اب کیا ہو گا؟

گزشتہ روز اخبارات میں شائع ہونے والی سینکڑوں خبروں میں سے ایک خبر یہ تھی: ''آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے تیل بحران پر انکوائری رپورٹ چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا، رپورٹ کے خلاف تمام قانونی و دیگر متعلقہ فورمز سے رجوع کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ اوگرا اتھارٹی نے رپورٹ بے بنیاد اور حقائق کے منافی قرار دے دی‘‘۔ اس خبر نے چینی بحران کی انکوائری کرنے والے کمیشن کی رپورٹ یاد دلا دی‘ جس میں بڑے بڑے دعوے کئے گئے تھے۔ حکومت نے اسے عوام کے سامنے پیش بھی کر دیا تھا، وزرا کی جانب سے بلند بانگ دعووں پر مبنی بیانات اخبارات کی شہ سرخیاں بھی بنے کہ اب بلاامتیاز احتساب ہو گا، وزیراعظم کسی چور کو نہیں چھوڑیں گے، حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں طرف سے گرفتاریاں ہوں گی، احتسابی ادارے بلاتفریق احتساب کریں گے، کرپشن میں ملوث حکومتی افراد کو بھی جیلوں میں بند کر کے نشانِ عبرت بنائیں گے، آئندہ کسی کو آٹا یا چینی چوری کی جرأت نہیں ہوگی‘ وغیرہ وغیرہ۔ پھر کیسز بنے اورعوام کچھ دن تک بڑے مطمئن رہے کہ اب بدعنوان عناصر نشانِ عبرت بنیں گے، لیکن پھر ایسی ہی خبریں آئیں کہ شوگر انکوائری رپورٹ کو چیلنج کر دیا گیا ہے، پھر آہستہ آہستہ محسوس ہوا کہ انتہائی بااثر شوگر مافیا نے اندرونِ خانہ معاملات طے کر لئے۔ حکام کی غلط فہمی بھی بہت جلد دورہو گئی اور انہیں بھی احساس ہو گیا کہ روزانہ کہیں نہ کہیں لنچ یا ڈنر پر انہی چینی چوروں سے ملاقات ہونی ہے ، ان کے خلاف کچھ ہونا نہیں‘ لہٰذا سیاسی عافیت اسی میں ہے کہ چپ کر جائو۔ یوں رفتہ رفتہ یہ گرد بیٹھتی گئی اور یہ ''بھولی قوم‘‘ آٹا و چینی چوروں اور ان کے خلاف پبلک ہونے والی تمام رپورٹوں کو بھول کر دوبارہ آٹا اور چینی یعنی روزی روٹی کمانے کے چکر میں مشغول ہو گئی۔ قارئین کی یاددہانی کے لئے عرض ہے کہ رواں سال یکم جون کو ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد سے ملک بھر میں پٹرول نایاب ہو گیا تھا اور قیمتوں میں اضافے تک پٹرول پمپس پر پٹرول کی قلت رہی۔ پٹرولیم بحران کی تحقیقات کے لیے 7 رکنی انکوائری کمیشن بنایا گیا تھا، لیکن بدقسمتی سے اس رپورٹ میں بھی ذمہ دار ٹھہرائے جانے والے زیادہ تر کرداروں کا تعلق کسی نہ کسی طریقے سے اقتدار کے ایوانوں سے رہا، جھوٹ یا سچ تو آج تک عام شہریوں کو معلوم ہی نہ ہو سکا لیکن الزام کی حد تک اس بحران کے ذمہ داروں کا تعلق حکومتی شخصیات سے ہی جا ملتا تھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ خدشہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ شوگر کمیشن کی طرح پٹرولیم کمیشن کی رپورٹ پر بھی اس کی روح کے مطابق کبھی عمل درآمد نہیں ہو سکے گا۔ اس رپورٹ کے حوالے سے وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ بیرسٹر شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ وفاق کے حکم پر قائم پٹرولیم کمیشن کی رپورٹ وزیراعظم کو موصول ہو گئی اور وزیراعظم کے حکم کے مطابق رپورٹ کابینہ میں پیش کی جائے گی۔
بات پٹرولیم بحران والی خبرکی ہو رہی تھی تو اس میں ترجمان اوگرا کا کہنا ہے 'انکوائری رپورٹ کا مواد ثابت ہونا ابھی باقی ہے‘ رپورٹ کا معاملہ اعلیٰ عدلیہ میں زیر سماعت ہے۔ ترجمان کے مطابق رپورٹ میں لگائے گئے الزامات بالکل بے بنیاد ہیں۔ اس فرمان سے یاد آیا کہ ابھی تو 1947ء سے لے کر آج تک ہونے والی تقریباً تمام ہی انکوائریوں میں لگنے والے الزامات کا ثابت ہونا باقی ہے، ابھی تک ہزاروں مقدمات عدالتوں میں زیرِالتوا ہیں، اور کسی بھی ملزم نے سچائی ودیانتداری سے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو تسلیم کرکے قوم سے معافی نہیں مانگی۔ یاد رہے کہ پٹرول کی قلت پر بنائے گئے پٹرولیم کمیشن کی تحقیقات میں سیکرٹری پٹرولیم اور ڈی جی آئل کو قصوروار ٹھہرایا گیا، انکوائری کمیشن کا کہنا ہے کہ ڈی جی آئل غیر قانونی طور پر کوٹہ مختص کرنے میں ملوث ہیں، ان کے علاوہ بحران میں سیکرٹری پٹرولیم کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کمیشن نے دونوں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے۔اب اوگرا کے حوالے سے ایک نیا پہلو سامنے آ گیا ہے اور اس حوالے سے معاملے میں حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں‘ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا؛ البتہ گاہے یہ خیال آتا ہے کہ جہاں غریب کی جیبوں پر ڈاکا ڈال کر اربوں کمانے والوں کو کسی نے کچھ نہیں کہنا تو کروڑوں روپے لوٹنے والوں کو کون پوچھے گا؟ 
پٹرولیم کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پٹرول بحران کی بڑی وجہ تیل کی درآمدات پر پابندی بھی تھی، پٹرول عالمی مارکیٹ میں سستا ہوا تو پابندی کی سفارش کی گئی، مئی اور جون میں پٹرول خریدا گیا؛ تاہم اس کی سپلائی روک دی گئی، حکومت کی جانب سے قیمتیں بڑھانے تک کمپنیوں نے تیل کی سپلائی روکے رکھی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آٹا اور چینی کی چند سو بوریاں گودام میں رکھنے والے ہول سیل ڈیلروں کے خلاف تو ذخیرہ اندوزی کی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے اور ان کی حق حلال کی کمائی ضبط کرکے میڈیا ٹرائل بھی کیا جاتا ہے لیکن چینی بحران میں قصوروار ٹھہرائے گئے بڑے بڑے مگرمچھ آج بھی ایسی کارروائیوں سے محفوظ نوٹ چھاپ رہے ہیں۔ حکومت کوچاہئے کہ عام تاجروں کے خلاف کریک ڈائون کے بجائے اپنی انکوائری رپورٹ کی سفارشات پر عملدآمد کروائے اور ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے۔تیل بحران میں انکوائری کمیشن نے بعض مارکیٹنگ کمپنیوں کے لائسنس کو غیر قانونی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کمپنیوں کے پاس آئل ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے، 20 دن تک تیل ذخیرہ نہ کرنے کی غفلت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کمپنیوں سے 20 دن تک تیل ذخیرہ نہ کروانا آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی ناکامی ہے۔ اب یہ بات تو ایک عام آدمی کی سمجھ میں بھی آتی ہے کہ جس کمپنی کے پاس ایک ماہ کا تیل ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہی نہ ہو‘ اسے ہرگز لائسنس نہیں ملناچاہئے بلکہ پہلے اس بات کا پابند بنایا جانا چاہیے کہ وہ استعدادِ ذخیرہ بڑھائے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں کم ازکم ایک ماہ کا ذخیرہ تو موجود ہو۔ آئل کمیشن نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رد و بدل 15دن کے بجائے 30 دن میں کرنے کی سفارش بھی کی ہے اور وزارتِ پٹرولیم میں مانیٹرنگ سیل قائم کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے تاکہ کمپنیوں سے روزانہ اور ماہانہ بنیادوں پر ذخیرے سے متعلق ڈیٹا حاصل کیا جا سکے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر پندرہ دن بعد قیمتوں میں رد و بدل (جس میں زیادہ تر اضافہ ہی ہوتا ہے) عوام کے لئے پریشان کن ہوتا ہے، غریب آدمی اپنا بجٹ ہی نہیں بنا سکتا لہٰذا سہ ماہی یا کم ازکم مہینے بعد ہی نرخ تبدیل ہونا چاہئیں۔ رپورٹ میں کمیشن کی جانب سے اوگرا کو تحلیل کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ 6 مہینوں میں قانون سازی کرکے اوگرا کو تحلیل کیا جائے۔ یہ ایسا معاملہ ہے جو عام شہریوں کی سطح کا نہیں بلکہ اس بارے اربابِ اختیار ہی بہتر سمجھتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک تباہ حال معیشت والے ملک میں وفاقی وزارت کی موجودگی میں غیر ضروری ادارے قائم کرکے قومی دولت ضائع کرنا کسی بھی طور مناسب نہیں۔
آٹا اورچینی بحران کے خلاف آواز اٹھانے والی ایک اہم حکومتی شخصیت کے الفاظ عوام کو یاد ہوں گے کہ بدقسمتی سے جو بھی کمیٹی بنتی ہے‘ اس میں بااثر مافیا کاکوئی نہ کوئی نمائندہ ضرور موجود ہوتاہے جو کابینہ یا کمیٹی کے دیگر ارکان کو بولنے نہیں دیتا۔ یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی بڑے بحران میں کسی عام آدمی کی غلطی یا بدنیتی شامل نہیں ہوتی بلکہ ایسے بدعنوان عناصر ہی ان بحرانوں کا ذمہ دار ہوتے ہیں جو اپنے کالے دھن کو چھپانے اور بچانے کے لئے سیاست اور اقتدار کا سہارا لیتے ہیں۔ لہٰذا عوام کو چاہئے کہ جس طرح شوگر کمیشن کی رپورٹ بھول کر اپنے کام و کاروبار میں مگن ہو چکے ہیں اسی طرح پٹرولیم کمیشن کے انجام کے بارے میں سوچ کر اپنا وقت ضائع نہ کریں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں