پنجاب میں کورونا وائرس بعد میں داخل ہوا لیکن گنجان آباد شہروں کی وجہ سے یہ کافی متاثر ہوا، خصوصاً صوبے کے دو بڑے شہروں‘ لاہور اور راولپنڈی میں تو عالمی وبا نے بڑی تباہی مچانے کے ساتھ عوام الناس میں شدید خوف و ہراس بھی پھیلایا۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا جب انسان کو انسان سے خوف آنے لگا، لوگ گھروں میں محصور ہو گئے، کاروبار بند، پہیہ جام، شٹر ڈائون، تعلیمی اداروں میں چھٹیاں، دفاتر میں حاضری سے استثنا اور اجلاس بھی آن لائن ہونے لگے، گویا کاروبارِ زندگی بالکل معطل ہو کر رہ گیا تھا لیکن پھر قوم نے ہمت، حوصلے اور احتیاط کے ساتھ اس وبا کا مقابلہ کیا اور اس پر قابو پا لیا۔ یوں تو آج بھی اس حوالے سے ہر شخص اپنی سوچ اور مرضی کے مطابق تبصرے کر رہا ہے، مختلف آراء قائم کی جا رہی ہیں، کوئی کہتا ہے کہ کورونا وائرس تھا ہی نہیں، تو کوئی کہتا ہے کہ یہ وبا آج بھی اتنی ہی خطرناک ہے جتنی چند ماہ قبل تھی اورصرف حکومت کی جانب سے کورونا ٹیسٹ روک دینے کے باعث پازیٹیو کیس سامنے نہیں آ رہے۔ کسی کا خیال ہے کہ حکومت اعداد و شمار چھپا رہی ہے اور عوام کو جھوٹی تسلیاں دی جا رہی ہیں حالانکہ یہی لوگ پہلے کہتے تھے کہ حکومت سرکاری ہسپتال جانے والے ہرمریض کو کورونا کی فہرست میں ڈال کر متاثرین کی زیادہ تعداد ظاہرکر رہی ہے تاکہ عالمی اداروں سے زیادہ امداد حاصل کی جا سکے۔ جو لوگ پہلے کہتے تھے کہ حکومت زیادہ تعداد بتا رہی ہے، اب وہی کہتے ہیں کہ حکومت اصل تعداد چھپا رہی ہے، یعنی نہ اس وقت خوش تھے اور نہ اب راضی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس پر تقریباً قابو پا لیا گیا ہے جس کا کریڈٹ انتظامیہ، محکمہ صحت، امدادی اداروں، ضلعی محکمہ جات، طبی عملے، سماجی و فلاحی تنظیموں، تاجر برادری اور ان سینٹری ورکروں کو جاتا ہے جنہوں نے قرنطینہ مراکز سمیت ہر جگہ کورونا متاثرین کی بے لوث و بے خوف دیکھ بھال و مدد کی۔ یوں تو ہرکوئی اپنا اپنا کردار ادا کر رہا تھا لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے اپنے آرام و سکون کی پروا نہیں کرتے، وہ اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر کئی لوگوں کی قیمتی جانیں بچا لیتے ہیں، یقینا ایسے لوگ فرشتہ صفت کہلاتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہمارا فرض ہے کیونکہ ان حالات میں جب فیملی ممبرز بھی ایک دوسرے کے قریب جانے سے خوف کھاتے تھے‘ تب ڈاکٹروں، نرسوں، طبی عملے اور دیگر متعلقہ افراد نے دن رات کام کرکے اس جان لیوا وبا کوشکست دینے تک آرام نہیں کیا۔ ڈاکٹروں سمیت قرنطینہ مراکز میں خدامات سر انجام دینے والے قوم کے کئی بہادر بیٹے اور بیٹیاں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، انہوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے کئی قیمتی زندگیوں کو بچایا۔ گزشتہ ماہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 42ڈاکٹرز، 2نرسیں، 1میڈیکل سٹوڈنٹ اور 13پیرامیڈیکس اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران کورونا کا شکار ہو کر چل بسے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ پوری قوم نے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے والے ڈاکٹروں اور دیگر افسران و عملے کوقومی ہیروز کا درجہ دیا اور انہیں قدم قدم پر سلام پیش کیا۔ قوم جانتی ہے کہ انہوں نے ہمارے آرام و سکون کے لئے اپنی نیندیں قربان کیں، ہماری حفاظت کے لئے اپنی جان خطرے میں ڈالی، ہمارے پیاروں کے علاج کے لئے دن رات قرنطینہ مراکز میں سہولتیں فراہم کیں اور ہمیں یقین دلایا کہ وہ ان کی مکمل دیکھ بھال کریں گے، ہم گھر پر رہ کر اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو محفوظ بنائیں۔ کورونا وائرس کے ٹیسٹ سے لے کر مریضوں کی قرنطینہ مراکز میں منتقلی، دیکھ بھال، خوراک، علاج و معالجہ اور صاف ماحول کی فراہمی واقعی ایک بہت بڑا چیلنج تھا جسے ہمارے قومی ہیروز نے انتہائی احسن انداز میں پورا کیا۔
یوں تو ملک بھر کے تمام اداروں اور محکمہ جات کاکردار شامل رہا تبھی ہم قومی سطح پر سرخرو ہوئے، پاک فوج کاکردار سب سے اہم ہے، ہماری سرحدوں کے نگہبانوں نے ہمیشہ کی طرح اس مشکل گھڑی میں بھی لبیک کہا اور کورونا وبا کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا کردار اداکیا، آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے ڈاکٹروں سمیت بہادر افواج کے تمام شعبہ جات کو سول انتظامیہ کی ہر ممکن مدد کا حکم دے رکھا تھا جس کا عملی نمونہ نظر بھی آیا اور فوجی ہسپتالوں میں قرنطینہ مراکز قائم کرنے کے ساتھ مختلف فیلڈ ہسپتالوں میں بھی خدمات پیش کی گئیں۔ میڈیا کا کردار بھی انتہائی مثبت رہا، اخبارات و ٹی وی چینلز نے قوم کی صحیح رہنمائی کرنے کے ساتھ حقائق بھی بتائے اور خبردار بھی کیا کہ اگر احتیاط نہ برتی گئی تو خدانخواستہ بھیانک نتائج کا سامناکرنا پڑ سکتا ہے۔ سندھ، پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر و شمالی علاقہ جات اور اسلام آباد سمیت پاکستان بھر میں حکمران، عوامی نمائندے، انتظامی افسران، ڈاکٹرز اور دیگر متعلقہ محکمہ جات کے اہلکار شاباش کے مستحق ہیں لیکن میں سب سے پہلے اپنے شہر راولپنڈی کی بات کروں گا جہاں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہاں پورے ملک میں سب سے زیادہ متاثرین سامنے آنے لگے اور اموات کی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ ہونے لگا، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آزادکشمیر کے تمام علاقوں کے متاثرین کا بوجھ بھی راولپنڈی ہی اٹھاتا ہے، جڑواں شہر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے نواحی علاقوں کے عام مریض بھی راولپنڈی ہی لائے جاتے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اورشمالی علاقہ جات خصوصاً ہزارہ ڈویژن سے تمام ایمرجنسی و مہلک امراض کے متاثرین اور حادثات کے شکار افراد راولپنڈی کے ہسپتالوں میں ہی آتے ہیں، یوں میرپور، کوٹلی، مظفرآباد، ہری پور، مانسہرہ، حضرو، اٹک، جہلم اور چکوال سمیت مختلف علاقوں میں کوئی بھی وبا پھوٹے یاکوئی سانحہ پیش آئے، اس کا بوجھ راولپنڈی پر ہی آتاہے۔
یومِ آزادی کے موقع سب سے حوصلہ افزا بات حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے ڈاکٹروں و عملے سمیت اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کے لئے تمغہ امتیاز و دیگر اعزازات کا اعلان ہے۔ حکومت پنجاب نے ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی راولپنڈی کے دو افسران کے لئے تمغۂ امتیاز کی سفارش کی ہے، یہ دونوں افسران مارچ کے مہینے سے لے کر آج تک کورونا سے متاثرہ مریضوں کی شناخت، وبا کو کنٹرول کرنے، کورونا سے متاثرہ مریضوں سے رابطہ میں آنے والے افراد کی کھوج اور ضلع میں کورونا کنٹرول سیل کے قیام اور اسے فعال بنانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کی نامزدگی سے بے لوث و بے خوف خدمات انجام دینے والے دیگر افسران و عملے کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی ہے؛ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ صوبائی حکومت کو راولپنڈی کے مزید ایسے افسران کوبھی کوئی اعزاز ضرور دینا چاہئے کیونکہ ان کی فرض شناسی اور پیشہ ورانہ دیانت کے باعث راولپنڈی سمیت ملک بھر میں نہ صرف کورونا وائرس کی شدت ختم ہوئی بلکہ ڈینگی مہم بھی پہلے سے زیادہ کامیابی کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ کورونا وبا کی شدت کے دوران ڈپٹی کمشنر اور انسدادِ ڈینگی اور صفائی ستھرائی میں ویسٹ مینجمنٹ کے اداروں نے جس شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا، وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ایسے فرض شناس افسران کی حوصلہ افزائی ضرور ہونی چاہئے کیونکہ انہی کی بدولت آج ہر طرف اطمینان وسکون ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور وزرائے اعلیٰ کو چاہئے کہ ملک بھرکے دیگر شہروں کے مثالی افسران کی حوصلہ افزائی کے لئے بھی فوری ہدایات جاری کریں۔ایسے فرض شناس افسران کے لیے شاباش تو بنتی ہے۔