کورونا نے اس وقت قریباً پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے ۔ اس عالمی وبا سے متاثر ہو کر مرنے والوں کی تعداد 82 ہزارسے بڑھ چکی ہے‘ قریباً ساڑھے 14لاکھ افراد کورونا وائرس سے متاثر ہیں‘ جبکہ سو فی صد احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونے والے تین لاکھ سے زائد افراد صحت یاب ہوکر قرنطینہ سے واپس اپنے گھروں کولوٹ چکے ہیں‘ جواس بات کاثبوت ہے کہ عالمی ادارۂ صحت کی طرف سے جاری کردہ ہدایات اور احتیاطی تدابیر پر مکمل عمل کرکے ہی اس وبا کو شکست دی جاسکتی ہے۔انسدادِ کورونا کی احتیاطی تدابیر میں سب سے بنیادی نکتے صفائی اورسادگی ہیں‘ یعنی تنہائی اختیار کریں‘ ہاتھوں کو صابن سے بار بار دھوئیں‘ ہاتھ ملانے اورگلے ملنے سے گریز کریں‘ ماسک استعمال کریں‘ غیرضروری سفرنہ کیاجائے‘ اجتماعات اوررش والی جگہوں پر ہرگز نہ جائیں‘ گھروں پر رہیں اورمیل جول سے مکمل اجتناب کیاجائے ‘کیونکہ ماہرین کے مطابق‘ کورونا وائرس کاعلاج صرف اور صرف احتیاط ہی ہے اورانسدادِ کورونا کی احتیاطی تدابیرکا خلاصہ زندگی میں صفائی اورسادگی کی عادات اپنانے کا درس دیتی ہیں ۔
چین کی مثال پوری دنیا کے سامنے ہے۔‘چینیوں نے 76روز تک مکمل لاک ڈائون میں گزار کر اور احتیاطی تدابیر پر سوفی صد عمل درآمد کرکے کورونا وائرس کو شکست دے دی۔ عالمی وبا کا گڑھ بننے والے شہر ووہان میں گیارہ ہفتوں کے بعد زندگی معمول پر آچکی ‘ ایئرپورٹس‘ ٹرین سروس اور مارکیٹوں کی رونقیں بحال ہو گئیں‘کورونا کی وجہ سے سنسان ہونے والا ووہان ایک بار پھر ہنستے بستے شہر میں تبدیل ہو گیا‘ اندرون ِملک پروازیں بحال ہونے پر ایئرپورٹس پر رش بڑھ گیا۔ ٹرین سروس بھی بحال ہو گئی‘ سٹیشن پر لوگوں کی بڑی تعداد نظر آئی‘ ہائی وے کی رونق بھی بحال ہو گئی۔چین نے ویکسین کے بغیر کورونا وائرس کی وبا کو محدود کر کے دنیا کے لیے مثال قائم کر دی اوربتا دیا کہ اگر اس وبا سے بچنا ہے تو صرف ''کورونا سے ڈرنا نہیں‘ لڑناہے‘‘ کا نعرہ لگانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا‘ بلکہ اپنے معمولات زندگی میں تبدیلی لانا ہوگی۔ صفائی کی عادت سائنسی بنیادوں پر اپنانا ہوگی اور اپنے لائف سٹائل کو تبدیل کرکے سادگی اختیار کرناہوگی۔
کورونا وبا کا عالمی سطح پر جائزہ لیاجائے تو تادمِ تحریر عالمی وبا سے چین میں قریباًچار ہزارافراد جاں بحق اورہزار آٹھ سو افراد بیمار ہوئے۔77 ہزار 879 افراد صحت یاب ہو گئے۔ اس وقت گیارہ سو نوے چینی زیر علاج ہیں۔ اٹلی میں کورونا کے باعث دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں‘ جہاں 17 ہزار 127 افراد جان سے گئے اور ایک لاکھ 35 ہزار 586 افراد متاثر ہیں۔ سپین میں کورونا سے 14ہزار 45 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ فرانس میں عالمی وبا سے دس ہزار 328 افراد ہلاک ہو گئے۔ جرمنی میں کورونا سے 2 ہزار 16‘ ایران میں تین ہزار 872 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
دریں اثناء مزدوروں کی عالمی تنظیم آئی ایل او نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث دنیا بھر میں کم از کم ایک ارب 25 کروڑ لوگوں کے روز گار کو خطرہ لاحق ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں یہ صورتحال انتہائی سنگین ہوسکتی ہے اور اگر ہم نے اس کی سنگینی کو اب بھی نہ سمجھا اور پھر خدانخواستہ قحط اورخانہ جنگی جیسے مسائل وبحران ہمارے گلے پڑ سکتے ہیں‘ جو قوموں کو تباہی وبربادی کی آخری حد تک لے جاسکتے ہیں۔
بات صفائی وسادگی کی ہورہی تھی۔ بحیثیت ِمسلمان بھی یہ دونوں باتیں ہمارے ایمان کا بنیادی جزو ہیں اورہم یہ بات بھی بڑے فخر سے کرتے ہیں کہ ہمارا ملک پاکستان اسلام (کلمہ طیبہ) کی بنیاد پر قائم ہوا۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں اور واقعی قائداعظم محمدعلی جناح ؒنے جو دو قومی نظریہ پیش کیاتھا اس کی وجہ مسلمانوں اور ہندوئوں کے ناصرف مذہبی عقائد بالکل مختلف ہیں ‘بلکہ تمام بنیادی رسم ورواج‘ رہن سہن اور طورطریقے بھی الگ ہیں۔ ہندو ئوں کی عام زندگی میں بھی غیر ضروری رسومات‘ تہواروں اور دکھاوے کی اہمیت بہت زیادہ ہے ‘جبکہ ہمارا مذہب ہمیں میانہ روی‘ اعتدال پسندی اورسادگی کادرس دیتاہے اوراگر ہم اپنے بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہوجائیں تو ناصرف ہم معاشی مسائل پر قابو پاسکتے ہیں‘ بلکہ اس سے ہماری زندگی میں آسانیاں ہی آسانیاں پیدا ہوں گی۔ امیر وغریب کا ظاہری فرق کم ہوگا۔ غریبوں کے مسائل میں بھی کمی آئے گی اورانہیں زندگی کے اہم مواقع پر احساسِ کمتری کاشکار بھی نہیں ہونا پڑے گا۔ سادگی اختیار کرنے سے ہی ہم ایک مضبوط قوم کی بنیاد رکھ سکتے ہیں ۔
وطنِ عزیز میں کورونا کی وبا پھیلنے کے بعد جہاں دیگر شعبوں میں کاروبار زندگی معطل ہوا‘ وہیں ہوٹل‘ شادی ہال اورمارکیاں بند ہونے سے شادی بیاہ کی تقریبات بھی رک گئیں‘ جو میرے خیال میں سراسر غلط ہے‘ کیونکہ لاک ڈائون کے باعث دیگر امورِ زندگی متاثر ہونا تو مجبوری ہے‘ لیکن شادیاں تو سادگی سے بھی ہوسکتی ہیں۔ شادی کے لئے مہمانوں کی خاص تعداد کاہوناکوئی شرط نہیں‘ ڈھول باجے اورناچ گانے ضروری نہیں‘ زندگی رہے تو ولیمہ کی جگہ بعد میںبھی عزیزواقارب کی دعوتیں کی جاسکتی ہیں۔رسم ورواج اور فوٹوسیشن کیلئے زندگی میں خدا پھر بھی مواقع عطا کرسکتاہے ‘لیکن دنیا کو دکھانے کیلئے ایک اہم سنت ِ نبوی ﷺ کو غیر ضروری التواء میں رکھنا‘ لڑکے اورلڑکی کو رشتہ ازدواج میں بندھنے سے روکنا اورایک فریضہ انجام دینے میں تاخیر کسی طورپر مناسب نہیں۔ مارچ اوراپریل کے مہینے موسم کے اعتبار سے شادی بیاہ کی تقریبات کیلئے زیادہ موزوں سمجھے جاتے ہیں اورموسم بہارمیں تازہ پھولوں کی خوشبو کے ساتھ ہزاروں نوجوان جوڑے زندگی کے نئے سفر کاآغاز کرتے ہیں ۔ اس بات میں بھی کوئی شک وشبہ نہیں کہ شادی ہالوں اورمارکیوں نے ایک طرف تقریبات کو آسان وسہل بنایا تو دوسری طرف اس سے لاکھوں لوگوں کوروزگار بھی ملا ‘ پہلے گھروں میں مہینہ مہینہ مہمانوں کی آئوبھگت کرنا پڑتی تھی ‘لیکن اب شادی ہال میں صرف پانچ سے چھ گھنٹے کی تقریب کے بعد دولہے اپنی جیون ساتھی کو ڈولی میں ڈال کر زندگی کے نئے سفر پرروانہ ہوجاتے ہیں‘ لیکن اب موجودہ حالات میں جب شادی ہالز اورہوٹلز بند ہیں تواس صورت ِحال میں شادیوں کاالتواء مناسب نہیں۔ حکومت نے بھی گھر کی چاردیواری میں احتیاطی تدابیر کوملحوظ خاطر رکھ کر شادی کی تقریبات کی اجازت دے رکھی ہے ‘ویسے بھی ہم سادگی کی باتیں تو بہت کرتے ہیں ‘لیکن عملی زندگی میں اپنانے سے کیوں کتراتے ہیں؟ ہم اس بات پر بضد کیوں ہیں کہ جب تک ڈھول باجے‘ بارات اورولیمے کی اجازت نہیں ہوگی ‘اس وقت تک ہم نے بچوں کی شادیاں نہیں کرنی ۔
راولپنڈی کے نواحی علاقے میں ایک صاحب کے بیٹے کی شادی اٹھارہ روز ڈھولک اور گھریلو تقریبات کے بعد صرف چوبیس گھنٹے پہلے اس لئے ملتوی کردی گئی کہ جب شادی ہال کھلیں گے‘ ناچ گانے اور بارات کی اجازت ہوگی ‘تو دوبارہ تاریخ طے کی جائے گی۔ خدا کے بندو!کون جانتاہے کہ اس وبا سے ہماری جان کب چھوٹے گی‘ حالات کب معمول پر آئیں گے اور کیاگارنٹی ہے کہ ان صاحب کے بیٹے سمیت دیگر نوجوانوں کی شادیوں کی دوبارہ تاریخ طے ہونے تک کون کہاں ہوگا؟
حالات کا جائزہ لیاجائے تو ہمیں معاشرے میں سادگی کی عملی مثالیں بہت کم نظر آتی ہیں‘ جوہمارے مسائل کی جڑ ہے۔ عقلمندی یہی ہے کہ ہم عالمی حالات وواقعات سے سبق سیکھیں‘ اپنی زندگیوں میں سادگی کوعملی طورپراپنائیں‘ پرتعیش اورپرتکلف تقریبات کو فی الحال پس پشت ڈال کر زمینی حقائق کے مطابق ‘خودساختہ رکاوٹوں کو دور کرکے اپنے معمولات زندگی میں سادگی اپنائیں‘تاکہ ایک کامیاب قوم کی بنیاد رکھی جاسکے۔