پاکستانی قوم اللہ تعالیٰ کاجتنا بھی شکر اداکرے‘ کم ہے کیونکہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران دیگر ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں ہمارا بہت کم نقصان ہوا اور اب دوسری لہر کی شدت بھی کم ہونے لگی ہے۔ یہ قدرت کی خاص مہربانی ہی ہے‘ ورنہ ہم نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، خصوصاً دوسری لہر کے دوران ہمارا حد سے زیادہ پُراعتماد ہونا ہرگز عقل مندی نہیں۔ اس کی مثال ایسے سمجھیے کہ جن علاقوں میں انتظامیہ نے کورونا وائرس سے بچائو کے لئے احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل درآمد کرایا‘ وہاں اب عالمی وبا کی شدت کم ہو چکی ہے لیکن جن شہروں میں عوام نے غیر دانشمندانہ دلیری کا مظاہرہ کیا اور حکومت اور عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے جاری کردہ ایس او پیز کو یکسر نظر انداز کیے رکھا‘ وہاں آج بھی کووڈ 19 میں کمی آنے کے بجائے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملک میں وبائی صورتحال کنٹرول میں ہونے کے ساتھ حکومت نے یہ خوش خبری بھی سنا دی ہے کہ آئندہ ہفتے سے پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا کے سدباب کے لیے ویکسی نیشن مہم شروع کر دی جائے گی اور سب سے پہلے وبا کے دوران صفِ اول میں کام کرنے والے ہیلتھ ورکرز کو حفاظتی ٹیکے لگائے جائیں گے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق پاکستان میں600 ویکسی نیشن سنٹرز قائم کر دیے گئے ہیں اور ویکسی نیشن کے لیے چار لاکھ ہیلتھ ورکرز رجسٹر ہو چکے ہیں۔ دوست ملک چین نے پاکستان کو ویکسین کی5 لاکھ خوراکیں عطیہ کی ہیں جو اگلے ہفتے سے لگائی جائیں گی لیکن کورونا کی پہلی لہر کی طرح عوام کو اب بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی)نے کورونا ایس او پیز کے حوالے نئے احکامات جاری کر دیے ہیں اور ملک بھر میں رات دس بجے تک آئوٹ ڈور ہوٹلوں اور یسٹورنٹس کو بند کرنے کی پابندی ختم کر دی گئی ہے؛ تاہم ریسٹورنٹس کے اندر بیٹھ کر کھانے پر پابندی بدستور قائم رہے گی۔ کورونا ایس او پیز میں 28 فروری تک توسیع کر دی گئی ہے جن کے مطابق ہر شخص کے ماسک پہننے، تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں آدھے سٹاف کے گھر سے کام کرنے اور تجارتی مراکز کو رات دس بجے تک بند کرنے کی پابندیاں برقرار رہیں گی۔ تفریحی پارکس کو شام 6 بجے بند کیا جائے گا، شادی ہالز کے اندر تقریبات کرنے اور بڑے پیمانے پر اجتماع کے انعقاد پر بھی پابندی ہو گی۔ این سی او سی نے ملک بھر میں تمام تعلیمی اداروں کو یکم فروری2021ء سے کھولنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔
راولپنڈی میں بھی انتظامیہ کی جانب سے ایس او پیز پر عمل درآمد کے باعث اب کورونا کا زور ٹوٹ چکا ہے اور وبائی مرض کے دوران شہر میں قائم کئے جانے والے فیلڈ ہسپتال اور ریلیف سنٹر عملی طور پر ختم کر دیے گئے ہیں۔ چند روز قبل ان دونوں مراکز کا سامان محکمہ صحت کے ضلعی دفتر منتقل کر دیا گیا۔ کچھ ہفتے پہلے تک راولپنڈی میں کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا تھا جبکہ ملک کے دیگر شہروں کی نسبت شرح اموات بھی یہاں زیادہ تھی لیکن اب اللہ کے فضل و کرم سے کووڈ 19 کی وبا پر تقریباً قابو پا لیا گیا ہے۔ روزانہ کورونا متاثرین اور اس وبا سے ہونے والی اموات میں 80 فیصد تک کمی آ چکی ہے جس کے بعد شہباز شریف سپورٹس کمپلیکس میں قائم کورونا فیلڈ ہسپتال اور لیاقت باغ منی سپورٹس کمپلیکس میں قائم کورونا ریلیف سنٹر سے سامان محکمہ صحت کے ضلعی ہیڈ کوارٹر منتقل کر دیا گیا ہے۔ محکمہ صحت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ضلع راولپنڈی میں کورونا کی صورتِ حال روز بروز بہتر ہو رہی ہے اور وائرس میں کمی آ رہی ہے؛ تاہم ایس او پیز پر عمل درآمد جاری رہے گا تا کہ وبا کو دوبارہ پھیلنے سے روکا جا سکے۔
اگرچہ ملک بھر میں مجموعی طور پر کورونا کیسز کا گراف نیچے جا رہا ہے اور گزشتہ ہفتے کی نسبت کیسز کی شرح میں 16.5فیصد کمی آئی ہے؛ تاہم بعض شہروں میں کورونا وائرس میں مزید اضافے کی خبریں بھی آ رہی ہیں جن کے بعد انتظامیہ نے لاہور، گوجرانوالہ، حافظ آباد اور گجرات کے کئی علاقوں میں سمارٹ لاک ڈائون لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ لاہور کے 16، گوجرانوالہ، گجرات کے ایک ایک اور حافظ آباد کے مزید 3 علاقوں میں سمارٹ لاک ڈائون لگایا گیا ہے۔ اس صورتِ حال سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اب بھی احتیاط اتنی ہی ضروری ہے۔ جن علاقوں میں لوگ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور ایس او پیز کو نظر انداز کر رہے ہیں‘ ان علاقوں میں آج بھی کورونا کیسز کی صورتحال ویسی ہی ہے۔ سمارٹ لاک ڈائون اور احتیاطی تدابیر کے حوالے سے راولپنڈی ایک بہترین مثال کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے جہاں چند ہفتے قبل سب سے زیادہ شرح اموات تھی لیکن اب صورتحال قابو میں آ چکی ہے۔ ملک بھر میں ہم ایس او پیز پر عمل پیرا ہوکر اس وبا کوشکست دے سکتے ہیں۔ اگرچہ وائرس کے پھیلائو کی شدت میں کمی آئی ہے لیکن وائرس ختم نہیں ہوا۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران پاکستان میں 1644 نئے کیسز رپورٹ ہوئے جس کے بعد ملک میں کل کیسز کی تعداد 5لاکھ 41 ہزار 31ہو گئی ہے۔ اب تک 4 لاکھ 96 ہزار 745 مریض صحت یاب ہو چکے ہیں جبکہ 11 ہزار 560 افراد اب تک کورونا کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اس وقت بھی 2 ہزار 147 مریضوں کی حالت تشویش ناک ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں کورونا سے 46 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ گزشتہ سے پیوستہ روز 64 افراد کووڈ کے سبب ہلاک ہوئے۔ دوسری طرف دنیا بھر میں گزشتہ روز 16ہزار افراد کورونا کے سبب ہلاک ہوئے۔ پوری دنیا میں کورونا کے سبب ہلاکتیں 22لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ برطانیہ میں تعلیمی اداروں کی بندش میں 8 مارچ تک کی توسیع کر دی گئی ہے، ہنگری میں کورونا کے باعث ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا گیا ہے، ناروے نے اپنی سرحدیں مکمل طور پر بند کر دی ہیں جبکہ ویتنام میں‘ جہاں کورونا وائرس کا خاتمہ ہو گیا تھا‘ دو ماہ بعد دوبارہ کورونا کیس رپورٹ ہوا ہے۔ روس، میکسیکو، انڈونیشیا، ایران اور پولینڈ جیسے ممالک میں تاحال ہر روز دسیوں ہزار نئے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں جبکہ مذکورہ ممالک میں شرح اموات بھی کافی بلند ہے۔ گزشتہ روز میکسیکو میں 15سو سے زائد افراد کورونا کے سبب ہلاک ہوئے۔ یہ حقائق بڑی نازک صورتِ حال کی نشاندہی کر رہے ہیں اور متقاضی ہیں کہ اب پہلے سے زیادہ احتیاط کی جائے تاکہ عالمی وبا وطن عزیز میں دوبارہ پنجے نہ گاڑ سکے۔
ان حالات میں فیس ماسک کااستعمال بے حد ضروری ہے اوراب توقوم کواس کی عادت ہوجانی چاہئے لیکن افسوس کہ گلی، محلے، سڑک، بازار، ٹرانسپورٹ اڈوں،ریلوے سٹیشنوں، میٹروبس سٹاپس، پارکس اور اجتماعات سمیت ہم کہیں بھی فیس ماسک، سماجی فاصلے اوردیگر ایس اوپیز پر عمل نہیں کررہے، مصافحہ کرنے اور گلے ملنے سے بھی اب اجتناب نہیں کیاجارہا۔ تجربہ یہی کہتاہے کہ جب تک تمام شہروں اور اضلاع کی انتظامیہ سختی نہیں کرے گی اس وقت تک بہتر نتائج کی توقع عبث ہے؛ تاہم عوام کو خود بھی احساس کرنا چاہیے اور اپنی اور دوسروں کی صحت کا خیال رکھنا چاہئے۔ فی الحال صرف پانچ لاکھ ویکسین چین سے پاکستان آ رہی ہیں جو بائیس کروڑ آبادی کے لئے قطعی ناکافی ہیں جبکہ حکومت کے مطابق ملک بھر میں 8کروڑ افراد کی ویکسی نیشن کی ضرورت ہے۔ اس لیے اس وبا سے بچنے کا بہترین طریقہ احتیاط ہی ہے کیونکہ ویکسین ملے یا نہ ملے‘ کورونا سے بچائو کے لیے ایس او پیز پرعمل پیرا ہونا ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