اب بھی موقع ہے‘ خوشیاں بانٹیں

آج بھی یاد کریں تو کچھ عرصہ قبل کی بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمارے بچپن میں عید کا انتظار کئی کئی ماہ پہلے ہی شروع ہو جاتا تھا۔ عید پر ہر طرف عید کارڈز، مہندی اور چوڑیوں کے سٹالز سج جاتے تھے، عزیز و اقارب کی دعوتیں اور عید ملن پارٹیاںدو‘ دو ماہ پہلے طے ہو جاتی تھیں، خصوصاً عیدالاضحی پر قربانی کے لیے جانور کم از کم دو سے تین ماہ پہلے خریدا جاتا تھا اور پھر بڑے ناز سے اس کی خدمت کی جاتی تھی۔ شہر شہر اورگائوں گائوں میلے سجتے، رونقیں ایسی ہوتیں کہ واقعی عید کا مزا دوبالا ہو جاتا۔ اب تو عید رویت ہلال کمیٹی کے اعلان سے شروع ہوتی ہے اور عید کی نماز پڑھنے کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔ عیدالاضحی جو پہلے مکمل سہ روزہ تہوار ہوتا تھا‘ اب قربانی کے فریضے کی تکمیل کے ساتھ ہی انجام کو پہنچ جاتی ہے۔ اس بار ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا، عید کے دوسرے دن گائوں میں قربانی کی اور پھر واپس راولپنڈی آ گئے کیونکہ اگلے روز ڈیوٹی پر پہنچنا تھا۔ ویسے بھی اس بار سرکاری طور پر عید کے دو دنوں کی ہی چھٹی تھی اور بے شمار لوگوں کی عید ادھوری رہ گئی۔
دوسری جانب مہنگائی، بیروزگاری اور موجودہ سائنسی دور نے تو عید کی حقیقی خوشیاں بھی چھین لی ہیں۔ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ عید صرف امیروں کا تہوار بن کر ہی رہ گئی ہے، غریب اورسفید پوش افراد تو محض مذہبی فریضہ سمجھ کر عید کا تہوار مناتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ہم قربانی کے لیے بکرے عید سے کئی ماہ پہلے خرید لیتے تھے اور پھر روزانہ شام کو انہیں باہر چرانے کے لیے لے کر جاتے تھے۔ خوبصورت رسیاں اور گلے میں ٹلی (گھنٹی) باندھ کر محلے میں بڑے فخر سے انہیں گھماتے تھے، عید والے دن ہمارے دوست اور رشتہ دار قربانی کرنے کے لیے جمع ہو جاتے تھے۔ اس وقت علاقے میں گوشت کی تقسیم کی روایت بھی بڑی خوبصورت تھی، یعنی جانور کی خریداری سے گوشت کی تقسیم تک‘ عید کی خوشیاں بھرپور انداز میں منائی جاتی تھیں۔ اب تو عید سے ایک یا دو روز قبل جانور خریدا جاتا ہے، گھر لانے کے بعد اس جانور کے چارے اور پانی کا خاص انتظام کرنے کے بجائے سیلفیاں لینے اور ٹک ٹاک وڈیو بنانے میں ہی سارا وقت گزار دیا جاتا ہے۔ اکثر تو ایسے بھی دیکھا کہ لوگ عید کے پہلے یا دوسرے روز منڈی جا کر قربانی کا جانور خریدتے ہیں کیونکہ ان کے پاس جانور رکھنے یا باندھنے کی جگہ نہیں ہوتی اور بعض لوگ اس لیے بھی آخری دن کا انتظار کرتے ہیں کہ شاید ریٹ کچھ کم ہو جائیں۔ قربانی کے لیے بھی اب دوستوں اور عزیز و اقارب کو مدعو کرنے کے بجائے قصاب کے ساتھ ذبح اور گوشت بنانے کا ٹھیکہ کر لیا جاتا ہے اور پھر اپنی گلی کے دو چار قریبی گھروں میں گوشت دینے کے بعد ڈیپ فریزر بھر لیا جاتا ہے‘ یعنی قربانی کی وہ روایتیں بھی دم توڑ چکی ہیں بلکہ اب تو اکثر لوگ اس بھی ایک قدم آگے بڑھ چکے ہیں اور آن لائن قربانی کی بکنگ کروا کر ہی یہ فریضہ ادا کر لیتے ہیں۔
عید چھوٹی ہوتی یا بڑی‘ کم از کم دو ماہ پہلے ہی عید کارڈز خرید لیے جاتے تھے اور ڈاک خانے والے بھی باقاعدہ طور پر اعلان کرتے تھے کہ فلاں تاریخ تک تمام عیدکارڈز عام ڈاک ٹکٹ پر بھیجے جا سکتے ہیں، ہم فہرست بناتے تھے کہ کس کس کو کارڈ بھیجنا ہے، پھر بڑی محنت سے عید کارڈز کو سجایاجاتا اور پھر لیٹر بکس کے حوالے کر دیا جاتا۔ اسی طرح عید سے کم از کم دو ہفتے قبل دوستوں اور پیاروں کی جانب سے عیدکارڈز موصول ہونا شروع ہو جاتے تھے۔ اب تو یہ روایت مکمل طور پر دم توڑ چکی ہے۔ عید کارڈز کی جگہ پہلے ایس ایم ایس نے لی، پھر فیس بک اور اب وٹس ایپ نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے، ایک ہی کارڈ ڈیزائن کر کے تمام رابطہ نمبروں پر بیک وقت بھیج کر یہ کام بھی نمٹا لیا جاتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ہماری والدہ صاحبہ اور دادی اماں چاند رات کو ہی حلوہ پکانا شروع کر دیتی تھیں، یہ ایک خاص قسم کا حلوہ ہوتا تھا جسے ہمارے علاقے میں مکھڈی حلوہ کہتے ہیں، عید کی صبح سب سے پہلے حلوہ ہی تقسیم کیا جاتا تھا اور عید ملنے کے لیے آنے والوں کی تواضع اسی روایتی سویٹ ڈش سے کی جاتی تھی لیکن اب تو عید کے روایتی پکوان بھی محدود ہو چکے ہیں۔ عید کی مبارک باد دینے کے لیے عزیزو اقارب کے گھر جانا اور دعوت و طعام کا اہتمام ماضی کی روایت بن چکا ہے۔ کئی گھروں میں عید والے دن بھی ہوم ڈلیوری سروس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور اگر غلطی سے مہمان آ بھی جائیں تو موبائل فون ایپ استعمال کی جاتی ہے اور چند منٹوں میں تیار کھانا گھر پہنچ جاتا ہے۔
آج بچپن کی خوشیوں بھری عیدوں کو یاد کر رہا تھا تو سوچ و بچار کا نتیجہ یہی نکلا کہ بیسویں صدی کی عید اور دورِ حاضر کی عید میں بڑا فرق آ چکا ہے، پہلے گائوں میں بیری کے کسی اونچے سے پیڑ کے ساتھ لمبی رسی کے ساتھ پینگ (جھولا) باندھنے کا رواج ہوتا تھا، جہاں خاندان کے تمام لڑکے اور لڑکیاں باری باری جھولا جھولتے اور خوب انجوائے کرتے تھے، آج کل جھولا جھولنا تو دور کی بات‘ ایک دوسرے سے عید ملنے اور گپ شپ کا رواج بھی معدوم ہو چکا ہے۔ عید پر لگنے والے میلے بھی ماضی کا حصہ بن چکے ہیں، اگرچہ دور دراز کچھ علاقوں میں یہ روایت اب بھی کسی شکل میں قائم ہے مگر سرکس اور موت کا کنواں وغیرہ اب کہیں نظر نہیں آتے، گائوں میں بیلوں کی دوڑ (میلے) کا انعقاد بھی اب سالوں بعد ہی ہوتا ہے۔
بچوں کو عیدی دینے کے لیے دس اور پچاس روپے والے نئے نوٹوں کی کاپیاں ایک ماہ پہلے ہی بینکوں میں بک کرا لی جاتی تھیں، اب نہ تو بچے دس‘ پچاس روپے عیدی لیتے ہیں اور نہ عیدی دینے والے اہتمام کے ساتھ بھانجوں اور بھتیجوں کو عید دینے جاتے ہیں، اب تو عیدی کا رواج بھی اپنی اولاد تک ہی محدود ہوتا جا رہا ہے اور جس تیزی سے ہماری خوبصورت روایتیں دم توڑ رہی ہیں ایسا لگتا ہے کہ آئندہ چند برس تک شاید اہل خانہ بھی عید والے دن سوشل میڈیا سٹیٹس کے ذریعے ہی ایک دوسرے کو عید مبارک کہیں گے۔
چند برس پہلے تک تو یومِ عرفہ یعنی حج والے دن بھی نئے کپڑے پہننے، تیار ہونے اور ایک دوسرے کومبارک باد دینے کارواج عام تھا لیکن اب جب عید کی مبارک دینے کا رواج سوشل میڈیا تک محدود ہو گیا ہے، حج کی مبارک باد کون دے گا؟ آج عید کی تیاریوں اور ماضی کاموازنہ کیا جائے تو آج کی عید صرف کیلنڈر کا ایک سرخ ہندسہ یعنی چھٹی کا دن اور ایک مذہبی فریضہ بن کر رہ گئی ہے، ماضی کی یاد میں کھویا تو جگجیت سنگھ کی گائی مشہور غزل یاد آ گئی؛
کڑی دھوپ میں اپنے گھر سے نکلنا
وہ چڑیا‘ وہ بلبل‘ وہ تتلی پکڑنا
وہ گڑیوں کی شادی پہ لڑنا جھگڑنا
وہ جھولوں سے گرنا‘ وہ گر کے سنبھلنا
وہ پیتل کے چھلّوں کے پیارے سے تحفے
وہ ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کی نشانی
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
اس سائنسی دور میں انسان اس قدر مصروف ہوتا جا رہا ہے کہ سماجی زندگی بہت محدود ہو چکی ہے، ہم سال بھر روزگار کی بھول بھلیوں میں مصروف رہتے ہیں، ایسے حالات میں ہم کم از کم عید جیسے مذہبی تہواروں پر تحائف کے ذریعے عزیز و اقارب اور دوستوں سے رابطے ضرور بحال کر سکتے ہیں۔ اب عید گزر چکی ہے لیکن ہمارے پاس اب بھی موقع ہے۔ جمع کیا گیا گوشت غریبوں، محلے داروں اور عزیز و اقارب میں تقسیم کرکے ہم انہیں اب بھی اپنی خوشیوں میں شریک کر سکتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں