ماں ایسی عظیم ہستی ہوتی ہے جس کے پیار و محبت کی مثال تو خالقِ کائنات نے بھی دی ہے۔ خدا تعالیٰ نے جنت بھی ماں کے قدموں تلے رکھی ہے۔ ماں سے پیار کا جذبہ محض انسانوں میں ہی نہیں بلکہ تمام چرند و پرند حتیٰ کہ درندوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ ماں تو وہ ہستی ہے جس کی لازوال محبت کا بدلہ انسان زندگی بھر نہیں چکا سکتا۔ گرمی ہو یا سردی، ماں خود تو موسم کی سختیاں برداشت کر لیتی ہے لیکن اپنی اولاد کو ہمیشہ موسم کی شدت سے محفوظ رکھنے کے لئے کوشاں رہتی ہے۔ وہ خود تو بھوکی و پیاسی سو سکتی ہے لیکن اولاد کی تڑپ کبھی نہیں دیکھ سکتی‘ خواہ اس کے لئے اسے اپنی جان ہی قربان کیوں نہ کرنی پڑ جائے۔ ہمیشہ بڑوں سے یہی سنا کہ 'مائیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں‘۔ ماں کا پیار مال و دولت یا دستیاب سہولتوں کے تابع نہیں ہوتا اور نہ ہی ماں اپنے بچوں میں مال و اسباب‘ دولت و ثروت کے حساب سے تفریق کرتی ہے بلکہ وہ تو اپنے نابینا، معذور اورگونگے بہرے بچوں کی خدمت میں بھی دن رات ایک کیے رکھتی ہے۔ ماں اگر مرغی بھی ہو تو وہ بھی اپنے چوزوں کی حفاظت کے لئے بڑے اور خطرناک جانوروں کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہو جاتی ہے، جانوروں کی مائیں بھی اپنے بچوں کی پرورش اور حفاظت کے لئے اپنا سکون قربان کر دیتی ہے تو پھر انسان‘ جسے عقل و شعور کی دولت ودیعت کی گئی ہے‘ کی محبت کتنی لازوال ہو گی۔ ماں کے بغیر انسانیت کا وجود ناممکن ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر مذہب، رنگ و نسل، علاقے اور رسم و رواج میں والدین کی اہمیت اور پیار کو اولیت دی جاتی ہے کیونکہ اس دنیا میں آنے والی ہر روح کو پہلا پیار والدین سے ہی ملتا ہے۔ کوئی بڑا بدبخت ہی ہوگا جو ماں یا باپ کی نافرمانی کرے یا ان عظیم ہستیوں اور مقدس رشتوں کے بارے میں اخلاق سے گری ہوئی کوئی بات کہے۔
گزشتہ ہفتے سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف کی والدہ‘ مریم نواز اور حمزہ شہباز کی دادی محترمہ بیگم شمیم اختر کا لندن میں انتقال ہو گیا، مرحومہ 90 سال سے زائد عمر میں اپنے بڑے بیٹے نواز شریف کی تیمارداری کے لئے لاہور سے لندن گئی تھیں۔ نواز شریف جب یہاں جیل میں قید تھے تو ان کی والدہ اپنے بیٹے کے پیار میں جیل بھی ملنے کے لئے جاتی تھیں بلکہ یہ بھی خبریں سننے کو ملیں کہ وہ بضد تھیں کہ وہ اپنے بیٹے کو جیل میں چھوڑ کر گھر واپس نہیں جائیں گی لیکن حالات سدا ایک جیسے نہیں رہتے‘ اتارچڑھائو تو زندگی کاحصہ ہے۔جس خاتون کو زندگی کی ہر آسائش ملی اور جس کی اولاد نے صرف سکھ ہی دیکھے ہوں‘ اسے گردشِ حالات کے باعث اپنے لاڈلے بیٹے کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھنا پڑا اور اب داعیٔ اجل کی جانب سے بلاوا آنے پر لندن میں اپنے بچوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے الوداع کہنا پڑا۔
وزیراعظم عمران خان بھی اپنی ماں سے بہت پیار کرتے تھے اور انہوں نے اپنی والدہ کے نام پر اتنے بڑے ہسپتال بھی بنائے ہیں لہٰذا خیال تھا کہ وہ تمام تر سیاسی مخالفتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سب سے پہلے میاں نواز شریف اورشہباز شریف کو فون کرکے ان سے والدہ کے انتقال پر تعزیت کریں گے اور پھر میت کو سہولت سے پاکستان لانے کے لئے ہر ممکن مدد و تعاون کی پیشکش کریں گے لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا اور وزیراعظم نے ٹویٹر پر صرف ایک تعزیتی بیان جاری کرنے پر ہی اکتفا کیا۔ شاید اس کی وجہ وزیراعظم کے وہ غیر سیاسی اور غیر منتخب مشیران ہیں جو نہ تو عوام کے ووٹ سے اقتدار میں آئے ہیں اورنہ ہی انہوں نے دورِ اقتدار کے اختتام پر دوبارہ عوام کے سامنے جواب دہ ہونا ہے، اسی لئے ان کا مرکز و محور صرف اپوزیشن کو لتاڑنا اور برا بھلا کہنا ہے؛ تاہم وزیراعظم صاحب کو خود سوچنا چاہئے کہ وہ تو ایک سیاسی لیڈر ہیں‘ جو عوام سے ووٹ لے کر منتخب ہوئے ہیں اور چند سال بعد دوبارہ انہیں عوامی عدالت میں پیش ہونا ہے لہٰذا انہیں غیر سیاسی مشیروں کے بجائے منتخب وزیروں اور اپنی جماعت کے عہدیداروں اور کارکنوں کی رائے کا احترام کرنا چاہئے۔ شریف برادران کے سخت سیاسی دشمن سمجھے جانے والے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد سمیت متعدد حکومتی وزراء نے تعزیتی پیغامات جاری کئے ہیں اور مرحومہ کی مغفرت و درجات کی بلندی کیلئے دعاکی ہے لیکن حکومت کے غیر منتخب مشیروں نے شریف برداران کی والدہ کی وفات پر بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور جس طرح پہلے بیماری پر سیاست کی جاتی رہی‘ اب کی بار موت پر بھی سیاسی نشتر برسائے گئے‘ جو انتہائی افسوس ناک امر ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے دو دہائیوں تک جو سیاسی جدوجہد کی‘ وہ ہرگز ایسی نہ تھی، وہ سیاسی اتار چڑھائو اور مصلحتوں سے خوب واقف ہیں لیکن جب سے انہوں نے اپنے اردگرد غیر سیاسی لوگوں کوجمع کیا ہے‘ ایسی ایسی سیاسی روایات نے جنم لیا ہے جنہوں نے ملکی سیاست کو دوبارہ نوے کی دہائی میں دھکیل دیا ہے اور جو جمہوریت کے ساتھ ساتھ یقینا مستقبل میں پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کے لئے بھی مشکلات کا باعث بنیں گی۔ بعض ذرائع تو یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیراعظم تو اپنی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی تیمارداری اس لیے کی کہ جب انہیں پتا چلاکہ چودھری شجاعت نے میاں نواز شریف کو فون کر کے ماں کے انتقال پر تعزیت کی ہے تو وزیراعظم کو فوراً خیال آیاکہ کہیں ن لیگ اور ق لیگ میں برف پگھل نہ جائے اور پنجاب میں حکومت ان کے ہاتھ سے نہ نکل جائے‘ اس لیے انہوں نے چودھری شجاعت حسین کی عیادت کی۔ حکومتی مشیروں کی جانب سے شریف برادران کی والدہ محترمہ کی میت کے لئے 'پارسل‘ جیسے الفاظ استعمال کرنا انتہائی شرمناک عمل ہے جبکہ شہباز شریف کی جانب سے پیرول پر رہائی کے لئے دی جانے والی درخواست کو پبلک کرنا بھی نہایت غیر اخلاقی ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ حکومت اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہباز شریف اورحمزہ شہباز کو کم از کم چودہ روز کے لئے پیرول پر رہا کرتی تاکہ وہ تعزیت کرنے والوں سے مل سکیں۔ حکمران طبقے کو سوچنا چاہئے کہ ہمیشہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کا ہی ہے‘ آج اگر تین بار ملک کا وزیراعظم رہنے والا شخص سخت حالات سے گزر رہا ہے تو کل اوروں پر بھی مشکل وقت آ سکتا ہے لہٰذا ایسی روایات قائم نہ کریں جو ملکی سیاست میں انتقام کی آگ کو بھڑکانے کا سبب بنیں بلکہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کریں کیونکہ مائیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر شہباز گل کا ایک ٹویٹ نظرسے گزرا ''محترمہ بختاور زرداری کی منگنی پر مبارکباد اور نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ ان کی خوشیوں میں اضافہ فرمائے، بے شک بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں‘‘۔ مشیران کا ٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے سمجھ نہیں آئی کہ یہ واقعی دعا ہے یا اس میں بھی کوئی طنز شامل ہے۔ بلاشبہ بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں لیکن ماں کا درجہ تو بیٹی سے کہیں بلند ہے اور موجودہ حکمرانوں کو دو روز قبل پیش آنے والے واقعے سے بھی سبق سیکھنا چاہئے کہ جب ایک غریب ماں نے حالات سے تنگ آکر اپنے تین بچوں سمیت کنویں میں چھلانگ لگا دی۔ اس ماں کو تو بچا لیاگیا لیکن اس کی معصوم بیٹیاں جاں بحق ہو گئیں۔ حکومتی مشیروں کی اصل ذمہ داری تو وزیراعظم صاحب کو ایسے حقائق سے آگاہ کرنا ہے جن کی وجہ سے ایسے دل خراش واقعات جنم لے رہے ہیں۔ بیٹیاں ہوں یا مائیں‘ سب کو مقدس رشتوں کا احترام کرنا چاہئے اور سیاسی مخالفت کو ذاتی بغض و عناد میں تبدیل نہیں کرنا چاہیے اور ایسی بیان بازی سے گریز کرنا چاہئے جس سے دوسروں کا دل دکھے اور کسی رشتے کی توہین ہو۔ سیاست اپنی جگہ لیکن انسانیت کی تذلیل کسی صورت نہیں ہونی چاہئے اور خواتین کا احترام کیا جانا چاہئے۔ یہی ملک و قوم اور جمہوریت کے لئے بھی بہتر ہے اور یہی اللہ اور اس آخری رسولﷺ کا حکم ہے۔