بیروزگاروں سے لوٹ مار؟

چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک اشتہار وائرل ہوا جس میں گریڈ 17 کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر، تحصیل آفیسرز اور اسسٹنٹ کوچز سمیت سات سو چھتیس پُرکشش اسامیوں کیلئے پاکستان اور آزاد جموں وکشمیر کے شہریوں سے درخواستیں طلب کی گئی تھیں۔ یہ اشتہار اتنی مہارت سے تیار کیا گیا تھا کہ اس سے سو فیصد سرکاری ملازمت کا تاثر ملتا تھا۔ اشتہار مختلف وٹس ایپ گروپوں میں وائرل کیا گیا جس کی وجہ سے یہ ملک بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا اور بیروزگاری سے عاجز لاکھوں کھلاڑی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے اسے اپنے سہانے خوابوں کی تعبیر سمجھ لیا۔ بطور سپورٹس رائٹر راقم الحروف سے سینکڑوں لوگوں نے اس اشتہار میں دی گئی اسامیوں بارے سوالات کیے مگر اشتہار کو بغور پڑھنے کے بعد میرا ایک ہی جواب تھا کہ اس میں نہ تو کسی مستند ادارے کا نام ہے اورنہ ہی کوئی ایڈریس یا رابطہ نمبر دیا گیا ہے جس سے کوئی امیدوار معلومات حاصل کر سکے یا اس کی تصدیق ہو سکے۔ مہنگائی اور بیروزگاری کے اس دور میں‘ جہاں حکومت اور اس کے ماتحت ادارے ایک ایک اسامی کی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں مؤثر تشہیر کرتے ہیں‘ حیرت کی بات یہ تھی کہ 736 پُرکشش اسامیوں کیلئے جاری شدہ اشتہار نہ تو کسی نے اخبار میں دیکھا اور نہ ہی متعلقہ وزارت سمیت کسی مستند ادارے نے کہیں ان بھرتیوں کاذکر کیا۔
تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ سوشل میڈیا پر وائرل گمنام اشتہار کے ذریعے بیروزگار پڑھے لکھے نوجوانوں سے 700 سے زائد ان اسامیوں کیلئے درخواست فیس کی مد میں کروڑوں روپے لوٹ لیے گئے۔ درخواستیں چاروں صوبوں، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے شہریوں سے آن لائن طلب کی گئی تھیں مگر اشتہار میں لاکھوں درخواستیں وصول کرنے والے ادارے کا کوئی ایڈریس یا رابطہ نمبر نہیں تھا۔ حیران کن طور پر اس کے آخر میں درخواستوں کی پراسیس فیس کے نام پررقوم بٹورنے کیلئے 4 مختلف بینکوں کے اکائونٹس نمبر دیے گئے تھے۔ اس گمنام اشتہار کے ذریعے ایک ویب سائٹ پر شہریوں سے درخواستیں طلب کی گئی تھیں۔ مشتہر کی گئی اسامیوں میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کیلئے 122، تحصیل آفیسر کیلئے 451، اسسٹنٹ کوچ کیلئے 70، بورڈنگ آفیسر کیلئے 2، نیٹ ورک سپروائزر کیلئے 9، سب انجینئر کیلئے 12، آئی ٹی کمپیوٹر اسسٹنٹ کیلئے 20، سی سی ٹی وی آپریٹر کیلئے 6 اور مالی کیلئے 44 درخواستیں طلب کی گئی تھیں۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر گریڈ 17 کی اسامیوں کیلئے پراسیس فیس 500 روپے جبکہ دیگر اسامیوں کیلئے 400 روپے فی درخواست وصول کی گئی۔ متعدد بیروزگار نوجوانوں نے ایک سے زائد اسامیوں پر درخواستیں جمع کرائیں۔ اشتہار میں دی گئی ہدایات اور شرائط میں درج تھا کہ صرف شارٹ لسٹڈ امیدواروں کو انٹرویو کیلئے بلایا جائے گا، یعنی امیدوار طویل انتظار کے بعد یہی سمجھنے لگیں کہ ان کا نام شارٹ لسٹ میں نہیں آ سکا اور اپنے پیسوں کے ضائع ہو جانے یا ناجائز طریقوں سے دوسروں کی جیب میں جانے کے بارے وہ زیادہ نہ سوچیں۔ دیگر شرائط میں یہ درج تھا کہ بھرتیاں 3 سالہ کنٹریکٹ کی بنیاد پر کی جائیں گی جن کی مدت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اشتہار میں درج ویب سائٹ پر رابطہ ایڈریس پاکستان سپورٹس کمپلیکس جی سکس اسلام آباد کے مقابل لکھا ہوا تھا۔ اب یہ وہ علاقہ ہے جہاں پچھلے 28 برس سے تقریباً روزانہ دن میں متعدد بار گزر ہوتا ہے‘ ڈھونڈنے اور اردگرد سے پوچھنے کے باوجود ایسا کوئی دفتر نہیں مل سکا اور نہ ہی کسی نے ان اسامیوں کی تصدیق کی۔
حکومت کو چاہئے کہ ایف آئی اے یا کسی بھی اعلیٰ تحقیقاتی ادارے سے مذکورہ ویب سائٹ پر دیئے گئے چاروں بینک اکائونٹس کی مکمل چھان بین کرائے کہ کس ادارے نے کون سے پروجیکٹ کیلئے یہ اشتہار دیا کیونکہ موجودہ دور میں بینک اکائونٹ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ اور بائیومیٹرک تصدیق کے بغیر تو نہیں کھل سکتے، خصوصاً کسی تنظیم کے نام پر اکائونٹ کھلوانا تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور اس پُراسرار اور مشتبہ اشتہار میں ایک نہیں بلکہ چار بینکوں کے اکائونٹس نمبر دیے گئے تھے جن میں لاکھوں بیروزگار نوجوانوں نے درخواست فیسوں کی مد میں بھاری رقوم جمع کرائیں۔ اکائونٹس نمبروں کے ذریعے معاملے کی تہہ تک پہنچنا زیادہ مشکل نہیں۔ اگر یہ قوم کے بیروزگار نوجوانوں سے فراڈ ہے تو یہ ایک انتہائی گھنائونا فعل ہے اور پھر ایک ایسی حکومت کے دور میں جن کی سیاست کی بنیاد ہی کرپشن کے خلاف ہے۔ نوجوانوں سے اتنا بڑا فراڈ معاملے کومزید سنگین بنا دیتا ہے، لہٰذا وزیراعظم کو فوری طور پر اس بات کا سخت نوٹس لینا چاہیے اور اس میں ملوث تمام کرداروں کو قرار واقعی سزا دی جانی چاہئے تاکہ آئندہ کسی کو اس قسم کے فراڈ کی جرأت نہ ہو سکے اور امیدواروں کو ان کی رقوم واپس دلائی جائیں۔
اب ہم تصویر کے دوسرے رخ کی جانب آتے ہیں اور اس اشتہار کو سو فیصد درست مان لیتے ہیں۔ اگر یہ اشتہار واقعی درست تھا اور حقیقت میں گریڈ 17 کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر، تحصیل آفیسرز، اسسٹنٹ کوچ ، بورڈنگ آفیسر، نیٹ ورک سپروائزر، سب انجینئر، آئی ٹی کمپیوٹر اسسٹنٹ، سی سی ٹی وی آپریٹر اور مالی کیلئے 736 درخواستیں طلب کی گئی تھیں تو پھر اسامیوں کو قومی اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بھرپور اور موثر طریقے سے مشتہر کیوں نہیں کیا گیا تاکہ ہر ضرورت مند تعلیم یافتہ نوجوان تک معلومات پہنچتیں اور امیدواران میرٹ پر اپلائی کر سکتے۔ یہ ایسا کون سا اتنا بڑا پروجیکٹ ہے جس کے بارے میں متعلقہ کسی مستند سرکاری ادارے کو علم ہی نہیں۔ اشتہار میں کوئی رابطہ نمبر یا ایڈریس کیوں نہیں دیا گیا جہاں سے لوگ ان اسامیوں کے بارے معلومات حاصل کر سکتے۔ ویب سائٹ میں درج ہیڈ آفس کا مکمل پتا کیوں نہیں اور ایک نامکمل و مبہم ایڈریس کیوں دیا گیا؟
اشتہار پڑھنے سے کم از کم اس بات کا اندازہ تو ہو جاتا ہے کہ اس کی تیاری میں ممکنہ طور پر کسی سرکاری ادارے کے لوگ ملوث ہو سکتے ہیں کیونکہ ایک امیدوار کا یہ بھی کہناہے کہ اس نے متعلقہ ادارے سے معلومات حاصل کیں تو اسے بتایا گیاکہ آپ آن لائن اپلائی کریں اور آپ کو آن لائن ہی کال آئے گی۔ اٹک سے ایک امیدوار نے بتایا کہ اس نے سوشل میڈیا پر اشتہار دیکھ کر اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی 2 اسامیوں کیلئے اپلائی کیا اور ایک ہزار روپے پراسیس فیس جمع کرائی۔ جب اس سے سوال کیا گیا کہ کیا اس نے مذکورہ تنظیم کے دفتر کا دورہ کیا یا کسی فون نمبر پر کسی سے کوئی بات ہوئی تو اس نے کہاکہ ویب سائٹ یا درخواست فارم پر کوئی رابطہ نمبر یا مستند ایڈریس تحریر نہیں تھا، چونکہ وہ پہلے اسی طرح کی ایک اسامی پر صوبہ پنجاب میں بطور کنسلٹنٹ ایک سال کام کر چکا تھا‘ اس لئے اس نے قسمت آزمائی کی کہ شاید گریڈ 17 کی ملازمت مل جائے۔ اس امیدوار نے بتایا کہ اس نے اس حوالے سے متعلقہ محکمے کے ترجمان سے بھی رابطہ کیا تو ترجمان نے کہا: اس اشتہار سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، یہ اشتہار ہمارا ہے نہ ہم نے دیا اور اس بارے ہمیں کوئی علم نہیں۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہزاروں لوگ مذکورہ اشتہار بارے معلومات لینے کیلئے سرکاری اداروں میں پھرتے رہے لیکن کسی بھی سرکاری افسر نے اس کی تصدیق یا تحقیق کی زحمت نہیں کی، کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا اور کسی نے بیروزگار نوجوانوں کو صحیح گائیڈ نہیں کیا۔ اگر مشتہر کی گئی اسامیاں کسی حساس نوعیت کی ہوتیں تو کہا جا سکتا تھا کہ شاید قومی مفاد میں رابطہ نمبر یا ایڈریس نہیں دیاگیا لیکن یہ ساری اسامیاں تو عام تھیں، ان میں کوئی بھی کسی حساس نوعیت کی اسامی درج نہیں تھی اور نہ ہی اس وقت ملک میں ایسا کوئی بڑا پروجیکٹ شروع ہونے والا ہے جس کے لیے فوری طور پر سینکڑوں خالی اسامیوں کو پُر کیا جاتالہٰذا بادی النظر میں یہ اشتہار فراڈ اور لوٹ مار کا ایک نیا سلسلہ نظر آتا ہے جس میں بیروزگار نوجوانوں کو نشانہ بنایا گیا لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر تحقیقات کرائے کہ بیروزگار نوجوانوں سے لوٹ مار کرنے والے کون تھے؟ اور اس مافیا کو بے نقاب کرے تاکہ آئندہ کسی کو سرکاری ادارے کا تاثر دیتے ہوئے ایسا اشتہار دینے کی جرأت نہ ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں