راولپنڈی کے عوام اور سابق حکمران

سنتے تھے کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس کارکن نہیں بلکہ سب لیڈر ہیں، پہلے یہ بات کانوں کوچھو کرگزر جاتی تھی‘ پھر جس دن میاں نواز شریف نے جلاوطنی کے بعد پہلی بار وطن واپس آنا تھا تو اس دن ساری دنیا نے دیکھا کہ راولپنڈی میں پارٹی کی ساری مقامی قیادت اور سرگرم کارکن گرفتار ہو گئے اور سڑکوں پر صرف ایک ہی ورکر زاہد حسین قریشی (مرحوم) نظر آرہا تھا، اس صورتحال سے حکومت نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور میاں صاحب کو راولپنڈی میں اترنے نہیں دیاگیا۔ کسی سیانے نے میاں شہباز شریف کو یہ بات بتا دی تھی کہ آپ کے دورِ اقتدار میں خوب مزے لوٹنے والے رہنما اور بظاہر بڑے ہی پُرجوش کارکن ضرورت پڑنے پر فرمائشی گرفتاریاں دے کر اپنی جان بچا جاتے ہیں۔ اس وقت ایسی خبریں بھی عام تھیں کہ کئی سیاسی رہنما اورکارکنان مخصوص ذرائع استعمال کرکے اڑتالیس گھنٹوں کے لئے اپنے آپ کو پولیس کا مہمان بنا لیتے، اس طرح انہیں دُہرا فائدہ ہوتا، ایک تو وہ کسی احتجاجی مظاہرے میں لاٹھی چارج اورگرمی و دھوپ سے بچ جاتے اور دوسرا اخبارات میں حوالات کے پیچھے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے تصویر بھی شائع ہو جاتی‘ جسے وہ بعد میں قیادت کے سامنے سیاسی قربانی کے طور پر پیش کرکے پُرکشش عہدوں اوراسمبلی ٹکٹ کے امیدوار بنتے تھے۔ شاید یہی بات شہباز شریف کے ذہن میں موجود تھی کہ جس دن جسٹس افتخار چوہدری والا لانگ مارچ لاہور سے چلا تو انہوں نے پارٹی کارکنان کو انتہائی سختی سے ہدایت کی کہ تمام رہنما اورکارکنان صبح گیارہ بجے ہرصورت راولپنڈی کچہری چوک پہنچیں، جو نہیں پہنچے گا یاگرفتار ہوگیا تو پھر یہ اس کی قربانی تصور نہیں ہوگی بلکہ پارٹی اس کی قربانی دے دی گی۔ پھر یہ ہوا کہ راولپنڈی کی تاریخ میں پہلی بار اس دن کوئی بھی قابلِ ذکر لیگی رہنما گرفتار نہیں ہوا اور ہرکوئی سرگرم تھا، جس کے بعد لیگی قیادت کو یقین ہوگیا کہ ان کی مقامی قیادت ساری زندگی انہیں گرفتاریوں کے فوٹو سیشن سے دھوکا دیتی رہی اور اس کے بدلے پُرکشش مراعات اورعہدے انجوائے کرتی رہی جبکہ حقیقی کارکنان کے حصے میں صرف نعرے ہی آئے۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی کی سیاسی تاریخ پر نظردوڑائیں تو اس جماعت کے پاس نظریاتی کارکنوں (جیالوں) کی کمی نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بدلتے حالات نے جیالوں کو سخت مایوس کیا اور ان میں سے اکثر یت نے سیاست سے کنارہ کشی کرلی یا پھر حالات کی نزاکت بھانپتے ہوئے پارٹی کے اکثر رہنمائوں کی طرح وفاداریاں تبدیل کرکے حکمران جماعت پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی؛ تاہم پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان جن میں زیادہ تر نوجوانوں ہیں‘مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر مسائل کے باوجود وزیراعظم عمران خان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اورانہیں یہ یقین ہے کہ تمام ملکی مسائل سابق حکومتوں کی کرپشن اور اقربا پروری کی وجہ ہی سے ہیں اوران کے حل کے لیے وقت درکار ہے۔
بات سابق حکمراں جماعت سے شروع ہوئی تھی، راولپنڈی کو مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھا جاتا تھا لیکن جس جماعت میں کارکن کم اور لیڈر زیادہ ہوں تو پھر وہاں ہرکوئی اپنی بات منوانا چاہتا ہے‘ خود ہی آگے آنا اور قیادت کرنا چاہتا ہے۔ خصوصاً انتخابات میں ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ پارٹی ٹکٹ اسے ہی ملے۔ یہی مسائل (ن) لیگ کو بھی درپیش تھے اور 2013ء کے عام انتخابات میں راولپنڈی شہر کی قومی و صوبائی نشستیں کم اور امیدوار بہت زیادہ تھے۔ پارٹی کی مجبوری تھی کہ ایک حلقے سے ایک ہی امیدوارکو ٹکٹ جاری کر سکتی تھی جس پر دیگر امیدوار ناراض ہوگئے اور انہوں نے قیادت کو یہ باور کرانے کے لیے کہ انہیں ٹکٹ نہ دے کرغلطی کی گئی، اپنی ہی پارٹی کے امیدواروں کے خلاف مہم شروع کر دی جس کا فائدہ پی ٹی آئی اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے خوب اٹھایا اور لیگی امیدواروں کو شکست سے دوچارکیا۔ یہ شکست میاں برادران کے لیے بہت تکلیف دہ تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے راولپنڈی کو 80ارب روپے سے زائد ترقیاتی فنڈز دیے۔ پارٹی کے شکست خوردہ امیدواروں کو اہم سیاسی و انتظامی عہدے دیے تاکہ وہ عوام میں ساکھ بحال کرکے 2018ء کے جنرل الیکشن میں کھوئی ہوئی سیٹیں واپس لیں۔ الیکشن ہارنے کے باوجود کسی کو چیئرمین میٹرو بس پروجیکٹ توکسی کو چیئرمین آر ڈی اے لگایا گیا، کسی کو چیئرمین واسا تو کسی کو قرضہ سکیم تو کسی کو مانیٹرنگ ٹیموں میں اہم عہدے دیے گئے۔ پھر بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ آیا تو میئر راولپنڈی سے لے کر یونین کونسل چیئرمینوں اور وائس چیئرمینوں تک‘ زیادہ تر عہدے ایسے ہی رہنمائوں کودیے گئے تاکہ راولپنڈی کے ووٹروں کو راضی کر سکیں۔ 
ترقیاتی فنڈز، پُرکشش عہدے، سرکاری پروٹوکول، اقتدار کے مزے، انتظامیہ اور پولیس میں اثر و رسوخ اور خوشامدیوں کے ہجوم کے باعث یوں محسوس ہوتا تھا کہ شاید ملک بھر کی لیگی قیادت نے وفاقی دارالحکومت کے جڑواں شہر راولپنڈی میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں، ہر روز کہیں ناشتے کی دعوت پر ساری قیادت کے ساتھ کارکنان کو بلایا جا رہا تھا تو کہیں کسی کے اعزاز میں ظہرانہ دیا جا رہا تھا، کہیں استقبالیہ تقریب سجائی جاتی تو کہیں کسی کو عشائیہ دیا جا رہا ہوتا۔ غرض ہر روز صبح و شام محفلیں گرم رہتیں۔ میونسپل کارپوریشن کے اجلاس بھی مارکیوں اورشادی ہالوں میں ہونے لگے تھے تاکہ ساتھ پُرتکلف عشائیے کا بھی اہتمام ہو سکے۔ بظاہر تو سابق حکمران جماعت کی قیادت بڑی متحرک تھی لیکن شاید تمام پارٹی رہنما اور اہم عہدوں پر براجمان لوگ آپس میں ہی ایک دوسرے کی دعوتیں کرتے رہے۔ صبح ایک ناشتہ کراتا تو دوپہر کو دوسرا اسے ظہرانہ دیتا اور شام کو انہی کا تیسرا ساتھی انہیں عشائیے پر بلاتا۔ شاید لیگی قیادت اقتدار کے نشے میں بھول گئی تھی کہ ان دعوتوں میں صرف دوچار سو افراد کو مرغے و بکرے کھلانے سے عوام میں پارٹی کی ساکھ بحال نہیں ہوگی، ان پُرتکلف دعوتوں کا ایک غریب شہری کے گھر میں بھوک سے تڑپنے والے بچوں کا پیٹ نہیں بھر سکتا اورجب تک سرکاری مراعات یا فنڈز کا براہِ راست فائدہ عوام تک نہیں پہنچے گا تب تک ووٹ بھی ایسے ہی ملیں گے کیونکہ عام آدمی کے پاس تو پانچ سال کے بعد صرف ایک دن ایسا ہوتا ہے جس دن اس کا اختیار چلتا ہے اور راولپنڈی کے شہریوں نے اپنا یہ حق استعمال کرتے ہوئے 2018ء کے انتخابات میں (ن) لیگ سے شہر کے ساتھ ساتھ کینٹ کی نشستیں بھی چھین لیں۔ رہی سہی کسر موجودہ حکومت نے بلدیاتی ادارے ختم کرکے پوری کردی اور یوں راولپنڈی سے مسلم لیگ (ن) کاصفایا کر دیا گیا۔ بلدیاتی ادارے ختم ہوئے تو چند دن تک سابق میئر راولپنڈی اور چیئرمین وغیرہ نے احتجاجی تحریک کا اعلان کیا، عدالتوں کے دروازے بھی کھٹکھٹائے لیکن شاید جب انہیں احساس ہوا کہ اب دال گلنا مشکل ہے تو پھر نہ صرف انہوں نے احتجاجی تحریک ذہن سے نکال دی بلکہ منظر سے ایسے غائب ہوئے کہ اہالیانِ راولپنڈی آج تک انہیں تلاش نہیں کر پائے۔ عوام پریشان ہیں کہ پانچ سال تک راولپنڈی شہرکے نام پر اربوں روپے کے فنڈز اور اختیارات استعمال کرنے والے سیاسی رہنما اقتدار ختم ہونے کے بعد اچانک کہاں غائب ہوگئے، اب تو شہر میں راہ چلتے بھی ان سے ملاقات نہیں ہوتی، اس شہر کی ہر تقریب، ہر شادی اور ہر جنازے میں شرکت کرنے والے اور ساتھ جینے مرنے کے وعدے کرنے والے آخرکار کہاں چلے گئے؟
ایک سابق رکن قومی اسمبلی سے ملاقات ہوئی اور ان سے دریافت کیا کہ وہ حال کہاں مقیم ہیں اورشہر میں نظر کیوں نہیں آتے؟ تو انہوں نے بڑی معصومیت سے جواب دیا کہ پارٹی کے دورِ حکومت میں تو ہمیں بہت نقصان اٹھانا پڑا، ہمارا کاروبار تباہ ہوگیا تھا، اپنے بیوی بچوں کیلئے وقت ہی نہیں ملتا تھا، ہم نے تو شکر ادا کیاکہ الیکشن ہارے ہیں کیونکہ اب ہم اپنے کاروبار پر توجہ دے رہے ہیں اور سکون کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مجھے ان کی بات بڑی ہی حیران کن لگی اور سوچنے لگا کہ اگر اقتدار اتنی ہی بری شے ہے تو پھر کروڑوں روپے لگا کر الیکشن کیوں لڑتے ہیں؟ اور اگر اب شکست کے بعد انہیں اتنا ہی ذہنی سکون ملا ہے اور کاروبار بھی بہتر ہوگیا ہے تو یہ لوگ سیاست چھوڑ کیوں نہیں دیتے، کہیں ایسا تو نہیں کہ اقتدار کے دوران مال بنایا اورکاروبار سیٹ کیا اور اب اسی کو انجوائے کر رہے ہیں؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں