کورونا کی نئی لہر آ چکی ہے

حکومت ِ پاکستان اور عالمی ادارۂ صحت بار بار متنبہ کر رہے ہیں کہ ملک میں کورونا کی شدت کم ضرور ہوئی ہے‘ وائرس ختم نہیں ہوا لیکن ہماری قوم کا المیہ ہے کہ جب تک کوئی شخص خود متاثر نہیں ہوتا یا جب تک خاندان میں خدانخواستہ کوئی فرد بیمار نہیں ہوتا‘ اس وقت تک کسی بھی وبا سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ آج سے تین ماہ قبل تک جب کووڈ 19 کی عالمی وبا پاکستان میں بھی خطرناک حد تک پھیلی ہوئی تھی اور روزانہ اس وائرس سے ہونے والی اموات کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی تھی تو اس وقت بھی ملک بھر میں مجموعی طور پر صرف تیس سے چالیس فیصد تک ہی احتیاط برتی جا رہی تھی، اب تو گلی‘ محلوں، بازاروں، کاروباری مراکز، بس اڈوں، ریلوے سٹیشنوں، نجی و سرکاری دفاتر، اجتماعات اور تقریبات میں لوگوں نے احتیاط کرنا بالکل ہی چھوڑ دی ہے اور کورونا وائرس سے بچائو کیلئے عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور حکومت کی طرف سے جاری کردہ ہدایات اور ایس او پیز ماضی کا قصہ بنتے جا رہے ہیں۔ ہر دکان اور دفتر کے باہر ''نو ماسک‘ نو انٹری‘‘ کا انتباہ چسپاں ہے لیکن احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد مفقود ہے۔
حالیہ دنوں میں ملتان اور پنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں نیشنل ٹی ٹونٹی کپ کا انعقاد ہوا‘ ان سٹیڈیمز کی چار دیواری کے اندر کورونا ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد ہوتا دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ چلو وائرس کاخوف نہ سہی، کرکٹ بورڈ کا خوف ہی سہی، ایس او پیز پر بڑی حد تک عمل درآمد تو ہوتا ہوا نظر آیا لیکن اتنی سختی کے باوجود بھی مختلف ٹیموں کے آفیشلز اور کھلاڑیوں کی جانب سے کئی بار ایس او پیز کی خلاف ورزیاں دیکھنے کو ملیں جو ہماری قوم کی لاپروائی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ راقم الحروف نے اپنے 20 اگست کے کالم میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے نمائندے سے حاصل کردہ معلومات پر مبنی یہ انکشاف کیا تھا کہ اس سال کے آخر یعنی نومبر اور دسمبر کے دوران دنیا بھر میں کورونا وائرس کی ایک نئی لہر آئے گی جو موجودہ وائرس سے کئی گنا زیادہ شدید اورخطرناک ہو گی۔ پاکستان میں اس سے پہلے کورونا وائرس کی جو قسم حملہ آور تھی‘ اس سے لوگوں کو زیادہ تر ملیریا اور ٹائیفائیڈ قسم کابخار ہو رہا تھا لیکن اب موسم سرما میں جو لہر آئے گی‘ اس میں لوگوں کو نمونیہ جیسی علامات کا سامنا ہو سکتا ہے اور یہ قسم زیادہ خطرناک اور جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے لہٰذا اب پہلے سے بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایس او پیز پر مکمل عمل پیرا ہونا چاہئے۔ کسی قسم کی کوتاہی خدا نخواستہ کسی بڑے نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
اُس وقت میری بات پر کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا بلکہ لوگ مذاق سمجھ رہے تھے لیکن اس کالم کی اشاعت کے کچھ دن بعد ہی وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی قوم کو وارننگ دینا شروع کر دی کہ احتیاط کریں‘ وگرنہ نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ جس وقت میرا کالم شائع ہوا تھا‘ اس وقت اللہ تعالی کے فضل و کرم سے پاکستان میں کورونا سے اموات تقریباً ختم ہوگئی تھیں اور ہرکوئی اللہ پاک کا شکر ادا کر رہاتھا کہ وبا کی شدت کم ہوئی؛ تاہم وزیراعظم صاحب اور محکمہ صحت کی بار بار وارننگ پر کسی نے کان نہیں دھرے اور بے احتیاطی میں کوئی کمی نہ آنے دی۔
میرا پہلے بھی یہی موقف تھا کہ اس بے احتیاطی پر صرف عوام الناس پر الزام دھرنا درست نہیں بلکہ میرے خیال میں اس کی وجہ شاید حکومت کی جانب سے ایک دم سے قرنطینہ مراکز کی بندش، فیلڈ ہسپتالوں کا خاتمہ اور کورونا ٹیسٹوں میں کمی بھی ہے‘ جس سے ایک عام تاثر یہ ملا کہ شاید اب پاکستان میں کورونا وائرس ختم ہو چکا ہے۔ حکومت نے اس عالمی وبا کی کمی پر جس طرح عالمی سطح پر داد سمیٹنے کی کوشش کی ہے، اس نے بھی عام آدمی پر یہی تاثر چھوڑا کہ اب ہمارے ملک میں یہ خطرہ ٹل چکا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے اور اب بھی اتنی ہی احتیاط کی ضرورت ہے جتنی آج سے چار مہینے پہلے تھی۔ شاید کووڈ 19 سے بچائو کے لئے آگاہی مہم بھی کمزور پڑ چکی ہے کیونکہ متعلقہ اداروں یا محکمہ جات کی جانب سے آگاہی مہم پر اتنی توجہ نہیں دی جا رہی‘ جتنی ضرورت ہے۔
آج سے چند ہفتے قبل کورونا سے اموات میں جو کمی آئی تھی‘ اس میں ایک بار پھر خطرناک حد تک اضافہ ہونے لگا اور اب روزانہ اس وباسے اموات کی تعداد ڈیڑھ درجن تک بڑھ چکی ہے جو انتہائی خطرناک صورتحال کی نشاندہی کر رہی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ ملک میں کورونا وائرس کی نئی لہر آ چکی ہے جس کا مقابلہ ایک بار پھر مکمل احتیاط سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ 
یہ حقیقت ہے کہ ہماری تباہ حال معیشت طویل لاک ڈائون کی متحمل نہیں ہو سکتی، نہ ہی ہماری قوم کے نونہال اور شاہین (طلبہ و طالبات) دوبارہ تعلیمی اداروں کی بندش برداشت کر سکتے ہیں کیونکہ پہلے ہی ہمارا تقریباً آدھا تعلیمی سال ضائع ہو چکا ہے اور آن لائن کلاسز کا نظام بھی کچھ زیادہ کامیاب نہیں رہا کیونکہ ملک کی غالب اکثریت آج بھی انٹرنیٹ کی بنیادی سہولت سے یا تو محروم ہے، یا اس کی سست رفتاری کے باعث آن لائن کاسز کا حصہ نہیں بن پاتی۔ ہمارے 70 فیصد سے زائد طلبہ و طالبات کو اگر انٹرنیٹ کی مفت سہولت مل بھی جائے تو ان کے پاس آج کے اس سائنسی دور میں بھی ذاتی لیپ ٹاپ یا جدید موبائل فون موجود نہیں ہیں۔ جہاں یہ ساری سہولتیں دستیاب ہیں‘ وہاں بھی آن لائن کلاسز کا تجربہ کچھ زیادہ مقبول یا مفید ثابت نہیں ہو سکا، اسی لیے ہمارے اساتذہ کرام، ماہرینِ تعلیم اور سٹوڈنٹس نے لاک ڈائون کے خاتمے پر اللہ پاک کا شکر ادا کیا۔ ہمارے طلبہ ابھی تک گزشتہ لاک ڈائون کے دوران ہونے والے تعلیمی نقصان کو پورا نہیں کر پائے اور ایک بار پھر کورونا کے نئے کیسز سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ24 گھنٹوں کے دوران پاکستان میں کورونا وائرس سے مزید19 افراد جاں بحق ہوئے، جس کے بعد اموات کی تعداد کل تعداد 6 ہزار692 ہو گئی ہے۔ پاکستان میں کورونا کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد3 لاکھ24 ہزار744 ہو گئی ہے۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں660 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ پنجاب میں ایک لاکھ ایک ہزار 936، سندھ میں ایک لاکھ 42 ہزار 348، خیبر پختونخوا میں38 ہزار 779، بلوچستان میں15 ہزار 717، گلگت بلتستان میں4 ہزار 91، اسلام آباد میں18 ہزار309 جبکہ آزاد کشمیر میں3 ہزار564 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ ابھی تک اس وبا کی ویکسین نہیں آئی اور نہ ہی کوئی مستند علاج دریافت ہو سکا ہے لیکن ہم اپنی اور دوسروں کی قیمتی جان کی حفاظت کے لئے ایس او پیز پر عمل پیرا تو ہو سکتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اجتماعات میں جانے سے گریز کریں، سینی ٹائزر کا استعمال اور بار بار ہاتھ دھونے کی عادت کو ایک بار پھر اپنا معمول بنائیں اور سماجی فاصلے کا بھی مکمل خیال رکھیں۔
حکومت اور انتظامیہ کو بھی چاہئے کہ کووڈ 19سے بچائو اور آئندہ اس وبا کے پھیلائو کو روکنے کیلئے ایس او پیز پر عمل درآمد کرائے، تاجروں کو پابند کیا جائے کہ کاروباری مراکز میں سماجی فاصلے، فیس ماسک اور سینی ٹائزر کے استعمال سمیت تمام ایس او پیز پر عملدرآمد کیا جائے، اسی طرح جب تک سرکاری دفاتر میں ایس او پیز پر سو فیصد عمل درآمد نہیں ہو گا‘ اس وقت لوگ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کریں گے کیونکہ ابتدا میں تو خوف و ہراس کی جو فضا قائم ہوئی تھی‘ اس نے لوگوں کو احتیاط پر مجبور کر دیا تھا لیکن اگر ہم نے احتیاط سے کام نہ لیا تو خدا نخواستہ موجودہ لہر کہیں زیادہ خوفناک اور خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ موسم سرما کا آغاز ہو چکا ہے اور ہم نے پہلے ہی یہ بات سن رکھی ہے کہ کورونا وائرس کی شدت گرمیوں میں کم ہو جاتی ہے جبکہ سردی میں یہ وائرس زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ بھلے زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن قدرت نے انسان کو احتیاط کا حکم دیا ہے ، اپنی اور دوسروں کی جان بچانا فرض ہے‘ جس کیلئے ایس او پیز پر سو فیصد عمل درآمد ضروری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں