لال حویلی سے اقوامِ متحدہ تک…(2)

شیخ رشیداحمد نے اپنی نئی کتاب لکھنے کااعلان کیا تو عام آدمی یہ سوچتاتھاکہ اس کتاب کوکون خریدے گا اورکون پرھے گا‘ کیونکہ اب تو جدیدسائنسی دورمیں کتاب‘ ریڈیو‘ ٹی وی سب کچھ ہی موبائل فون یا لیپ ٹاپ میں سمٹ چکاہے‘ لوگ کتب بھی نیٹ ایڈیشن سے ہی پڑھتے ہیں‘ لیکن جونہی کتاب مکمل ہوئی اوردنیا پبلشرز نے شائع کرکے تقسیم شروع کی تو اس کی طلب توقع سے بہت زیادہ دیکھنے میں آئی اوراتنی شہرت ملی کہ پہلی اشاعت تقریب ِرونمائی سے قبل ہی ختم ہوگئی اورملک بھر سے طلب میں اضافے کے بعد آج کتاب کادوسرا ایڈیشن بھی شائع ہوکر مارکیٹ میں آچکاہے جس سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ کتب بینی کاشوق ابھی زندہ ہے اورلوگ مطالعہ کاذوق بھی رکھتے ہیں۔ 
''لال حویلی سے اقوامِ متحدہ تک‘‘کی مقبولیت کی وجہ وہ سیاسی انکشافات بھی ہیں جو شیخ رشید احمد نے اس کتاب میں کئے ہیں۔ اس ایڈیشن میں شیخ رشید کے خاندان‘ بچپن‘ زمانہ طالب علمی‘ طلبہ یونین سے قومی سیاست تک پچاس سال کے نشیب و فراز اور جہدِ مسلسل پرمبنی 12 باب شامل ہیں۔ کتاب تحریری مواد کے 352 جبکہ مختلف عالمی رہنمائوں کے ساتھ نادر تصاویر کے 26 صفحات پرمشتمل ہے۔ کتاب میں شیخ رشیدنے بتایا ہے کہ انسان کاعزم پختہ ہو اورمسلسل جدوجہد جاری رکھے تو غربت سمیت کوئی دیوار اس کاراستہ نہیں روک سکتی ۔ شیخ صاحب نے کتاب میں لکھاہے کہ کس طرح زمانہ طالب علمی میں غربت کے باوجود انہوں نے طلبہ یونین سے سیاسی سفرکاآغازکیا‘ پھر محلے کی بلدیاتی سیاست میں حصہ لیا ‘چوہدری ظہور الٰہی سے تعلق بنایا‘ ایوب خان کے خلاف تحریک اورمحترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم چلائی‘ بنگلہ دیش نامنظورتحریک میں سرگرم رہے اورذوالفقارعلی بھٹو کے جلسے کو الٹ دیا۔ جنرل ضیا الحق ‘ محمدخان جونیجو‘ محمدنوازشریف‘ جنرل(ر) پرویزمشرف ‘ میر ظفراللہ جمالی‘ چوہدری شجاعت حسین اور شوکت عزیزکی حکومتوں میں بھی اپنی اہمیت منوائی اوراب وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کے اہم وزیر کی حیثیت سے موجودہیں۔اس کتاب کوپڑھ کرانسان کاعزم پختہ ہوتاہے کہ اگر محنت جاری رکھی جائے تو ایک عام گھرانے کا بچہ بھی ملک کی 14اہم وزارتوں کی سربراہی کرکے ریکارڈ قائم کرسکتاہے۔شیخ رشید احمدکتاب میں بتاتے ہیں کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کونااہل کرانے میں مرکزی کردار انہی کاہے۔لکھتے ہیں ''پانامہ کیس میں ساری کی ساری محنت اور کریڈٹ میراتھا کیونکہ میرا جو کیس تھا وہ آرٹیکل 62اور 63 کے تحت تھا ‘ میں نے نواز شریف کی نااہلی کی درخواست کی تھی‘ عمران خان صاحب کا کیس 62 اور 63 کے تحت نہیں تھا۔عمران خان بھی سپریم کورٹ کی ہر تاریخ میں میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے ہوتے تھے ‘ وہ خود بڑے متاثر تھے‘ میں نے خود ان کو یہ کہتے سنا کہ یہ نعیم بخاری شیخ رشید کی طرح مختلف کیسوں کے حوالے کیوں نہیں دیتے‘ نعیم بخاری کو بھی ایسے حوالے دینے چاہئیں۔جب یہ فیصلہ آیا تو سپریم کورٹ میں ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ جب سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا تو ایک دم بعض لوگوں کے چہرے کھل اٹھے اور بعض لوگوں کے مرجھا گئے ۔ جب میں عدالت سے باہر گیا تو میں نے کہا کہ دیکھیں تابوت بھی نکلا ہے اور ثبوت بھی نکلا ہے ۔ جب میں راولپنڈی کی طرف روانہ ہوا تو تین‘ چار گاڑیاں میرے ساتھ تھیں ۔ جس چوک میں جاتے تھے سو ‘ دو سو آدمی کھڑے ہوتے اور استقبال کرتے تھے لیکن عید گاہ روڈ پر لوگوں کی زیادہ تعداد تھی۔ جب میں لال حویلی پہنچا تو مبارک باد دینے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔نواز شریف کے نااہل قرار دئیے جانے کے بعد میرا یہ جملہ کہ تابوت بھی نکلے گا اور ثبوت بھی نکلے گا‘ زبان زد عام تھا‘‘ ۔
شیخ رشیداحمد لکھتے ہیں کہ میں لال حویلی میں بیٹھا تھا کہ نعیم الحق ( مرحوم ) کا مجھے فون آیا اوربتایا کہ پارٹی کی کمان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ تحریک انصاف کے وزیراعظم کے امیدوار ہوں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ گزارش ہے ‘ آپ سوچ لیں‘ پارٹی میں عمران خان بہت خیال رکھتے ہیں‘ ہر بات میں احترام دیتے ہیں لیکن پارٹی اس کو پسند نہیں کرے گی کہ عوامی مسلم لیگ کا رکنِ قومی اسمبلی عمران خان کی پارٹی کا وزیراعظم کا امیدوار ہو۔ نعیم الحق (مرحوم ) نے کہا کہ یہ کپتان کا فیصلہ ہے اور آپ جا کر کاغذات نامزدگی جمع کروائیں ۔اس طرح میں پاکستان کی سیاست میں تحریک انصاف کی طرف سے وزیراعظم کا امیدوار بنا۔ جس پر میرے دل میں عمران خان صاحب کیلئے عزت اور قدر میں اور اضافہ ہوا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ قومی اسمبلی میں ایک ایسی استادی کی گئی کہ ختم نبوت کے مسئلے میں حلف نامہ تبدیل کر دیا گیا۔ جماعت اسلامی کے ممبر نے میری اس کی طرف نشاندہی کی۔ جب میں نے دیکھا تو یہ ختم نبوت کے خلاف ایک بہت بڑی سازش تھی۔ میں نے قومی اسمبلی میں جب اس کی بات اٹھائی تو ایک زلزلہ آ گیا۔ مولانا فضل الرحمن کی پارٹی بھی ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کا ووٹ دے چکی تھی۔ سینیٹ میں شاید انہوں نے اختلاف کیا لیکن قومی اسمبلی میں خصوصی سازش کے تحت ختم نبوت کا حلف نامہ بدلا گیا۔ میں نے قومی اسمبلی میں ایسی دھواں دار تقریر کی‘ میں نے قومی اسمبلی کے فلور پر اعلان کیا کہ جمعہ کے دن سے پہلے پہلے اگر آپ نے یہ 7B اور 7Cبحال نہ کئے اور ختم نبوت حلف نامہ پرانے والا نہ لائے تو میں جمعہ کو سارے ملک میں آپ کیلئے کال دینے کا اعلان کرتا ہوں۔ یہ کال میں نے قومی اسمبلی میں ہی دی اور اس کا اتنا اثر ہوا کیونکہ جب انٹیلی جنس نے ان کو رپورٹ دی کہ شیخ رشید راجہ بازار میں جمعہ کے دن نکلیں گے تو سپیکر ایاز صادق نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے کہا کہ ہم جمعرات کو ہی اس بل میں ترمیم کر دیں گے‘اس طرح2018ء میں ''مجاہد ختم نبوت‘‘ میں نے اپنے الیکشن کا ٹائٹل دیا۔ قومی اسمبلی میں 7Bاور 7C میں ترمیم کر دی گئی‘ ختم نبوت کا پرانا حلف نامہ بحال کر دیا گیا اور قادیانیوں کا پرانا سٹیٹس برقرار رکھا گیا ۔ ختم نبوت کے اس بل پر حمایت میں پورا ایوان ایک طرف ہو گیا ۔ لوگوں نے کہا کہ شیخ رشید آپ نے اپنے گناہ بخشوا لیے ہیں‘ آپ نے ثابت کیا ہے کہ آپ حقیقی عاشقِ رسولؐ ہیں۔ آج کے بل کا سہرا بھی آپ کے سر جاتا ہے۔
ایم ایل ون میری زندگی کااہم مشن ہے‘ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کا اور خاص طور پر عمران خان کا بے حد مشکور ہوں جن کی مجھے پوری سپورٹ حاصل تھی‘ جب بھی وہ چین گئے تو انہوں نے ایم ایل ون کا اپنی تقریروں میں ذکر کیا‘ خواہ وہ چینی صدر شی کے ساتھ ہویا چینی وزیراعظم کے ساتھ ۔ جب میں چین گیا تو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب بھی وہیں پر تھے ۔ میں نے باجوہ صاحب سے کہا کہ آپ ایم ایل ون کا مسٹر شی سے ذکر کریں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب چین کے صدر مسٹر شی سے ملاقات کر کے نکلے تو میں ان کے ساتھ والی ٹیبل پر موجود تھا تو اُن کے ڈسکشن پوائنٹ جو تھے انہوں نے سب سے ٹاپ پر ایم ایل ون لکھا ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے دکھایا کہ دیکھیں شیخ رشید میں نے مسٹر شی کے ساتھ ٹاپ پرائریٹی پر ایم ایل ون لکھا ہے۔ یہ پاکستان کی سیاسی ‘معاشی ‘ اقتصادی اور دفاعی ضرورت ہے اس کے بغیر ہم نہیں چل سکتے اس لئے میں نے زور دیا ۔ مجھے یہ سب سن کر اتنی خوشی ہوئی کہ جب جنرل باجوہ نے یہ مجھے چین میں کہا کہ شیخ رشید اب آپ یہ سمجھیں کہ انشاء اللہ ایم ایل ون مکمل ہونے جا رہا ہے۔
یہ کتاب طلبہ کیلئے سبق آموز‘ ذوقِ مطالعہ رکھنے والوں کیلئے تاریخی دستاویزاورسیاسی کارکنوں کیلئے بہترین نصاب کادرجہ رکھتی ہے جو پاکستانی سیاست کی ایک سچی اور وکھری داستان بھی ہے اور ہمارے معاشرے کی عکاسی بھی کرتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں