پاکستان میں سیاست سے زیادہ معیشت، روزگار، امن و امان، نظم و ضبط، اخلاقی و سماجی مسائل درپیش ہیں جنہوں نے عام آدمی کی زندگی کو اس طرح شکنجے میں جکڑ رکھا ہے کہ اسے کچھ ہوش ہی نہیں۔ ملک میں غربت، بیروزگاری اور مہنگائی تو پہلے ہی زوروں پر تھی، رہی سہی کسر کورونا وائرس نے پوری کر دی ہے۔ اس عالمی وبا کے دوران معیشت نے کچھ ایسی ایسی پلٹیاں کھائی ہیں کہ کئی کروڑ پتی کنگلے ہو گئے لیکن اسی دوران کئی مفاد پرست فرش سے عرش پر بھی پہنچ گئے۔ کچھ اچھے بھلے برسرِ روزگار افراد بیروزگاری کی چکی میں پس گئے اور بعض نے فیس ماسک بیچ کر ہی کروڑوں کما لئے۔ ایک اہم حکومتی وزیر کورونا وائرس کا شکار ہوئے تو انہیں اپنی ذات کے لئے بھی حفاظتی انجکشن کنٹرول ریٹ پر نہ مل سکا اور بالآخر پاک فوج نے ان کے لئے انجکشن کا بندوبست کیا۔ یہ واقعہ تو خود وفاقی وزیرکی اپنی زبانی بیان کیا گیا، اب اسی واقعے کو اگر آپ مختلف زاویوں سے دیکھیں تو سب سے پہلا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب ایک حاکم وقت کو اپنی ذات‘ اپنی جان بچانے کے لئے پورے ملک میں ایک ٹیکا کنٹرول ریٹ پر نہیں مل رہا تو پھر ایک عام غریب آدمی کا کیاحال ہو گا۔ مذکورہ وزیر صاحب تو کئی گنا قیمت ادا کر کے بھی ٹیکا خریدنے کی سکت رکھتے تھے، وہ تو وزارتِ قومی صحت یا صوبائی محکمہ صحت کی وساطت سے بھی انجکشن کا بندوبست کر سکتے تھے، دو اہم قومی اداروں کے سربراہان نے بھی ان کے لئے اپنے اپنے طور ٹیکوں کا بندوبست کر دیا تھا لیکن عام آدمی کی رسائی تو گلی کے کونسلر تک بھی نہیں ہوتی اور اگر خدا نخواستہ وہ بیمار پڑ جائے تو سرکاری ہسپتال میں علاج معالجے کے لئے اسے بستر بھی نہیں ملتا، ایسے میں ایک غریب کے لئے کورونا جیسی مہلک بیماریوں میں حفاظتی ٹیکوں اور ادویات کا بندوبست کون کرے گا؟سوال یہ ہے کہ اگر ایک حکومتی رکن ہر سہولت موجود ہونے کے باوجود بھی اپنا علاج نہیں کرا سکتا تو عوام کے حالات کیا ہوں گے؟ انہیں کیسی کیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہو گا؟
اس وقت ملک میں مہنگائی کی صورتحال یہ ہے کہ حکومت اس بات کا اعتراف تو روزانہ کی بنیاد پر کرتی ہے کہ ملک میں مہنگائی واقعی بہت زیادہ ہے لیکن اقتدار میں آنے کے دو سال بعد بھی اسے سابق حکمرانوں کے کھاتے ہیں ڈالا جا رہا ہے اور اس میں کمی لانے کے لئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیے جا رہے۔ پچھلے چند مہینوں سے ایک ہی بات سننے کو مل رہی ہے کہ مشکل وقت گزر گیا‘ اب حالات بہتر ہوں گے، یہ سال ترقی و خوشحالی کا ہو گا لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ مہنگائی کا گراف اوپر سے اوپر ہی جا رہا ہے۔شوگر مافیا کے خلاف بڑی بھرپور کارروائی کے دعوے ہوئے، تحقیقات بھی ہوتی رہیں، تحقیقاتی رپورٹس بھی سامنے آئیں لیکن بااثر شوگرمافیا آج بھی آزاد ہے۔ شوگر کمیشن کی تحقیقات اور رپورٹوں کے باوجود ملک میں چینی کی قیمت میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی اور چینی کی فی کلوگرام قیمت پچاس روپے سے بڑھ کر سو روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے۔ حکومت تو یوٹیلٹی سٹوروں پر بھی سستی چینی فراہم نہیں کرسکی بلکہ اب تو دو‘ چار روز سے یوٹیلٹی سٹورز سے ایک بار پھر آٹا، چینی اورگھی جیسی بنیادی اشیائے خور و نوش غائب ہو چکی ہیں جو ایک بار پھر کسی نئے بحران کی نوید سنا رہی ہیں۔ غرضیکہ عوام کی حالتِ زار قابلِ ترس ہے لیکن‘ صرف موجودہ حکومت ہی نہیں بلکہ ماضی کی کسی حکومت نے بھی عوام سے ووٹ لینے کے بعد اپنے منشور پر عمل نہیں کیا۔
سیاسی حکومتوں کی کیا بات کی جائے، ہم نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے تو حکمرانوں کو ہمیشہ ایک جیسے بیانات دیتے ہی دیکھا ہے کہ ماضی کے حکمران لوٹ کر کھا گئے، ہمیں خزانہ خالی ملا ہے، سابق حکمرانوں نے کرپشن کے ریکارڈ توڑ دیے، وغیرہ وغیرہ۔ عام انتخابات سے قبل ہر سیاسی جماعت اپنے ووٹروں کو سبز باغ دکھاتی ہے کہ حلف اٹھاتے ہی دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے لیکن جب اقتدار مل جاتا ہے تو پھر وہی سیاسی جماعتیں عوامی مسائل کو پس پشت ڈال کر اپنی ترجیحات بدل لیتی ہیں اور ساری توانائیاں اپنے سیاسی مخالفین کوکچلنے میں ضائع کرنے لگتی ہیں۔ ماضی میں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت اقتدار کی باریاں لگاتی رہی لیکن وہ بھی عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کے بجائے اپنے مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے اور انتقام لینے کے چکروں میں ہی رہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی بار جب وزیراعظم بنیں تو انہوں نے شیخ رشید احمد سمیت کئی سیاستدانوں کو جیلوں میں ڈال دیا، اس وقت پنجاب میں نواز شریف کی حکومت تھی، مرکز اور پنجاب کی مخاصمت کے باعث عوام مسائل کی دلدل میں پھنسے رہے جبکہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات لگاتی رہیں۔ پھر میاں نوازشریف کو جب اقتدار ملا تو انہوں نے اپنے مخالفین سے سیاسی انتقام لینے کے لئے احتساب کمیشن ختم کر کے سیف الرحمن کی سربراہی میں احتساب بیورو بنایا اور آصف علی زرداری سمیت کئی سیاسی حریفوں کو کرپشن کے مقدمات قائم کرنے کے بعد جیلوں میں بند کر دیا۔ ان کے بعد پرویز مشرف کے دور میں بھی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور رہنمائوں پر حکمران جماعت میں شامل ہونے کے لئے دبائو ڈالا جاتا رہا اور جو کوئی اس دبائو میں نہ آتا تو پھر وہ احتساب کے شکنجے میں آ جاتا۔ اسی دوران ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ماضی کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کئے اور جمہوریت کے لئے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی بات ہوئی۔ پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج ڈھلنے کے بعد دوبارہ پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو آصف علی زرداری نے بطور صدرِ پاکستان کسی حد تک مفاہمتی پالیسی اپنائی اور حریف جماعت کی قیادت کو جیلوں میں ڈالنے کے بجائے‘ ان سے اتحاد قائم کیا اور وزارتیں دیں؛ تاہم یہ اتحاد زیادہ عرصہ نہ چل سکا اور مسلم لیگ نون اپوزیشن بنچوں پرجا بیٹھی لیکن اس نے حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے بجائے فرینڈلی اپوزیشن کے طور پر پیپلز پارٹی حکومت کو پانچ سال پورے کرائے۔ 2013ء میں میاں نواز شریف کو اقتدار ملا تو انہوں نے بھی کسی حد تک مفاہمتی پالیسی کا لحاظ کرتے ہوئے مخالفین کے خلاف کارروائی سیاسی بیان بازی تک ہی محدود رکھی۔ ایک بات جو سب سے اہم ہے وہ یہ کہ پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ نون‘ دونوں جماعتوں نے احتساب کے نام پر سخت رگڑا کھانے کے باوجود معاملات کو ٹھیک کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ 2018ء کے الیکشن میں تبدیلی آئی اور ماضی کی دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے بجائے پاکستان تحریک انصاف اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوئی۔ عوام نے وزیراعظم عمران خان سے بڑی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں، بڑی امیدیں تھیں لیکن حکومت کے دو سال بعد بھی عوام کو کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی بلکہ اس حکومت نے بھی اپنی ترجیح عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے اپوزیشن کے خلاف کارروائی کو بنا رکھا ہے۔
وزیراعظم صاحب اگر ملک میں واقعی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ماضی کی حکومتوں کی طرح‘ احتساب کو چھوڑ کر مستقبل کی ترقی پر توجہ دیں اور عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے کو اپنی اولین ترجیح بنائیں۔