لاک ڈاؤن یا شٹر ڈاؤن ؟

پاکستانی قوم جمہوریت اورآمریت میں زیادہ فرق تو نہیں جانتی‘ لیکن اتنا ضرور سن رکھا ہے کہ بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔شاید اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی سیاستدان عوام سے ووٹ لے کر منتخب ہوتاہے اور اسے یہ بھی خیال ہو کہ دوبارہ بھی ووٹوں کیلئے عوام کے سامنے جانا پڑے گا تو پھر وہ ہزار سیاسی مجبوریوں کے باوجود بھی عوام کے دکھ درد کی بات ضرور کرے گا کیونکہ وہ خود کو جوابدہ سمجھتاہے‘ لیکن موجودہ کابینہ کے بااثر ارکان میں اکثریت معاونین خصوصی کی ہے جنہیں ایک عام ووٹر سے کچھ لینا دینا نہیں‘ لہٰذا ان کی سوچ بھی صرف حکومتی امور نمٹانے اورخزانے کے معاملات درست رکھنے تک ہی محدود ہوتی ہے ۔وہ ہر معاملے میں حکومتی مسائل کا ہی ذکر کرنا فرض سمجھتے ہیں اورکبھی غریب شہریوں کی مشکلات کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ کورونا وائرس کے باعث پاکستان میں لاک ڈائون کا دوسرا مہینہ چل رہاہے بلکہ اگر ایمانداری سے بات کی جائے تو ملک میں لاک ڈائون تو کم ہی نظر آتا ہے لیکن شٹرڈائون ضرور ہے‘ جس کی وجہ سے ملک بھر میں 80فیصد کاروبار بند پڑا ہوا ہے‘ لاکھوں خاندان فاقہ کشی پر مجبور ہوچکے ہیں‘ خصوصاً چھوٹا کاروباری طبقہ اوردیہاڑی دار مزدور‘ جن میں عام دکانوں پر کام کرنے والے لاکھوں دیہاڑی دار سیلز مین بھی شامل ہیں ‘سخت پریشان ہیں‘ کیونکہ ایک طرف دو ماہ سے ان کی آمدن بند ہے ‘ اور رمضان المبارک بھی شروع ہے ‘ اب غریب کے بچے روٹی کے ساتھ عید کیلئے کپڑے اورجوتوں کی فرمائشیں بھی کرتے ہیں۔ 
لاک ڈائون کے نام پر شٹرڈائون سے تنگ چھوٹے کاروباری طبقے نے اپنے منتخب نمائندوں سے رابطے اوردبائو بڑھانا شروع کردیاہے اوراگر پندرہویں روزے تک شٹرڈائون کی پالیسی پر حکومت نے سنجیدگی کامظاہرہ نہ کیاتو خدانخواستہ معاشی پریشانی عوام کو احتجاج کیلئے سڑکوں پر لاسکتی ہے‘ جو کورونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک صورتحال کاسبب بن سکتی ہے۔وزیراعظم عمران خان ایسے ہی حالات سے بچنے کیلئے شروع دن سے سخت لاک ڈائون اورکاروبار کی بندش کے حامی نہیں تھے اور وہ پہلے روز سے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں سمارٹ لاک ڈائون کی طرف جاناہوگا۔ وزیر ریلوے شیخ رشیداحمد کی رہائش گاہ اورحلقۂ انتخاب راولپنڈی شہر کے وسطی علاقے بوہڑ بازار‘ راجہ بازار‘ صرافہ بازار ‘ موچی بازار‘ اُردو بازار ‘ ٹرنک بازاراورموتی بازار کے سنگم پر واقع ہے‘ اسی لئے عام کاروباری طبقے کے مسائل ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ دو روز پہلے شیخ رشید احمد کا ایک ویڈیو پیغام دیکھا جس میں ان کا لب ولہجہ عام دکاندار کی صحیح ترجمانی کررہاتھا ‘ شیخ صاحب کاکہناتھا کہ چینی والے کو تو کوئی پکڑے گا نہیں‘ یہ آئی پی پی کوتو پکڑے گاکوئی نہیں‘ آٹے میدے والے کو کوئی نہیں پکڑے گا اور یہ شٹر جس بے چارے نے اوپر نیچے کرنا ہے اس کو تھانے لے جا کر چھتر ماریں گے۔شیخ رشید کی طرح دیگر بھی جتنے سیاسی لیڈروں نے عوام کاسامنا کرناہوتا ہے ان کی رائے زیادہ مختلف نہیں‘ ویسے بھی ‘ ملک بھر میں کاروبار‘ ٹرانسپورٹ ‘ تعلیمی ادارے اور عوامی مقامات بند ہیں‘ لیکن سڑکوں‘ بازاروں اور گلی محلوں میں عوام کا سمندر اسی طرح ٹھاٹھیں مارتا پھر رہاہے‘ پبلک ٹرانسپورٹ تو بند ہے‘ لیکن سڑکوں پر پرائیویٹ گاڑیوں کا رش پہلے سے زیادہ ہے اور ہر وہ شخص جو عام حالات میں بس یا ویگن میں سفر کرتاتھا آج کل وہ بھی اپنی گاڑی نکالنے پر مجبور ہے۔ کورونا وائرس دکان کے شٹر سے تو نہیں پھیلتا بلکہ لوگوں کے میل جول سے منتقل ہوتاہے‘ اس لئے اب حکومت کو نظرثانی کرناہوگی۔ موجودہ لاک ڈائون کی پالیسی کو سمجھنا بھی آسان نہیں‘ تعلیمی ادارے بند ہیں اورسٹیشنری کی دکانیں کھول دی گئیں‘ بازار میں کپڑے کی کوئی دکان کھلی نہیں اوردرزیوں کو کام کی اجازت دے دی گئی ہے‘ اسی طرح شوز سٹورز بند پڑے ہیں لیکن فٹ پاتھوں پر جوتے فروشوں نے قبضہ کررکھاہے جو موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہائی ناقص کوالٹی کے جوتے مہنگے داموں فروخت کررہے ہیں اورلوگ عید کی وجہ سے خریدنے پر مجبور ہیں۔ نئے وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے بھی مکمل لاک ڈائون کے فارمولے کو پاکستان سمیت کئی ممالک میں ناکام قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ ملک سخت لاک ڈان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔وہ کہتے ہیں کہ کورونا وبا کا بوجھ سب سے زیادہ مزدور طبقے پر پڑا۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہم سب کچھ بند کرکے گھروں میں بیٹھ جائیں‘ یہ فارمولا نہ صرف پاکستان بلکہ امریکا جیسے ممالک میں بھی ناکام ہوگیا ہے‘ کچھ لوگوں کا خیال تھا ملک میں مکمل لاک ڈائون ہوناچاہیے‘ لیکن اب صوبوں کو بھی احساس ہوگیا ہے کہ لاک ڈائون بارے سخت پالیسی نہیں اپنائی جاسکتی‘ پاکستان قرضوں میں ڈوبا ہوا ملک ہے۔ لاک ڈائون کرنے سے سپلائی چین مکمل نہیں ہوگی‘ ہم اس کے متحمل نہیں ہوسکتے‘ امیر لوگ تو گزارا کرلیں گے‘ لیکن غریب کیا کرے گا؟
وزیراعظم عمران خان پہلے دن سے ہی سخت لاک ڈائون اور کاروبار کی بندش کے حامی نہیں‘لیکن عوام کسی کی سنتے ہی نہیں ‘ جو بازار اورٹرانسپورٹ بند ہونے کے باوجود گھروں میں بیٹھتے نہیں‘ سماجی فاصلے کے اصول پر دس فیصد بھی عمل دکھائی نہیں دیتا‘ حتیٰ کہ لوگ ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ کھانے پینے سمیت کئی کاروبار پہلے سے کھلے ہیں جہاں دھڑا دھڑ خریدوفروخت جاری ہے ‘ نادرا دفاتر بھی کھولے جارہے ہیں‘ صرف اندرون شہر موٹرسائیکل ڈبل سواری پر کسی حد تک پوچھ گچھ کی جاتی ہے‘ لیکن پرائیویٹ گاڑیوں میں سماجی فاصلے سمیت کسی قسم کی حکومتی ایس اوپیز پر عمل درآمد نہیں ہورہا ۔ آدھے بینک بند پڑے ہیں اورجو برانچز کھلی ہیں وہاں دیگر برانچوں کا بوجھ بھی پڑ گیاہے اورلوگ قطار درقطار کئی کئی گھنٹے کھڑے ہونے پرمجبور ہیں۔ تاجر برادری کہہ رہی ہے کہ ہمیں ایس او پیز کے مطابق کاروبار کھولنے دو ۔ اب تو حکومت کے اپنے وزیروں نے بھی وزیراعظم کی تائید کرتے ہوئے لاک ڈائون کے خلاف آواز بلند کردی ہے‘ تو پھر آخر مسئلہ کیاہے کہ نہ تو ہم لاک ڈائون پر مکمل عمل کررہے ہیں اورنہ ہی دکانیں کھولنے کی اجازت دی جارہی ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں