کورونا متاثرین: مریض یا مجرم؟

بیماری کوئی بھی ہو‘ اچھی نہیں ہوتی اور اس کے اثرات و تکلیف کااندازہ وہی شخص کر سکتاہے ‘جسے کوئی مرض لاحق ہو یا جس کا کوئی عزیز متاثرہو۔ کورونا وائرس ایک ایسی وبا ہے‘ جو دنیا بھر کے ساتھ ساتھ پاکستان میں تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس کے مریضوں کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے‘ چین اوربرطانیہ سمیت تمام ممالک میں کورونا کی روک تھام اور شہریوں کے بچائو کیلئے سخت لاک ڈائون کیاگیا اور کسی کو رعایت نہیں دی گئی ‘ حکومتی ایس او پیز پر مکمل عمل درآمد کرایاگیا ‘تاہم ان ممالک کے کسی فرد میں خدانخواستہ کورونا کی علامات ظاہر ہوں تو اس کا فوراً ٹیسٹ کرایاجاتا ہے اور اگر کسی کی رپورٹ پازیٹیو آ جائے تو قرنطینہ کر کے علاج شروع کردیا جاتا ہے اور اسے قرنطینہ میں تمام ضروری سہولیات مہیا کر کے تسلی دی جاتی ہے کہ اگر وہ احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہوگا تو بہت جلد صحت یاب ہوکر اپنے گھر واپس چلا جائے گا‘ اسے ایک مریض کی طرح ٹریٹ کیاجاتا ہے‘ علاج کے ساتھ اس کے آرام وسکون کا بھی خیال رکھا جاتاہے ‘تاکہ وہ نفسیاتی مسائل کاشکار نہ ہو ‘لیکن اس کے برعکس پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے شہریوں کے ساتھ مریضوں کی بجائے مجرموں جیسے ناروا سلوک کی عام شکایات سامنے آرہی ہیں‘ خود حکومتی وزراء کئی بار اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ کوروناوائرس کے متاثرہ مریضوں کے ساتھ مجرموں جیسے سلوک کی شکایات آرہی ہیں ‘جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ شکایات معمولی نہیں ‘لیکن آج تک یہ خبر کہیں سے بھی سننے کو نہیں ملی کہ کوروناوائرس سے متاثرہ مریضوں کی دیکھ بھال میں کوتاہی یا ناروا سلوک پر کوئی ایکشن لیا گیا ہو۔ 
نیشنل ہیلتھ ٹاسک فورس کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے متاثرین کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھنے کے واقعات کی رپورٹ کے حوالے سے نہایت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ طرزِ عمل ناقابل برداشت ہے اور خوف کا موجب بنتا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ عوام اگر کوروناوائرس کی علامات محسوس کریں تو فوری اور بلا خوف ٹیسٹ کے لیے رجوع کریں۔اس ضمن میں انہوں نے عوام میں غیر ضروری ہچکچاہٹ اور خوف کے تاثر کو زائل کرنے کے حوالے سے ایک جامع اور بھرپور عوامی آگاہی مہم شروع کرنے کے اقدامات کی اہمیت پر زور دیا اور اس حوالے سے جلد ایک مربوط حکمت ِعملی مرتب کرنے کی ہدایت کی۔ ایک طرف قوم کورونا وائرس کی وباکیخلاف نبرد آزما ڈاکٹروں‘ نرسوں‘ پیرامیڈیکل سٹاف‘ انتظامیہ‘سکیورٹی فورسز‘ پولیس‘ محکمہ صحت‘ ریسکیو اداروں اور عملہ صفائی کو ہیروز کا درجہ دے رہی ہے اور سلام پیش کر رہی ہے ‘جو ایک مثبت تبدیلی ہے ۔ قرنطینہ مراکز میں خدمات انجام دینے والے یقینا قومی ہیروز ہیں‘ جو اپنی جان خطرے میں ڈال کر انسانیت کو بچانے کیلئے کوشاں ہیں تو دوسری جانب ایسے اہلکار ہیں ‘جو مریضوں کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کرتے ہیں اورجن کی شکایات اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ باقاعدہ رپورٹ وزیراعظم تک پہنچ گئی ہے‘ اگر ان کی تعداد گنتی میں بہت کم بھی ہے ‘تب بھی یہ صورت ِ حال سنگین ہی نہیں ‘بلکہ انتہائی شرمناک بھی ہے۔ 
سوچنے کی بات ہے کہ جس سنگین مسئلے پر وزیراعظم کے معاون خصوصی صحت سمیت مختلف وزراء کئی بار چیخ چیخ کر پریشانی کااظہار کرچکے ہیں اور جس کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی گئی‘ اس پر کسی مقامی‘ ضلعی یا صوبائی افسر نے نوٹس کیوں نہیں لیا؟ صوبائی حکام روزانہ سیاست چمکانے کے لئے کورونا پر پریس کانفرنسیں تو دھڑا دھڑ کر رہے ہیں ‘ کمشنراورڈپٹی کمشنر روزانہ کی بنیاد پر ان قرنطینہ مراکز کے دورے کر کے فوٹوسیشن تو کرارہے ہیں‘ انتظامیہ کورونا سے بچائو کے نام پر دکانداروں کے پیچھے تو پڑی رہتی ہے اورپولیس بھی موٹرسائیکل ڈبل سواری والوں کو پکڑنے کیلئے تو اس طرح سرگرم رہی جیسے دہشت گرد ہوں ‘لیکن یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ وزیراعظم عمران خان تک رپورٹ پہنچنے سے پہلے صوبائی حکام کے نوٹس میں بھی تو آئی ہوگی تو آج تک اسلام آباد‘پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان اورخیبرپختونخوا کے حکام نے ایسی کسی شکایت پر لئے گئے ایکشن کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ تاکہ کسی دوسرے کو مریضوں کے ساتھ ناروا سلوک کی ہمت نہ ہوتی۔ آج تک کسی کمشنر کی جانب سے ضلعی حکام کو ایسی شکایات کے ازالے کیلئے کوئی ہدایات جاری کیوں نہیں کی گئیں‘ پاکستان بھر سے کسی بھی ڈپٹی کمشنر نے آج تک کسی ایسے ڈاکٹر یا اہلکار کے خلاف تادیبی کارروائی کیوں نہ کی اور موٹرسائیکل ڈبل سواری پر مقدمات درج کرنے والی پولیس نے کسی ایسے ناسور کیخلاف ایف آئی آر درج کرکے گرفتار کیوں نہیں کیا؟مختلف شہروں میں قائم قرنطینہ مراکز میں زیرعلاج مریضوں نے بھی انہیں جیل سے تشبیہ دیتے ہوئے وہاں فراہم کی جانے والی سہولیات پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔
حکومت نے نعرہ تو یہ لگایا کہ ''کورونا سے ڈرنا نہیں‘ لڑناہے‘‘ لیکن عوام میں آگاہی مہم اس قدر خوفناک اور سطحی طریقے سے چلائی گئی‘ جس سے عام شہریوں کو تاثر دیاگیاکہ اگر خدانخواستہ کسی شخص میں کورونا وائرس کی علامات پائی گئیں اوراس کا ٹیسٹ پازیٹیو آ گیا تو سرکاری اہلکار اسے پکڑ کر(گرفتارکر کے) ساتھ لے جائیں گے‘ پھر گھر والوں کو ہرگز ملنے نہیں دیا جائے گا اور اگر خدانخواستہ کورونا مریض کا انتقال ہوگیا تو اہل ِخانہ کو اس کا آخری دیدار بھی نہیں کرنے دیاجائے گا‘ اس کی میت کو سرکاری عملہ ہی لپیٹ کر باندھ دے گا اور کسی دوردراز قبرستان میں تدفین بھی عملہ ہی کرے گا اور خاندان کے لوگوں کو جنازے میں بھی شرکت کی اجازت نہیں ہوگی۔ حکومتی سطح پر جب ایسی مہم چلائی جائے گی تو پھر لوگوں میں خوف وہراس تو پیدا ہوگا‘ پھر لوگ ٹیسٹ یا علاج کرانے سے گھبرائیں گے اورشاید اسی وجہ سے لوگ ہسپتالوں اور قرنطینہ مراکز سے فرار بھی ہورہے ہیں۔ 
وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ کورونا مریضوں سے ناروا سلوک کی رپورٹ پر صرف افسوس کااظہار کرنے یا عوام کو طفل تسلیاں دینے کی بجائے سخت ایکشن لیں‘ کیونکہ وائرس سے متاثرہ افراد کوئی مجرم نہیں ‘بلکہ مریض ہیں اورانہیں علاج اور ہمدردی کی ضرورت ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں