکوں مگر ذرا جی نہ لگا۔ ایک دوصفحے پڑھ کر بند کردیا۔ کچھ دیر سامنے لگی سکرین پر مختلف چینلزبدلتا رہا لیکن صوفیہ لورین سے لے کر قطرینہ کیف تک کسی فنکارکا حسن بھی متوجہ نہ کرسکا۔ حسین فضائی میزبانی نے کچھ میگزینز پیش کیے تو یونہی الٹ پلٹ کر تصویریں دیکھتا رہا۔ ہیروں کے اشتہارات سے لے کرطرح طرح کے بکتے ہوئے پرفیومز‘ سیاحتی مقامات کی تصویریں، خوبصورت کھلے ہوئے بے غم زندگی سے بھرپور تابناک چہرے‘ کچھ بھی تو متاثر نہیں کررہا تھا کہ اچانک ورق پلٹتے پلٹتے گلن کننگھم کی داستان حیات کی ابتدائی لائنوں نے جیسے میری نظروں کو جکڑ سا لیا۔ اس بات کو تقریباً 100برس کے لگ بھگ ہوا چاہتے ہیں گلن کننگھم تقریباً 8برس کا تھا اور اس کے بڑے بھائی فلائیڈ کی عمر تب تیرہ برس تھی جب سکول میں ہونے والے ایک حادثے کے نتیجے میں فلائیڈ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور گلن نے زندگی کی دوڑ کے آغاز میں ہی بھائی کی موت کا صدمہ سہا اور گلن کو بری طرح جھلسے ہوئے وجود کے ساتھ یہ الفاظ سننا پڑے کہ گلن کی ٹانگیں اس حادثے میں اس بری طرح متاثر ہوئی ہیں کہ گلن اب زندگی بھر چلنے کے قابل نہیں رہا ہے۔ بیڈ پر زندگی موت کی کشمکش میں پڑے 8سالہ گلن نے اسی وقت طے کرلیا تھا کہ وہ قدرت کے اس جبر سے لڑے گا اور اسے شکست دے کر رہے گا۔ گلن کی زندگی کافی عرصے تک ایک وہیل چیئر کی مرہون منت رہی۔ مکئی کے دانوں جیسے کھلتے ہوئے ایک دن اس نے پوری قوت لگاکر خود کو وہیل چیئر سے نیچے گرادیا۔ وہ اٹھنے کے قابل نہیں تھا کیونکہ اس کا نچلا دھڑ بالکل مفلوج تھا۔ اس نے گھاس پہ اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر بے جان وجود کو گھسیٹنے کی کوشش کی ۔ اپنے نچلے دھڑ کو زمین پر رگیدتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا رہا اور کوشش میں اس کے گھٹنے‘ ٹخنے ،پائوں سب بری طرح چھِل گئے تھے ۔ ان سے خون رِسنے لگا تھا۔ وہ چند قدم ہی خود کو کھینچ پایا اور بُری طرح ہانپنے لگا۔ مگر اس کا حوصلہ کبھی نہیں ہانپا۔ گلن نے اگلے دن پھر یہی حرکت کی، اس کے اگلے دن پھر اور اس کے اگلے دن پھر اور پھر۔ اور پھر۔ اور پھر۔ یہاں تک کہ گلن لڑکھڑاکر چلنا شروع ہوگیا۔ بغیر سہارے کے چلنے ، پھر بغیر سہارے کے قدم اٹھانے لگا ۔ پھر مکمل چلنے لگا‘ پھر دوڑنے لگا اور پھر اس نے وہ کردکھایا جو شاید تاریخ میں کسی اور نے نہیں کیا۔ گلن نے دنیا کو بتایا کہ بھلے جن کا نچلا دھڑ مفلوج ہوجائے جسم بری طرح جھلس چکا ہو‘ بھلے دل ودماغ کسی انتہائی پیارے کی جدائی کے صدمے سے نڈھال ہوں لیکن جن کے حوصلے بحال وبرقرار ہوا کرتے ہیں، وہ معذوری سے نکل کر گلوری (Glory) کی انتہائوں کو چھو سکتے ہیں۔ وہی گلن کننگھم جو 1916ء میں حادثے کے باعث معذور ہوگیا تھا۔ بے انتہا حوصلے، مستقل مزاجی اور شدید ترین محنت کے باعث 1932ء کے اولمپکس مقابلوں میں 1500میٹر کی دوڑ میں چوتھی پوزیشن حاصل کرتا ہے۔ 1936ء میں وہی گلن کننگھم جرمن اولمپکس میں 1500میٹر کی دوڑ میں سلور میڈل جیت کر تصویر کو یہ پیغام دیتا ہے کہ تم مجھے جلاسکتی ہو میرا نچلا دھڑ مفلوج کرسکتی ہو، مگر میرا حوصلہ سلامت ہے، پھر 1938ء میں 800میٹر کی دوڑ میں ایک اور ورلڈ ریکارڈ بناکر گلن کننگھم نے ثابت کیا کہ حوصلے ،ہمیشہ اور محنت تقدیروں کو بدل سکتے ہیں۔ معذوری کو بھی گلوری عطاکرسکتے ہیں اور صحت مند توانا وجود بھی اگر بے حوصلہ پست ہمت اور کاہل ہوجائیں تو معذوروں سے بدتر ہوجایا کرتے ہیں۔ جہاز سلطنت عمان کے دارالخلافہ کی سرزمین چوم رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ پاکستان اس وقت اسی قسم کے حادثے سے دوچار ہے جیسا حادثہ معصوم گلن کننگھم کے ساتھ 1916ء میں پیش آیا تھا۔ ویسے ہی پاکستان کا وجود جھلسا ہوا ہے، زخمی ہے۔ معذوری کے مراحل سے گزررہا ہے لیکن اگر گلن کننگھم معذوری کو گلوری میں بدل سکتا ہے ایک فرد عظمتوں کو چھو سکتا ہے تو ایک قوم ایک ریاست کیوں نہیں، لیکن کیا اس لیے پاکستانیوں میں گلن کننگھم جیسا ہمت اور حوصلہ ہے؟ کہ حوصلہ ، ہمت، محنت اور ریاضت کے بغیر عظمت نصیب نہیں ہوا کرتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں