قابل توجہ صورتحال!

رواں ہفتے راولپنڈی مری روڈ پرواقع ایک سرکاری دفتر جانے کااتفاق ہوا تو وہاں کی صورتحال دیکھ کر شدید پریشانی لاحق ہوئی۔ پبلک ڈیلنگ کا ایک ادارہ جہاں روزانہ سینکڑوں مرد وخواتین اہم دستاویزات کے حصول ودیگر ضروری امور کیلئے آتے ہیں‘ جہاں سٹاف ممبران سمیت ہر آنے والے شخص نے بائیومیٹرک تصدیق کیلئے انگوٹھا لگانا ہوتا ہے‘ جہاں صبح سے رات تک عوام کا رش لگا رہنا ہے‘ وہاں عملہ جتنی مرضی کوشش کر لے‘ ایس اوپیز پر سوفیصد عمل درآمد ممکن ہی نہیں۔تاہم موجودہ حالات میں پبلک ڈیلنگ کرنے والے دفاتر کی صورتحال تشویشناک دکھائی دیتی ہے اور خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے۔کورونا وائرس پھیلنے اوراس میں شدت آنے کے بعد سرکاری دفاتر کے اوقات کار صبح دس بجے سے شام چار بجے تک کر دئیے گئے‘ حالانکہ نوے فی صد سرکاری دفاتر میں کوئی خاص پبلک ڈیلنگ نہیں ہوتی اور نہ ہی عام شہریوں کی اتنی آمدورفت ہوتی ہے جس سے ایس اوپیز پر عمل درآمد میں مشکل ہو‘ لیکن اس کے باوجود ایسے تمام دفاتر میں بھی صبح دس سے شام چار بجے والا ٹائم ٹیبل ہی لاگو ہے‘ لیکن بعض ایسے دفاتر جہاں روزانہ سینکڑوں لوگ آتے ہیں اورہر وقت عوام کا ہجوم رہتا ہے ان دفاتر کی ٹائمنگ صبح آٹھ بجے سے رات آٹھ بجے تک رکھی گئی ہے‘ جو سمجھ سے بالاتر ہے ۔
ایسے دفاتر میں ڈیوٹی پر موجود عملے سے معلومات کے حصول کیلئے گفتگو ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ تمام دفاتر جہاں پبلک ڈیلنگ ہوتی ہی نہیں اور ایس اوپیز پر سوفیصد عمل کرنا انتہائی آسان ہے‘ وہاں تو اعلیٰ حکام نے اپنی سہولت اورحفاظت کیلئے اوقات کار صبح دس بجے سے شام چار بجے تک ہی رکھے ہوئے ہیں لیکن وہ مراکز جہاں روزانہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگوں کا آناجانا لگارہتاہے‘ جہاں سرکاری عملے کو بھی کمپیوٹرز پر لاگ اِن کرنے کیلئے بائیو میٹرک پراسس مکمل کرنا پڑتاہے‘ جہاں دستاویزات کے حصول کیلئے آنے والے ہرشہری نے فنگر پرنٹس کے مراحل سے لازمی گزرنا ہوتاہے‘ جہاں ایک ایک کرسی پر کراس لگاکر سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی کوشش تو کی جاتی ہے لیکن جب مردوخواتین کا رش بڑھتاہے تو پھر سکیورٹی اوردیگر سٹاف کو سوشل ڈسٹنسنگ کیلئے بار بار شہریوں سے الجھنا پڑتاہے‘ جہاں باہر سے آنے والوں کی قطار تو بنائی جاتی ہے لیکن ظاہر ہے ان قطاروں میں کھڑا تو ہمارے پاکستانی بہن بھائیوں نے ہی ہونا ہوتاہے اور ہماری قوم کے اکثر افراد نظم وضبط کو بھی کمزوری بلکہ اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔ سرکاری دستاویزات بنوانے کیلئے آنے والے ہرشہری کومختلف مراحل سے گزرنا پڑتاہے‘ اس طرح جب کسی شہری کا شناختی کارڈ یا دیگر دستاویزات بن جاتی ہیں تو پھر انہیں ڈیلیوری کائونٹر سے اپنی دستاویزات وصول کرنا ہوتی ہیں اورروزانہ ان دستاویزات کی وصولی کیلئے بھی سینکڑوں شہری سرکاری دفاتر میں آتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف دستاویزات بنوانے اور پھر وصولی کیلئے آنے والے شہریوں کیلئے انتہائی خطرناک ہے بلکہ ان مراکز میں فرائض سرانجام دینے والے سٹاف کی زندگیاں بھی کورونا وائرس کے باعث شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ ایک سرکاری دفتر‘ جہاں لوگ اپنے کاموں کی غرض سے روز آتے ہیں‘ کے ایک افسر نے بتایاکہ چند بائیومیٹرک مشینوں پرہی روزانہ ہزاروں افراد نے فنگر پرنٹس لگانے ہوتے ہیں اور ان مشینوں کو سینی ٹائزر سے جتنا بھی صاف کیاجائے کہیں نہ کہیں خطرہ برقرار رہتاہے‘ لہٰذا سب سے پہلے تو حکام کو چاہیے کہ سرکاری دفاتر کے اوقات کار بھی صبح دس بجے سے شام چار بجے تک کئے جائیں تاکہ سٹاف کو چھوٹی شفٹوں میں کام کرناپڑے اور وائرس پھیلنے کاخطرہ کسی حد تک کم ہوسکے۔ سٹاف کو سینی ٹائزر‘ فیس ماسک اوردستانے زیادہ مقدار وتعداد میں مہیا کئے جائیں تاکہ حتی الوسع احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکیں اورشہریوں کی زندگی کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایاجاسکے۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ وہ تمام دفاتر جہاں پبلک ڈیلنگ ہوتی ہی نہیں اور کسی قسم کاخطرہ موجود نہیں‘ وہاں تو ہفتے میں صرف پانچ دن کام ہوتا ہے اورہفتہ اوراتوارکو تعطیل ہوتی ہے لیکن وہ دفاتر جہاں پبلک ڈیلنگ ہے ان مراکز اور دفاتر کی ٹائمنگ بھی بارہ گھنٹے ہے اور چھٹی بھی کوئی نہیں‘ یعنی ہفتے اوراتوار کو بھی یہ دفاتر کھلے رہتے ہیں جس پر ان پالیسی سازوں کی عقل ودانش پر حیرت ہوتی ہے۔ 
حکومت کواس کا فوری نوٹس لیناچاہیے اورسب سے پہلے تو ہیڈکوارٹرز سمیت ملک بھر کے تمام ایسے دفاتر جہاں لوگ اہم دستاویزات کے حصول کیلئے جاتے ہیں ‘ کے اوقات کار یکساں کئے جائیں ۔اسی طرح ہفتہ وار تعطیلات میں بھی یکساں پالیسی اختیار کی جائے اور فرنٹ لائن پر ڈیوٹی دینے والے افسران وملازمین کو بھی یہ سہولت فراہم کی جائے۔ کورونا وائرس کے باعث دیگر فرنٹ لائن پر کام کرنے والے سرکاری ملازمین کی طرح پبلک ڈیلنگ والے دفاتر کے عملے کو بھی موجودہ حالات میں خصوصی الائونس دیاجائے اورہر پندرہ دن بعد سرکاری طور پر ان کے کورونا ٹیسٹ کرائے جائیں تاکہ اگر کسی سٹاف ممبر میں کورونا کی علامات پائی جائیں تو اس سے دیگر ملازمین اورعام شہریوں کومحفوظ رکھاجاسکے۔ سرکاری دفاتر میں سب سے اہم بات جودیکھنے میں آتی ہے‘ یہ ہے کہ سٹاف تو احتیاطی تدابیر اختیار کئے ہوئے ہے اورانہیں کافی حد تک سہولیات میسر بھی ہیں جنہیں مزید بہتر بنانا چاہیے لیکن کام کی غرض سے آنے والے عام شہریوں کیلئے سینی ٹائزر سمیت دیگر سہولیات کافقدان پایاجاتاہے اوراگر دستیاب بھی ہوں تو بھی مطلوبہ مقدار سے کم ہیں لہٰذا عام شہریوں کی حفاظت کے لئے خصوصی اقدامات کئے جائیں ورنہ یہ نادرا دفاتر ملک میں کورونا کے تیزی سے پھیلائو کا بڑا خطرناک ذریعہ بن سکتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں