ہماری سیاسی اقدار

اچھے لوگ یقینا ہرجگہ اور ہرشعبے میں موجود ہیں، سیاست میں بھی انتہائی ایماندار، محب وطن، فرض شناس، اعلیٰ تعلیم یافتہ، بااخلاق اور بے لوث افراد کی کمی نہیں لیکن اکثریت ایسے سیاستدانوں کی ہے جن کا مقصد اور منزل اقتدار کے ایوان ہیں، جنہیں ہرحال میں اورکسی بھی قیمت پر الیکشن جیت کر حکومتِ وقت میں اپنے لئے کوئی اہم عہدہ چاہئے ہوتا ہے۔ ایسے سیاستدانوں کے نظریات صرف اورصرف اپنی موجودہ جماعت کی مرکزی قیادت کی خوشنودی حاصل کرنے کے گرد ہی گھومتے ہیں جبکہ ان کا منشور الیکشن والے دن پولنگ ختم ہونے تک ہوتا ہے‘ جو اسمبلی رکنیت کاحلف اٹھانے کے بعد کمزور اور پھر وزارت یا کوئی دوسرا حکومتی عہدہ ملنے کے بعد سرے سے ہی ختم ہو جاتا ہے۔ دراصل ایسے سیاستدانوں کاکوئی نظریہ نہیں، کوئی منشور نہیں، کوئی سوچ یا سیاسی رائے نہیں، انہیں صرف اور صرف ایک ایسی سیاسی پارٹی کا ٹکٹ چاہئے ہوتا ہے جوالیکشن میں ان کی کامیابی کی ضمانت بنے۔
کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں،ایک رکن قومی اسمبلی نے گزشتہ جنرل الیکشن میں مسلم لیگ نون سے پنجاب اسمبلی کا ٹکٹ لیا، پارٹی قائد میاں نواز شریف اور شیر کی تصاویر والے ہزاروں بینرز اور پارٹی منشور کے لاکھوں پوسٹرز پرنٹ ہو گئے، کارنر میٹنگز کی تقاریر میں پی ٹی آئی کی قیادت پر دھرنوں کے ذریعے ملکی ترقی روکنے اور معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کے الزامات کے حوالے سے خوب جوش و خروش کامظاہرہ کرتے، انہوں نے ریٹرننگ افسر کے پاس انتخابی نشان 'شیر‘ کا پارٹی سرٹیفکیٹ بھی جمع کرا دیا۔ اس شام خوب جشن بھی منایاگیا لیکن اگلے ہی روز کسی ذریعے سے انہیں پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے لئے اپنا امیدوار نامزد کر دیا، انہوں نے قومی اسمبلی کے لئے فوراً کاغذاتِ نامزدگی داخل کرائے یا شاید پہلے سے ہی جمع تھے کہ انہوں نے ریٹرننگ افسر کے پاس قومی اسمبلی کے لئے 'بلے‘ کے نشان والا سرٹیفکیٹ جمع کرا دیا اورصوبائی اسمبلی کے لئے کاغذاتِ نامزدگی اور 'شیر‘ کے نشان والا سرٹیفکیٹ واپس لے لئے۔ بس وہ دن اور آج کادن ہے کہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف سمیت مسلم لیگ نون کی ساری قیادت انتہائی کرپٹ اور ملک کے لئے نقصان دہ ہے جبکہ ان کے ڈیرے پر پی ٹی آئی کے ترانے بج رہے ہیں اوروہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں نئے پاکستان کے لئے سرگرم ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حلقے کے عوام کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی قیادت بھی یقینا یہ بات جانتی ہو گی کہ یہ بات ضروری نہیں ہے کہ وہ اگلا الیکشن بھی 'بلے‘ کے نشان پر ہی لڑیں، بلکہ وہ حالات و واقعات اور ہوا کا رُخ دیکھ کر پارٹی، قائد اور انتخابی نشان تبدیل بھی کر سکتے ہیں کیونکہ ہوا کا رخ تو کسی بھی وقت تبدیل ہو سکتا ہے اور ان جیسے سیاسی رہنمائوں کا مقصد تو ہوا کے اسی رخ چلنا ہے جو اسمبلی کی طرف جاتا ہو۔ 
میرا ذاتی تجزیہ یہ بھی ہے کہ اگر ہمارے بعض سیاستدانوں کو یہ یقین ہو جائے کہ وہ پارٹی ٹکٹ کے بغیر بھی جیت سکتے ہیں یا پھر وہ اپنی انتخابی مہم میں اپنے سوا تمام لیڈروں کو چور، لٹیرا، نااہل اور سماج دشمن ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں تو بھی ووٹروں کو خوش کرنے کے لئے انہیں کسی نہ کسی ایسی سیاسی جماعت کا ٹکٹ درکار ہوتا ہے جس کی ان کے حلقے میں اکثریت ہو، پھر اسی پارٹی کا سربراہ ان کا قائد ہوتا ہے اور وہی قائد پاکستان کی تقدیر بدلنے کے لئے ناگزیر بھی ہوتا ہے۔ صرف وہی جماعت ملک کی خیرخواہ اور اس کا لیڈر ہی ملک کو تمام بحرانوں سے نکال سکتا ہے اور اس کے مخالفین کا الیکشن جیتنا گویا وطنِ عزیز کے لئے کسی بڑے قومی بحران کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے دوسرے ادوار میں وزارتوں اور اقتدار کے مزے لوٹنے والے متعدد رہنمائوں نے جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالتے ہی وفاداریاں تبدیل کرنے میں بھلائی سمجھی۔ ان کی نظر میں پرویز مشرف کا اقتدار سنبھالنا اورصدرِ مملکت بننا پاکستان کی بقا کے لئے نہایت ضروری ہو گیا تھا اور اس کی وجہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی جانب سے ملک میں روا رکھی گئی کرپشن اور لوٹ مار تھی۔ ان کے خیال میں صرف سابق وزرائے اعظم اور ان کے وہ ساتھی ہی کمزور معیشت کے ذمہ دار تھے جنہوں نے وفاداریاں تبدیل نہیں کی تھیں اور جو لوگ پرویز مشرف کے ساتھ مل چکے تھے، انہیں صرف پاکستان کی ترقی وسلامتی عزیز تھی۔ پھر 2008ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بر سرِاقتدار آئی اور پرویز مشرف کے اقتدارکا خاتمہ ہوا تو ان میں سے اکثریت دوبارہ تائب ہوکر ایک زرداری، سب پہ بھاری کا نعرہ لگانے لگی۔ اس طرح اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے کو ایک غلطی قرار دے کر سارے گناہ بخشوا لئے۔
2013ء کے جنرل الیکشن میں مسلم لیگ نون نے کامیابی حاصل کی اور میاں نواز شریف وزیراعظم بنے تو پرویز مشرف دور کے کئی وزرا واپس آ چکے تھے اور انہوں نے نواز شریف کابینہ میں بھی حلف اٹھا لیا۔ میرے محدود علم کے مطابق صرف چوہدری برادران اور شیخ رشید احمد کے علاوہ تمام لوگوں کے لئے نون لیگ کے دروازے کھول دیے گئے تھے اور اکثریت نے واپس پارٹی جوائن کر لی تھی۔ 
موجودہ حکومت نے کچھ عرصہ قبل اپنی میڈیا ٹیم تبدیل کی تو ایک معاونِ خصوصی کو یہ بات بڑی ناگوار گزری اور انہوں نے بھی سوال اٹھا دیا کہ مجھے کیوں نکالا؟ انہیں یہ بات یاد نہیں رہی تھی کہ انہوں نے جتنا بھی عرصہ وزارت کے مزے لئے‘ وہ محض وزیراعظم عمران خان اور موجودہ حکومت کی جانب سے ان پر خاص مہربانی تھی کیونکہ وہ پارٹی ٹکٹ کے باوجود الیکشن ہار گئی تھیں۔ ایک وقت تھا جب محترمہ سابق صدر زرداری اور پیپلز پارٹی کے گن گاتی تھیں اور باقی سب ان کی نظرمیں چور تھے، پھر وہ پی ٹی آئی میں شامل ہو گئیں اور میاں نواز شریف، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹوزرداری میں انہیں خرابیاں نظر آنے لگ گئیں۔وہ شاید بھول گئی تھیں کہ سیاست بڑی بے رحم ہے اور یہاں حالات و واقعات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ آج کل ان کی خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ اب وہ ضرور سوچتی ہوں گی کہ مجھے اپنی سابق قیادت کے خلاف اتنی سخت زبان استعمال نہیں کرنی چاہئے تھی۔ اب بھی وہ پی ٹی آئی میں ہی ہیں اورعمران خان صاحب کے نئے پاکستان کی زبردست حامی ہیں لیکن ہمارے ایک سنیئر صحافی دوست بڑے یقین سے دعویٰ کرتے ہیں کہ اگلا الیکشن وہ پھر پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر لڑیں گی۔
پارٹی تبدیل کرنا یا حکومت وقت کے ساتھ اتحاد یا الحاق ہرگز غلط نہیں، اصل بات یہ ہوتی ہے کہ پارٹی تبدیل کرنے والے کے مقاصد کیا ہیں اور اس نے کن حالات میں وفاداری تبدیل کی۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے اندر بننے والے فارورڈ بلاک بھی زیادہ تر نظریۂ ضرورت کے تحت ہی وجود میں آتے رہے، اکثر حکومتِ وقت اپنی سادہ اکثریت کو محفوظ بنانے کے لئے مخالف جماعتوں کے ایسے اراکین کو توڑ لیتی ہے جن کی اپنی پارٹی میں آواز دب چکی ہویا وہ اپنے حصے کا مال پانی سمیٹ چکے ہوں اور انہیں مزید کی توقع باقی نہ رہے‘ تو پھر وہ پہلے قیادت سے گلے شکوے کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ جواز بناکر مخالف جماعت کی گود میں جا بیٹھتے ہیں۔ 
ہارس ٹریڈنگ جیسے الفاظ بھی ایسے پارلیمنٹیرینز کے لئے استعمال ہوئے جنہوں نے ذاتی مفادات یا مراعات کے لئے مشکل وقت میں پارٹی چھوڑ کر مخالف کیمپ جوائن کیا یا پردے کے پیچھے سے مخالفین کا ہاتھ مضبوط کیا۔ بلاشبہ ہمارا ملک پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہوا اور ہم دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی طاقت بھی بن چکے ہیں لیکن ابھی تک سیاسی و جمہوری لحاظ سے بہت کمزور ہیں، جب تک سیاسی اقدار کو مضبوط نہیں بنائیں گے اس وقت ملک حقیقی ترقی کی شاہراہ پر تیز رفتاری سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں