دنیا چاند پر انسانی زندگی بسانے سمیت جدید سائنسی تحقیقات میں مصروف ہے ‘لیکن ہم ابھی تک پاکستان میں چاند نظر آنے یا نہ آنے کے چکر سے ہی باہر نہیں نکل پائے‘ بلکہ ہم نے رویت ِ ہلال کے مسئلے کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھادیاہے۔چاہیے تو یہ تھاکہ ہم مقامی اورمرکزی رویت ِہلال کمیٹیوں میں علماء کرام کے ساتھ موسمیات سمیت مختلف متعلقہ محکموں کے ماہرین کو بھی شامل کرتے‘ تاکہ چاند دیکھنے کے عمل کو مزید آسان بنایاجاسکتا اور ملک بھر کے علماء کو اس کے فیصلوں پر عمل درآمد کاپابند بنا کر ملک میں ایک ہی روز عید اوردیگر تہوار منانے کی روایت میں بہتری لائی جاتی ‘لیکن یہاں تو اس ایشو پر بھی قوم کو دوحصوں میں تقسیم کردیاگیا۔ بدقسمتی سے یہاں ہرکوئی اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی بجائے دوسرے کاموں میں ٹانگ اڑانے کوکامیابی تصور کرتاہے۔
ہمارا روایتی دشمن مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کرتے ہوئے مسلمانوں کی نسل کشی پر لگاہوا ہے‘ جبکہ آئے روز لائن آف کنٹرول پر سرحدی خلاف ورزیاں کرکے معصوم شہریوں کونشانہ بنارہاہے‘ لیکن ہمارے سیاستدان صرف سوشل میڈیا پر بیانات اور بھارتی سفارت کاروں کو احتجاجی مراسلے تھمانے کو ہی اپنی بڑی کامیابی سمجھ رہے ہیں؛ حالانکہ ہمارے دوست ہمسایہ ملک چین نے لداخ کے مشکل ترین علاقے میں بھارتی فوجیوں کو ناکوں چنے چبوائے اوردنیا بھر میں اس طرح ذلیل ورسوا کیا کہ مودی سرکار کومنہ چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی ‘لیکن ہم اپنے دوست ملک سے سبق سیکھنے اور دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کی بجائے اندرونی سیاست میں ہی الجھے ہوئے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کی سکیورٹی فورسز کا تعلق ہے تواس میں کسی کو کوئی شک وشبہ نہیں کہ ہماری بہادر افواج ‘نا صرف ہروقت وطن ِعزیز پاکستان پر اپنی جان نثار کرنے کیلئے تیار بیٹھی ہیں ‘بلکہ افواج ِ پاکستان کی جنگی مہارت اوردلیری کااعتراف دشمن بھی کرتاہے‘ لیکن دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی طاقت کے سیاستدان ابھی تک صرف اسی بات پر سیاست چمکا رہے ہیں کہ 28مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ کس کو ملنا چاہیے اور کس کو نہیں ملنا چاہیے؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خطے کی موجودہ صورت ِ حال‘ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر بدترین مظالم اور دشمن کی سرحدی خلاف ورزیوں کومنہ توڑ جواب ''یومِ تکبیر‘‘ کے موقع پر حکومت اوراپوزیشن ایک مشترکہ تقریب میں محسن ِپاکستان ڈاکٹرعبدالقدیرخاں سمیت مایہ ناز سائنسدانوں اور بہادر افواج کو خراجِ تحسین پیش کر کے دیاجاتا‘ لیکن ہم نے اس موقع پر بھی دشمن کو کوئی پیغام دینے کی بجائے آپس میں بیان بازی کی سیاست جاری رکھی ۔دنیاکورونا وائرس کی عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے موثر حکمت ِعملی اپنانے اوراپنے عوام کوبچانے میں لگی ہوئی ہے‘ لیکن ہم ابھی تک لاک ڈائون پر بھی سیاست سے باہر نہیں نکل سکے‘ وفاقی حکومت کئی معاملات صوبوں پر ڈالنے اور کئی صوبے مرکز سے پورا حصہ نہ ملنے کی شکایات اوربیان بازی میں مصروف ہیں‘اور اس وبا سے بچنے کے لیے عوام میں موثر آگہی مہم تاحال نظر نہیں آتی‘ کہیں حکومت کورونا سے متاثرین کو پکڑ کر قرنطینہ میں بند کرنے‘ اہل ِخانہ کوملاقات کی اجازت نہ دینے اور خدانخواستہ موت کی صورت میں جنازہ بھی سرکاری طریقے سے اداکرنے کی دھمکیاں دیتی ہے تو کہیں یہ کہہ دیاجاتا ہے کہ حکومت تو صرف عوام سے اپیل ہی کرسکتی ہے۔ اب‘ لوگوں کے سر میں ڈنڈا مار کر زبردستی ایس اوپیز پر عمل نہیں کراسکتے۔ حکمرانوں کایہ دُہرا رویہ بھی ناقابل فہم ہے اورہماری عوام بھی کسی سے کم نہیں‘ روزانہ درجنوں اموات ہونے کے باوجود ہم ابھی تک اس بات کی تصدیق بھی نہیں کرسکے کہ ملک میں کورونا وائرس ہے یانہیں؟ اور اگر ہے تو اس کااثر کتنا اورکیاہوسکتاہے ؟کوئی کہتا ہے کہ حکومت پیسے بٹورنے کے لیے بلڈ کینسر سے مرنے والوں کو بھی کورونا کامریض ظاہر کررہی ہے تو کوئی کیاکہہ رہاہے کہ دراصل اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عوام میں کورونا وائرس کی علامات‘ نقصانات اور اس سے بچائو کا شعور بیدار کرنے کیلئے موثر آگہی مہم نہیں چلائی گئی۔
