''سابق حکمران چور تھے، کرپشن ہوتی تھی، منی لانڈرنگ کے ذریعے قومی دولت بیرونِ ملک ٹرانسفر ہو رہی تھی، ترقیاتی منصوبوں میں عوامی نمائندوں کے کمیشن کی باتیں عام تھیں، کمیشن بڑھانے کے لئے ترقیاتی کام بھی زیادہ کرائے جاتے تھے، عوام کو خوش رکھنے کے لیے قومی خزانے پر بوجھ ڈال کر میٹرو بسوں کے ٹکٹ پر سبسڈی دی جا رہی تھی، سابق وفاقی وزیر خزانہ نے ڈالر اور پائونڈ سمیت تمام غیرملکی کرنسی کی قیمت کو مصنوعی طریقے سے روک رکھا تھا اور اوپن مارکیٹ کی من مانی نہیں چلنے دیتے تھے، سیاست میں بھی وہی پرانے چہرے بار بار منتخب ہو رہے تھے یا ان کی اولاد میں سے ہی کوئی نمائندہ سامنے آ رہا تھا‘‘ یہ ہیں وہ بیانات جو آئے روز حکومتی نمائندوں سے ہمیں سننے کو ملتے رہتے ہیں مگر یہاں پر عوام کے ذہنوں میں کچھ سوالات بھی جنم لیتے ہیں۔ اس وقت ادویات کی قیمتیں کم تھیں‘ آٹا اور چینی بھی سستے مل رہے تھے، شاید اس لیے کہ زیادہ تر ملز مالکان سیاست دان تھے اور وہ منافع کما رہے تھے، مرغی اور انڈے اس لئے مناسب قیمت میں دستیاب تھے کیونکہ اس کاروبار میں بھی سابق حکمرانوں نے سرمایہ کاری کر رکھی تھی اور وہ منافع کمانے کے لئے پولٹری کی صنعت کو سہولتیں دے رہے تھے، غرض گزشتہ دورِ حکومت میں عوام کو جو دو وقت کی روٹی مل رہی تھی اس میں حکمرانوں کی کرپشن کا بڑا ہاتھ تھا یعنی وہ اپنی لوٹ مار کے لئے عوام کو سبسڈی دے رہے تھے اور مہنگائی کومصنوعی طریقے سے کنٹرول کیا جا رہا تھا۔ پھر پاکستان تحریک انصاف نے ان چوروں کے خلاف آواز بلند کی اور ملک سے کرپشن کے خاتمے کا نعرہ بلند کرتے ہوئے نیا پاکستان بنانے کے لئے میدان میں نکل آئی۔ سیاست میں تبدیلی کے عزم نے نوجوان نسل کو ایک نیا ولولہ دیا، ایک سو چھبیس دن تک ووٹ کی چوری اور مالی بدعنوانیوں کے خلاف دھرنا دے کر ملکی معیشت کا پہیہ جام کر دیاگیا تاکہ کرپشن نہ ہو سکے۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے عوام سے وعدے کئے کہ ان کی حکومت آتے ہی پہلے سو دنوں میں ہی سب کچھ بدل جائے گا اور واضح تبدیلی نظر آئے گی۔ مہنگائی ختم اور انصاف کا بول بالا ہوگا، سبسڈی کے بغیر بھی عوام خوش حال ہوں گے، نوجوان نسل میں سے غیر موروثی نمائندوں کو منتخب کرا کے ملک کو ترقی یافتہ بنایا جائے گا اور یہی نیا پاکستان ہوگا۔
عوام نے کپتان کی جماعت پر اعتماد کیا، انہیں ووٹ دیے، اقتدار میں لائے لیکن پھر وہ دن اور آج کا دن، نیا پاکستان تو دور کی بات کوئی نیا عوامی نمائندہ بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتا، وہی پرانے چہرے جوکبھی مسلم لیگ اور کبھی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوتے تھے، انہیں ہی نئے پاکستان کی باگ ڈور تھما دی گئی ہے، مہنگائی کا گراف نیچے آنے کی بجائے طوفانی رفتار سے اوپر جا رہا ہے۔ منی لانڈرنگ روکنے اور معیشت کا پہیہ چلانے کے لئے دیارِ غیر سے ایسی ٹیم درآمد کی گئی جن کے کام، کاروبار اور جائیدادیں پہلے سے ہی بیرونِ ملک ہیں۔ عوامی نمائندوں اور بیورو کریسی کا کمیشن روکنے کے لئے مالی سال 2020-21ء کے بجٹ میں کوئی نیا میگا پروجیکٹ ہی شامل نہیں کیا گیا، کیونکہ جب ملک میں ترقیاتی کام ہوتے تھے، موٹرویز اور پل بنتے تھے تو ان میں‘ موجودہ حکمرانوں کے بقول‘ کمیشن کھایا جاتا تھا اورکرپشن ہوتی تھی جسے روکنے کے لئے ضروری تھا کہ ترقیاتی سکیمیں ہی روک دی جائیں تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ عام آدمی کو لیکن ایک بات سمجھ نہیں آ سکی کہ کوئی نیا ترقیاتی منصوبہ بھی شروع نہیں ہوا، کمیشن بھی نہیں کھایا گیا تو قومی خزانے سے وہ اربوں روپے کہاں چلے گئے جو پہلے ڈویلپمنٹ سکیموں پر خرچ ہو رہے تھے۔ اب تو قومی خزانے کو بھرا ہوا ہوناچاہئے تھا۔ ترقیاتی منصوبے روکنے سے کمیشن تو شاید رک گیا ہو گا لیکن ترقیاتی فنڈز کہاں چلے گئے؟
موجودہ حکومت نے قومی خزانے کو بچانے کے لئے میٹرو بس میں سفر کرنے والے غریب شہریوں سے سبسڈی تو واپس لے لی لیکن اب خبر سامنے آئی ہے ''گزشتہ چند روز کے دوران میٹرو بس لاہور میں ٹکٹیں نہ ملنے کے باعث شہریوں کی بڑی تعداد خوار ہو رہی ہے، ٹکٹیں ناپید ہونے کے باعث انتظامیہ نے وقت طور پر پرچی سسٹم رائج کیا ہے۔ میٹرو بس میں سفر کرنے والے مسافر پرچی حاصل کر کے بس میں سوار ہو رہے ہیں۔ ٹکٹنگ بند ہونے کی وجہ سے میٹرو بس لاہور کے ریونیو میں اوسطاً پندرہ لاکھ روپے روزانہ کی کمی ہوئی ہے۔ اس سے قبل اوسطاً روزانہ ریونیو تیس لاکھ روپے تھا جو گیارہ روز سے 15 لاکھ روپے تک آ گیا ہے۔ گیارہ روز میں اتھارٹی کو ریونیو کی مد میں ایک کروڑ 65 لاکھ روپے کی کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے‘‘۔ خبر ہے کہ ٹکٹ کی مد میں حاصل ہونے والی رقم قومی خزانے کے بجائے ملازمین کی جیبوں میں جانے لگی ہے۔ اب کوئی حکومت کو بتائے کہ سبسڈی قومی خزانے پر اتنا بوجھ نہیں تھی جتنا بڑا بوجھ اب کرپشن ثابت ہو رہی ہے، اس کا فوری نوٹس نہ لیا گیا اور معاملات ٹھیک نہ کیے گئے تو خدانخواستہ اس عوامی منصوبے کا حال بھی ماضی کی 'جی ٹی ایس‘ بسوں جیسا ہونے کا اندیشہ ہے۔
یہ بات درست مان لیتے ہیں کہ ماضی میں آٹا اورچینی کی قیمتوں پر سبسڈی دے کر کسی حد تک من پسند مل مالکان کو ضرور فائدہ پہنچایا جاتا تھا لیکن آج کی صورتِ حال تو اس سے بھی کہیں زیادہ تشویشناک ہے، چینی پچاس روپے سے ایک سو دس روپے فی کلو تک پہنچ گئی اور آٹے کی قیمتوں نے غریب کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل بنا دیا ہے۔ یہ تازہ خبر ہی پڑھ لیں: ''حکومت کی جانب سے اربوں روپے مالیت کی 15 لاکھ میٹرک ٹن سے زائد گندم درآمد کرنے کے باوجود ملک میں آٹا مہنگا ہوگیا۔ ایک ہفتے میں پشاور میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 130، سکھر 80 اور کوئٹہ میں 15روپے مہنگا ہوا جبکہ کراچی کے شہری ملک میں سب سے مہنگا آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔ ادارۂ شماریات کی دستاویز کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے کے دوران پشاور میں آٹے کا بیس کلو کا تھیلا 1330 روپے، سکھر میں 1200 روپے کا ہو گیا ہے جبکہ کوئٹہ میں آٹے کا تھیلا 1265 روپے اور کراچی میں یہ1340 روپے تک میں فروخت ہو رہا ہے۔ اسی طرح حیدر آباد میں 1240 روپے، بنوں میں 1150، خضدار 1200 اور ملتان میں آٹے کا20 کلو کا تھیلا 1200 روپے تک فروخت ہو رہا ہے، کیا یہ کرپشن نہیں ہے؟ کیا اسے روکنا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے؟ کیا قیمتوں پر عمل درآمد کروانا حکومت کا کام نہیں ہے؟
پاکستانی قوم سادہ لوح ضرور ہے‘ انتخابی نعروں اور روایتی وعدوں سے جھانسے میں بھی آ جاتے ہیں لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ ملک کے ایک عام غریب شہری کو کسی بھی سیاسی لیڈر سے زیادہ اپنے بچے عزیز ہوتے ہیں اوراگر غریب کے بچوں کو دو وقت کی روٹی نہیں ملے گی‘ ادویات کی قیمتیں دو سو فی صد بڑھنے سے اگر غریب آدمی انہیں خرید نہیں پائے گا تو پھر وہ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی جان بچانے کے لئے یا تو جرم کی طرف مائل ہو گا یا خود کشی کرنے پر مجبور ہوگا۔ اب بھی وقت ہے، اس صورتِ حال کا فوری نوٹس لیں اور مہنگائی کے سیلاب کے آگے بند باندھیں۔ بیان بازی سیاستدانوں کاحق ہے لیکن مہنگائی کنٹرول کرنا ان کا اولین فرض ہے۔ جلدی کریں عوام آدمی کے ریلیف کے لیے اقدامات کریں، یہ جن بے قابو ہو رہاہے‘ ایسا نہ ہو یہ سب کیلئے ضرر رساں بن جائے۔