پاکستان شاید دنیا کاواحد ملک ہے جس میں کروڑوں روپے کی لاگت سے سڑک بنتی پہلے ہے اور اس کی منصوبہ بندی بعد میں کی جاتی ہے۔ یہ بات صرف سڑکوں کی تعمیر تک ہی محدود نہیں بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے بیشتر منصوبے بغیر پلاننگ کے ہی شروع کئے جاتے ہیں، اسی لئے ان کی لاگت میں کئی گنا اضافے کے باوجود ان کی افادیت کم ہو جاتی ہے۔ بلدیاتی یا عام انتخابات سے قبل ووٹروں کو رام کرنے کیلئے چھوٹی چھوٹی ترقیاتی سکیموں کے جال بچھا دیے جاتے ہیں لیکن عجلت میں ان سکیموں کی نہ تو باقاعدہ منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور نہ ہی سروے وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے بلکہ بسا اوقات تو ووٹروں کو یقین دلانے کیلئے ٹینڈر سے بھی پہلے ترقیاتی کام شروع کر دیا جاتا ہے۔ ایسی سکیموں میں زیادہ تر گلیوں اور نالیوں کی تعمیر، رابطہ سڑکوں، نئی آبادیوں میں بجلی و گیس کی فراہمی کے منصوبے، پیڈسٹیرین بریج، سیوریج لائنیں، واٹرسپلائی کے منصوبے، سٹریٹ لائٹس کی تنصیب، پبلک پارکس اورکھیل کے میدانوں کا قیام وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ کئی بار جلد بازی میں شروع کی جانے والی سکیمیں پہلے سے جاری اربوں روپے لاگت کے منصوبوں کو برباد کر دیتی ہیں اور قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچانے کے ساتھ عوامی مشکلات میں بھی اضافہ کرتی ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ شہر کے اندر ایک سڑک بنتی ہے یا مرمت کاکام مکمل ہوتا ہے تو اچانک ایک دن نو تعمیر شدہ سڑک کی دوبارہ کھدائی شروع کر دی جاتی ہے، پوچھنے پر پتا چلتا ہے کہ اب علاقے میں گیس پائپ لائن بچھانی ہے۔ پھر گیس پائپ لائن کیلئے سڑک کو توڑ پھوڑ دیا جاتا ہے، کئی ماہ تک لوگوں کو مشکلات سے دوچار کرنے کے علاوہ قومی دولت بھی ضائع کر دی جاتی ہے اور نئی سڑک کا بھی بیڑہ غرق کر دیا جاتا ہے۔ پائپ لائن کی تنصیب کے بعد ٹھیکیدار اکثر کھودی گئی سڑک کی مرمت کا کام صرف مٹی یا ملبہ ڈال کر چھوڑ جاتے ہیں اور یوں عوام کیلئے ایک نئی مصیبت کھڑی کر دی جاتی ہے جس سے حادثات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔
گیس پائپ لائن کا کام مکمل ہو جائے تو پھر حکام کو بجلی کا کوئی منصوبہ یاد آ جاتا ہے اور رہی سہی کسر کھمبوں کی تنصیب یا زیر زمین برقی تاروں کی لائنیں بچھانے میں پوری کر دی جاتی ہے، بعض اوقات تو بجلی کے پول یا ٹرانسفارمر عین چوراہے یا سڑک کنارے لگا دیے جاتے ہیں اور اس طرح لگائے جاتے ہیں کہ ان کی وجہ سے گاڑیوں وغیرہ کا گزرنا محال ہو جاتاہے۔ بجلی اور گیس سپلائی کا کام مکمل ہونے کے بعد اہل علاقہ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ لائنوں کی ضرورت محسوس کرنے لگتے ہیں‘ اس محکمے کے ٹھیکیداروں کو بھی نئی لائنوں کی تنصیب کا سب سے مناسب روٹ وہی سڑک نظر آتی ہے اور یوں ایک بار پھر نو تعمیر شدہ سڑک کو ادھیڑ دیا جاتا ہے۔ علاقے میں ٹیلی فون کی سہولت میسر ہو جائے تو پھر یاد آتاہے کہ واٹر سپلائی اور سیوریج کی پائپ لائنیں ضرورت پوری نہیں کر رہیں اور نئی پائپ لائن بچھانا پڑے گی، اس کے لئے پہلے سے زیادہ چوڑائی و گہرائی پر مشتمل کھدائی کا کام کیا جاتا ہے جو طویل عرصہ تک مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لیتا اور جب مکمل ہوجائے تو اس کے بعد سڑک کی مرمت کا کام کئی برسوں تک لٹک جاتا ہے۔ سڑکوں پر کھلے مین ہول بھی عوام کیلئے دردِ سر بن جاتے ہیں اور اکثر سیوریج لائنوں کی تنصیب کے بعد مین ہولز کھلے چھوڑ دیے جاتے ہیں یا پھر ایسے ناقص کوالٹی کے ڈھکن لگائے جاتے ہیں جو بھاری ٹریفک گزرنے سے ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات نشے کے عادی افراد لوہے کے ڈھکن چوری کر لیتے ہیں، یہ سب کچھ ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔
اگر اربابِ اختیار کسی بھی سڑک کی تعمیر سے پہلے ٹھیکیدار کو اس بات کا پابند بنائیں کہ وہ بجلی، گیس، ٹیلی فون اور پانی و سیوریج کے محکمہ جات سے این او سی حاصل کرے کہ اتنے سال تک ان سڑکوں پر کھدائی کا کوئی کام نہیں کیا جائے گا اور جو محکمہ این او سی جاری کرنے کے بعد کسی کام سے سڑک کی کھدائی کرے تو اسے پابند بنایا جائے کہ وہ سڑک کی کارپٹنگ کا کام بھی مکمل کرے، اس طرح قومی خزانے کو نقصان نہیں پہنچے گا اور عوام زحمت سے بھی بچ جائیں گے۔
بعض سیاستدان انتخابی مہم کے دوران منصوبہ بندی اور منظوری کے بغیر اہل حلقہ کو راضی کرنے کیلئے سڑک بنانے کیلئے بلڈوزر یا ٹریکٹر سے راستہ ہموار کرانا شروع کر دیتے ہیں، اس طرح وہ ووٹ لینے میں تو کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن اس کے بعد سڑک کی تعمیر کا منصوبہ کئی برسوں تک لٹکا رہتا ہے اور اس منصوبے کے خالق سیاسی لیڈر بجٹ کے منتظر رہتے ہیں تاکہ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں۔ انتخابات کے باعث شروع ہونے والی ترقیاتی سکیموں کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ حلقے کی ضرورت کے مطابق ترجیحات طے نہیں ہو پاتیں اور زیادہ ضروری منصوبے پس پشت چلے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں سڑک بناتے وقت پرانی سڑک کے اوپر ہی سڑک بنا دی جاتی ہے جس کے باعث نئی تعمیر ہونے والی گلیاں اور سڑکیں مکانات سے اونچی ہو جاتی ہیں اور بارشوں وغیرہ کا سارا پانی گھروں میں داخل ہو جاتا ہے اور شہریوں کیلئے پریشانی کا سبب بنتا ہے۔ منصوبہ بندی کے بغیر تعمیر ہونے والی گلیوں میں سیوریج لائنوں کا زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا اور شہریوں کو دوبارہ کھدائی کرنا پڑتی ہے اور لاکھوں روپے سے بننے والی گلی تباہ ہو جاتی ہے، اسی طرح‘ جب جس کسی مکین کا دل چاہتا ہے‘ واٹر سپلائی یا سیوریج کیلئے اپنے گھر کے سامنے نہ صرف گڑھا کھود دیتا ہے بلکہ پانی کی پائپ لائن کے ساتھ بھی اپنا ٹانکا فٹ کر لیتا ہے جس سے پختہ گلی تباہ ہونے کیساتھ ساتھ پانی کی لیکیج بھی شروع ہو جاتی ہے جو پانی کے ضیاع کے علاوہ کیچڑ وغیرہ کا باعث بھی بنتی ہے۔
ترقیاتی منصوبوں سے پہلے منصوبہ بندی کی اہمیت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی کے موازنے سے بھی واضح ہو جاتی ہے۔ اسلام آباد کا خوبصورت شہر ماسٹر پلان کے تحت آباد کیا گیا۔ سڑکیں، گلیاں، نالیاں، پارک، گرائونڈز اور مارکیٹیں ترتیب سے بنائی گئیں جن کی وجہ سے نہ تو اس شہر میں ٹریفک جام کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی بار بار سڑکوں کی کھدائی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس شہرِ اقتدار میں زندگی پُرسکون ہے جبکہ جڑواں شہر راولپنڈی اپنی تاریخی اہمیت کے باوجود تنگ و تاریک گلیوں، گنجان آباد محلوں اور بازاروں پر مشتمل ہے جہاں تجاوزات کی بھرمار ہے، بار بار سڑکوں کی کھدائی اور بڑھتی ہوئی ٹریفک کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر سڑکوں کے باعث یہ شہریوں کے لئے عذاب بنا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ شہر سے باہر نئی رہائشی کالونیوں میں نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیں۔ بے ہنگم ٹریفک اور شور شرابے نے لوگوں کاجینا محال کر رکھا ہے۔ اگر راولپنڈی، لاہور اور کراچی کی طرح دیگر شہر بھی فیڈرل کیپٹل کی طرح باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعمیر کیے جاتے تو انہیں اس قدر مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ خیر! اب قدیمی شہروں کو ماسٹر پلان کے مطابق بنانا تو ممکن نہیں؛ تاہم نئے ترقیاتی منصوبوں اور تعمیراتی کاموں میں پلاننگ تو بروئے کار لائی جا سکتی ہے۔ حکومت اور انتظامیہ کو چاہئے کہ شہری حدود میں کسی بھی کمرشل بلڈنگ کی منظوری سے پہلے پارکنگ سمیت تمام ضروری سہولتوں کو یقینی بنایا جائے، سڑکوں اور گلیوں کی پختگی سے قبل پانی، بجلی، گیس، ٹیلی فون اور سیوریج لائنوں کی تنصیب اور دیگر سہولتوں کی لائنوں کا کام مکمل کیا جائے تاکہ دوبارہ اکھاڑ پچھاڑ نہ کرنی پڑے۔ تجاوزات کاخاتمہ کر کے بھی شہری زندگی میں آسانیاں پیدا کی جاسکتی ہیں جبکہ ترقیاتی منصوبے علاقے کی ضروریات اور ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے جائیں اور ماہرین کی تجاویز کی روشنی میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ان کے نقشے، ٹینڈرز اور دیگر مراحل کو مکمل کر کے ٹھیکیداروں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ منصوبے پر کام شروع کرنے سے قبل تمام متعلقہ محکمہ جات اور اداروں سے این او سی حاصل کریں تاکہ کسی بھی سکیم کی تکمیل کے بعد اس میں توڑ پھوڑ نہ کرنی پڑے۔