31مئی انسدادِتمباکو نوشی کا عالمی دن تھا‘ جس پر روایتی انداز سے سرکاری پیغامات جاری کئے گئے‘ لیکن ہم نے آج تک اپنی نوجوان نسل کو بچانے کیلئے ٹھوس عملی اقدامات نہیں کئے۔ مجھے راولپنڈی میں امراض قلب کے حوالے سے ایک سیمینار یاد ہے‘ جس میں بطورِ مہمان خصوصی شریک ایک انتہائی سرکاری افسر نے کوئی ضروری بات کرنے کے بہانے مجھے سٹیج کے ایک طرف بلایا اورکہنے لگا کہ ''تقریب میں سگریٹ نوشی نہیں کرسکتاتھا اورسگریٹ کے بغیر پورا گھنٹہ گزارنا مشکل ہے‘ اس لئے دو چار منٹ یہاں بات کرنے کے بہانے سگریٹ پینا ہے‘‘۔جب ہمارے حکام کایہ حال ہوگا توپھر ان کی باتوں کااثر بھی ایسا ہی ہوگا۔ گزشتہ روز ڈپٹی کمشنر راولپنڈی نے شہریوں کو تمباکو نوشی جیسی موذی وبا اور تمباکو اور نکوٹین کے استعمال سے بچانے اور '' تمباکو سے پاک شہر‘‘ بنانے کے لیے اور اس حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے ضلعی انتظامیہ اور تمام متعلقہ اداروں کو ہدایات جاری کی گئیں اور اس عزم کااظہار کیاگیاکہ تمباکو اور اس سے اخذ کردہ اشیاء کے اشتہارات‘ تشہیر‘ فروغ اور سپانسرشپ پر پابندی کے عمل کو یقینی بنایا جائے‘ تاکہ تمباکو نوشی اور اس کے دھویں سے پاک صحت مند معاشرے کا قیام عمل میں لایا جاسکے۔ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ تمباکو اور اس سے اخذ کردہ تمام اشیاء کے فروخت کی جگہ ‘ریٹیلرز اور دوکان کے اندر اور باہریا کسی بھی جگہ پر پوسٹر‘ پینٹنگ اور پیپر‘پلاسٹک یا کپڑے کے بنے بینر لگانے‘ سکرین ڈسپلے‘الیکٹرک ڈسپلے اور ہر طرح کے مواد کے ذریعے سے تشہیر پر پابندی ہے۔ اس کے علاوہ فکسڈاور موبائل بل بورڈ‘سوفٹ یاہارڈ بورڈکے لگانے پر بھی پابندی ہے‘ جبکہ کپڑے‘گارمنٹس پر برانڈنگ کے ذریعے تشہیر پر بھی پابندی ہے۔
اس موقع پر یہ پیغام جاری کرنا اورعزم کااظہار تو بڑی اچھی بات ہے‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان ہدایات پر عمل درآمد کون کرے گا؟ اورکون کرائے گا؟ راولپنڈی شہر میں سکستھ روڈ جو تعلیمی اداروں کاگڑھ سمجھاجاتاہے اور عام دنوں میں صبح سویرے سے رات گئے تک طلبا و شہریوں کی کثیرتعداد کاگزر جاری رہتاہے‘ اس اہم ترین شاہراہ پر مری روڈ کے قریب سموک سٹاپ ‘ یعنی سگریٹ فروشی کی شاپ کھولی گئی ہے اوربورڈز آویزاں کرنے کے ساتھ عام دنوں میں ہروقت اس دکان سے طالبعلم اور شہری سگریٹ خریدتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ میڈیا اورسول سوسائٹی کی جانب سے کئی بار توجہ مبذول کرانے کے باوجود آج تک اس سموک سٹاپ شاپ کووہاں سے ختم نہیں کیاگیا اور نہ ہی نوجوان نسل کو سگریٹ فروخت کرنے پر اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔ اب‘ امید ہے کہ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی‘ اس مسئلے پر بھی توجہ دیں گے اور شہر کے اس اہم ترین مرکز سے اس دھندے کو ختم کروانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
ہمیں مجموعی طور پر بحیثیت ِ قوم اپنی اپنی ذمہ داریوں پرتوجہ دیناہوگی اوردوسروں کے کام میں بلاوجہ ٹانگ اڑانے کی بجائے اپنی ذمہ داری کوپورا کرنا ہوگا ۔ ہرقومی مسئلے پر سیاست چمکانے کی بجائے قوم میں شعور بیدار کرناہوگا ‘تاکہ حقیقی ترقی کی شاہراہ پرگامزن ہوسکیں‘ ورنہ دنیا چاند سے بھی آگے نکل جائے گی اورہم چاند دیکھنے کی لڑائی میں اپنا ہی نقصان کرتے رہیں گے۔