ہارلینڈ سینڈر 1890ء میں امریکہ میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ وہ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ اس کا باپ ایک غریب کان کن تھا اور اپنی موت تک ساری عمر کوئلے کی کان کی کھدائی میں مصروف رہا اور جوانی ہی میں ہارلینڈ اور اس کے چار بہن بھائیوں کو یتیم کر گیا۔ باپ کی موت کے وقت سینڈر کی عمر صرف چھ سال تھی اور اس پر اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا بوجھ آن پڑا تھا۔ سینڈر نے کمسنی میں پہلی نوکری ایک شرٹ بنانے والی فیکٹری میں کی۔ اس دوران اس کی ماں بھی نوکری پر جاتی تھی۔ ماں کی ہدایت کے مطابق ماں کی غیر موجودگی میںسینڈر کو اکثر اپنے بہن بھائیوں کے لیے گھر میں کھانا بھی بنانا پڑتا تھا۔ سینڈر نے اس دوران اپنی ماں سے کئی کھانے بنانے سیکھ لیے۔
اگلے چند سالوں میں سینڈر کو اپنا اور اپنے بہن بھائیوں کا جسم وجاںکا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے کئی نوکریاں کرنی پڑیں۔ اس نے کھیتوں میں پھل توڑنے کا کام بھی کیا‘ کمسنی میں بس کنڈیکٹری کی نوکری بھی کی‘ کچھ عرصے کیلئے فائر مین بھی رہا اور آخر میں ایک بہت چھوٹے سے سروس سٹیشن کا آغاز کیا ۔یہیں سے سینڈر کے کامیابی کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ سینڈر کے چھوٹے سے سروس سٹیشن پر جو مسافر رکتے تھے وہ ان کیلئے کھانے کا انتظام بھی کرنے لگا۔ ماں سے جو اس نے کھانے بنانے سیکھے تھے اس میں خاص طور پر فرائیڈ چکن ایک ایسی ڈش تھی جو مسافروں میں بہت مقبول ہونا شروع ہو گئی اور اس کے بنائے ہوئے فرائیڈ چکن کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ یہیں سے سینڈر نے اپنے پہلے ریسٹورنٹ کا آغاز کیا۔ 1935ء تک جب سینڈر 45 سال کا ہوا تو اس کے فرائیڈ چکن کی دھوم دور دور تک پھیل چکی تھی۔ تبھی گورنر روبی لیفون نے اسے ''کینٹیکی کرنل‘‘ کا خطاب دیا لیکن اس کی زندگی کی جنگ اور اتار چڑھائو ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔1950ء میں کچھ وجوہ کی بناء پر سینڈر کا بزنس تباہ ہو گیا اور یہاں تک ہوا کہ سینڈر کو انتہائی مشہور اور چلتا ہوا کامیاب ریسٹورنٹ بند کرنا پڑا اور مالی حالت یہاں تک خراب ہو گئی کہ اس کو سوشل سکیورٹی کا سہارا لینا پڑا۔ جب اس نے سوشل سکیورٹی کا 105 ڈالرز کا پہلا چیک وصول کیا‘ اس وقت اس کی عمر 65 سال تھی مگر پہلے چیک کی وصولی پر ہی ساری عمر زندگی سے جنگ لڑنے والے سینڈر نے طے کیا کہ وہ کرسی پر بیٹھ کر بقیہ زندگی گورنمنٹ کی خیرات وصول کرتے نہیں گزارے گا۔
اس کے پاس بہترین اور لذیذ فرائیڈ چکن بنانے کا ہنر تھا۔ اس نے گورنمنٹ کے 105 ڈالرز کے چیک کو لات مار کر مختلف کمپنیوں اور لوگوں کو اس بزنس میں پیسہ لگانے کیلئے قائل کرنا شروع کیا اور یوں اس فوڈ چین کی بنیاد پڑی جسے دنیا کے ایف سی یعنی کینٹیکی فرائیڈ چکن کے نام سے جانتی ہے۔ اس وقت کرنل کی عمر شاید 65سال سے بھی زیادہ تھی اور سال 1952ء تھا۔ آج تقریباً 105 سے زائد ممالک میں اس کی 17000 سے زیادہ شاخیں ہیں اور یہ دنیا کی دوسری بڑی فوڈ چین تصور کی جاتی ہے۔
میںپہلے بھی کہیں سینڈر کی یہ سکسیس سٹوری لکھ چکا ہوں مگر آج اس کی ضرورت اخبارات میں چھپی مایوسی کی وہ تفصیل پڑھنے کے بعد پیش آئی جس میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم کی قرضہ اسکیم میں لوگوں نے عدم دلچسپی کا اظہار کیا ہے ۔ ان کالموں کے قارئین جانتے ہیں کہ اس اسکیم کی لانچنگ تقریب میں جب مجھے مدعو کیا گیا تھا تو واپس آکر جو کالم میں نے لکھا تھا اس کا نام تھا مریم سے مریم تک۔ جس کا لب لباب تھا کہ عام پاکستانی ایسے ہی ہاتھ پھیلائے کھڑے رہیں گے اور کچھ گھرانے جو اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں‘ وہ اوپر والے ہاتھ یعنی لوگوں کو عطا کرنے کے دعوے دار بنے رہیں گے۔ اس تمام تر تنقید کے باوجود جیسا کہ پرائم منسٹر نے پچھلے دنوں اپنی تقریر میں کہا جو انہیں اول دن سے کہنا چاہیے تھا کہ یہ لوگوں کا ہی پیسہ ہے جو انہیں دیا جا رہا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سکیم کی کچھ شرائط کافی کٹھن بھی ہیں۔ مگر پھر بھی خواب دیکھنے والوں کو اور آگے بڑھنے والوں کو مایوسی کے بجائے ریاست کی اس آفر سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ خصوصاً نوجوانوں سے عرض ہے کہ پلیٹ میں رکھ کے کبھی کوئی کسی کو کامیابی پیش نہیں کرتا‘ اس کے لیے بے پناہ جدوجہد کرنا پڑتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ گارنٹر کی تلاش سے لے کر گارنٹر کو قائل کرنے کے بعد قرض کے حصول تک اور پھر کاروبار کے آغاز سے لے کر اسے کامیابی سے منافع خیز بنانے تک جتنے بھی دشوار مرحلے ہیں یہ سب اسی جدوجہد کا حصہ ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ بھی گزارش ہے کہ حکومت کو بھی فوری طور پر جائزہ لے کر اسکیم میں عوام کی عدم دلچسپی کی وجوہ تلاش کرنی چاہئیں اور لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنی چاہیے۔ بالکل ویسے ہی جیسے حکمران اور اشرافیہ جب خود اربوں کھربوں کے قرضے لیتے ہیں تو اپنے لیے اور ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔
اپنے کاروبار میں ناکام ہو جانے کے خوف میں مبتلا لوگوں سے عرض ہے کہ خوف سے گریز اور حوصلے کی تلوار صرف جسمانی لڑائی کے لیے ضروری نہیں ہوا کرتی بلکہ زندگی سے چومکھی لڑنے کے لیے بھی ہر مرحلے پر خوف سے فرار اور حوصلے جیسے ہتھیار کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ یقینا اس کے لیے انتہائی سوچ بچار‘ پلاننگ اور محنت کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ہر اس شخص کو جو آگے بڑھنے کی تمنا رکھتا ہے‘ اپنی آنکھوں میں خوابوں اور خواہشوں کے ساتھ ساتھ یہ ادراک بھی روشن رکھناچاہیے کہ کامیابی انہی کے قدم چومتی ہے جو زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور پنجوں میں پنجہ ڈال کر زندگی سے لڑنا جانتے ہیں‘ زندگی سے گھبراتے نہیں بلکہ زندگی کو زیر کر کے اس سے اپنا حق وصول کرنا جانتے ہیں۔
ہمیں اپنے نوجوانوں اور لوگوں کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ ہم انؐ کی امت ہیں جن کا یہ فرمان ہے کہ ''دس میں سے نوحصے رزق تجارت میں ہے ‘‘ جو اپنے کپڑوں میں پیوند خود لگاتے تھے اور اپنے جوتے خود گانٹھ لیا کرتے تھے۔ سو کام کوئی بھی ہو اس کے کرنے میں کوئی عار نہیں ہے‘ عار ہے تو جھوٹ، فراڈ، فریب، کرپشن، بے ایمانی، رشوت اور دو نمبری میں ہے‘ میرے نزدیک ایک کرپٹ بیوروکریٹ، جج، جرنیل، سیاستدان، بزنس مین یا صحافی سے کہیں زیادہ معتبر وہ موچی ہے جو جوتے پالش کرتا ہے ‘وہ خاکروب ہے وہ جمعدار ہے جو گٹر میں اتر کر بدبو دار گٹر کی صفائی کرتا ہے مگر حلال رزق کماتا ہے۔ اسی طرح ڈگری کے بعد ضروری نہیں ہے کہ سرکاری نوکری ہی کی جائے‘ آپ کوئی تندور کھول کر ‘چھابڑی لگا کر ‘ ریڑھی لگا کر ‘ برگر کا کھوکھا لگا کر‘ پلمبری کا کام سیکھ کر یا گاڑیوں کی ورکشاپ کھول کر اس کو آہستہ آہستہ سینڈر کی طرح ایک بڑے بزنس میں بدل سکتے ہیں۔
حکومت کی غلط پالیسیوں پہ تنقید اپنی جگہ مگر عوام کو اس اسکیم سے جو ریاست کی طرف سے پیش کی گئی ہے اور یقینا جو عوام ہی کا پیسہ ہے اور عوام ہی کو دیا جا رہا ہے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ سینڈر کی سکسیس (Success)کی طرح پوری دنیا میں پھیلی ہوئی سینکڑوں نہیں، ہزاروں نہیں لاکھوں کروڑوں کامیابی کی داستانیں ہمیں اور ہمارے نوجوانوں کو یہی سکھاتی ہیں کہ سفر بھلے عمر کے کسی بھی حصے میں شروع ہو اور کہیں سے بھی شروع ہو‘ چاہے مائنس سے ہی کیوں نہ شروع ہو وہ 105سے زیادہ ممالک میں 17000 شاخوں تک پھیلایا جا سکتا ہے اور اس سے بھی مزید آگے کہ محنت کرنے والوں ، ہمت نہ ہارنے والوں اور کسی بھی کام کو نیچ یا ہیچ نہ سمجھنے والوں کیلئے ...
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں...!!!