اس بات میں تو کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ کورونا وائرس نے ایک مرتبہ پھر پلٹ کر حملہ کیا اور دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کچھ ممالک نے تو پچھلی لہروں سے سبق سیکھتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار کیں اور سنجیدگی کے ساتھ اس عالمی وبا کا مقابلہ کر کے اسے پسپا کیا تو بعض ممالک نے غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عالمی ادارۂ صحت کی جاری کردہ ہدایات پر صحیح اور بروقت عمل نہ کیا اور بہت زیادہ نقصان اٹھایا۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں حکومت کی نااہلی اور غلط پالیسیوں کے سبب ایک بار تو یہ وبا اس قدر بے قابو ہو گئی تھی کہ وہاں ہر روز ہزاروں افراد موت کے منہ میں جا رہے تھے جبکہ تین سے چار لاکھ نئے کیسز رپورٹ ہونے لگے تھے۔ اس کے برعکس اگر ہم اپنے وطن میں گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران وبائی صورتحال کاجائزہ لیں تو باقی دنیا کے مقابلے میں پاکستان پر اس مہلک وبا کے اثرات شروع سے ہی کمزور رہے ہیں اور یقینا اللہ تعالیٰ کا خاص کرم شاملِ حال رہا ورنہ نہ تو ہماری قوم نے احتیاطی تدابیر پر سو فیصد عمل کیا اور نہ ہی ہماری حکومتی پالیسیوں کی بنیاد کسی ٹھوس تجربے یا بہتر و مربوط منصوبہ بندی پر تھی۔ متعدد بار تو ایسا بھی ہوا کہ ایک سرکاری ادارہ صبح کوئی ہدایت نامہ جاری کرتا تو دوپہر تک کسی دوسرے ادارے کا کوئی ایسا حکم نامہ سامنے آ جاتا جو پہلے سے جاری ہونے والی ہدایات سے متضاد ہوتا اور پھر شام کو ایس او پیز کا کوئی نیا سرکلر جاری ہو جاتا جو پہلے سے جاری ساری پریکٹس کو رد کر دیتا تھا۔ ایک ادارہ شام چھ بجے دکانیں بند کرنے کا سرکلر جاری کرتا تو دوسرا محکمہ رات دس بجے تک کاروبار کی اجازت دے دیتا۔ صوبائی حکومت یا ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بعض اوقات لاک ڈائون کا نوٹیفکیشن سامنے آتا تو ایک ہی شہر میں‘ ہر تھانے کے پولیس اہلکار مختلف حکم نامے اٹھائے‘ اپنی مرضی یا ''ضرورت‘‘ کے مطابق دکانوں اور دیگر کاروباری مراکز کو بند کرواتے نظر آتے۔
ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی پوری دنیا اس وقت کورونا کی تباہ کاریوں کا شکار اور اس سے مقابلہ کرنے میں مصروف ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ ہمارے ہاں کورونا وائرس کی چوتھی لہر کو زیادہ پائوں پسارنے کا موقع نہیں مل سکا۔ حکومت اسے اپنی بڑی کامیابی قرار دیتی ہے لیکن سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس میں سرکار کی پالیسیوں کاکتنا عمل دخل ہے اور شہریوں نے خود کتنا احتیاطی تدابیر پر عمل کیا ہے۔ ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو صرف اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہی نظر آتاہے جس نے ہمیں بچائے رکھا۔ البتہ اِس تناظر سے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ ملکی ماہرین پاکستان کے اندر کورونا کی پہلی ویکسین کی تیاری کے حتمی مرحلے پر پہنچ گئے ہیں۔ اِس مقصد کے لیے ویٹرنری یونیورسٹی میں خرگوشوں، چوہوں اور بندروں پر تجربات کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے۔ اِن تجربات کے حتمی نتائج موصول ہونے کے بعد کورونا کی ملکی ویکسین کی متعلقہ اداروں سے منظوری حاصل کی جائے گی۔ ماہرین کے مطابق‘ پاکستان کی ویکسین پوری طرح محفوظ ہو گی۔ پاکستانی ویکسین مارکیٹ میں آنے کے بعد حکومت کا ایک اور امتحان شروع ہو جائے گا کہ اسے دوسرے ممالک اور عالمی ادارے کس حد تک تسلیم کرتے ہیں کیونکہ پہلے ہی چین اور روس سمیت مختلف ممالک کی ویکسین کے تنازعات ابھی تک ختم نہیں ہو سکے ہیں۔ کوئی ملک ایک ویکسین کو تسلیم کرتا ہے تو کوئی کسی دوسری ویکسین لگوانے والے لوگوں کو ہی اپنے ملک میں داخلے کی اجازت دیتا ہے۔ دنیا بھر میں بیک وقت اس عالمی وبا کے پھیلنے سے ویکسین کی طلب‘ رسد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے جس کی وجہ سے تمام کمپنیوں کی ویکسین ہرجگہ دستیاب نہیں ہو پاتی اور ہر شہری کو مجبوراً دستیاب ویکسین ہی لگوانا پڑتی ہے۔ پھر جب کوئی شہری ایک ویکسین لگوا لیتاہے اور اسے کسی ایسے ملک کا سفر کرنا ہو جہاں وہ ویکسین تسلیم نہیں کی جا رہی تو وہ دوبارہ دوسری ویکسین بھی نہیں لگوا سکتا کیونکہ طبی ماہرین نے یہ عمل خطرناک قرار دیا ہے۔
بظاہر پاکستان میں کورونا وائرس کی چوتھی لہر کا زور ٹوٹ چکا ہے اور ویکسی نیشن کا عمل بھی جاری ہے لیکن اس کے باوجود ابھی تک خطرہ ٹلا نہیں ہے۔ گزشتہ روز کے اعداد و شمار ہی دیکھ لیں تو ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران پاکستان بھر میں 4 ہزار 16 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، اس دوران 62 ہزار 496 نئے ٹیسٹ کیے گئے۔ واضح رہے کہ ملک بھر میں اب تک ایک کروڑ 75 لاکھ20 ہزار 285 افراد کے ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں۔ پورے ملک میں 11 لاکھ 44 ہزار 341 کورونا کیسز کی تصدیق ہوئی جن میں سے 10 لاکھ سے زائد مریض صحت یاب ہو چکے ہیں جبکہ 25 ہزار 415 افراد کورونا سے جانبر نہ ہو سکے۔ اس وقت بھی5 ہزار 515 مریضوں کی حالت تشویشناک ہے۔ یہ تمام اعداد و شمار اور زمینی حقائق ہمیں احتیاطی تدابیر پر سو فیصد عمل درآمد اور فوری طور پر ویکسین لگوانے کی تلقین کرتے ہیں۔ نئے کورونا کیسز میں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ 97 فیصد سے زائد کیسز وہ رپورٹ ہو رہے ہیں جنہوں نے اب تک ویکسین کی ایک بھی ڈوز نہیں لگوائی۔ دوسری طرف اگر ویکسی نیشن کے حوالے سے بات کی جائے تو پاکستان بھر میں اب تک 51 ملین یعنی پانچ کروڑ سے زائد ویکسین خوراکیں لگائی جا چکی ہیں۔ ڈیڑھ کروڑ سے زائد افراد کی ویکسی نیشن مکمل ہو چکی ہے جبکہ لگ بھگ چار کروڑ افراد کو ویکسین کی ایک ڈوز لگ چکی ہے۔
کورونا کے باب میں حکومتی پالیسیوں اور انتظامیہ و پولیس کے رویے میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے بھی شہریوں میں بداعتمادی اور غیر یقینی پائی جاتی ہے۔ اپنے اردگرد کورونا وائرس کی تباہ کاریاں دیکھنے کے باوجود لوگوں کے ذہنوں سے وہ خوف نکل چکا ہے جو پہلی لہر کے دوران پیدا ہوا تھا۔ لوگ اب یہی سمجھتے ہیں کہ شاید یہ وبا ختم ہو چکی ہے اور اب حکومت محض سیاسی یا انتظامی طور پر اسے ایک چال کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ گزشتہ دنوں ضلعی انتظامیہ کی نشاندہی پر حکومت پنجاب نے ضلع راولپنڈی کے اٹھائیس مقامات پر 10 اگست سے 20 اگست تک سمارٹ لاک ڈائون کا نوٹیفکیشن جاری کیا، ان مقامات میں راقم الحروف کا علاقہ بھی شامل تھا۔ سرکاری احکامات پڑھ کر مجھے پریشانی لاحق ہوئی مگر اہالیانِ علاقہ نے میری اس پریشانی کا مذاق اڑایا۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ نے عاشورا کے دوران کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اور غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کرنے کیلئے سمارٹ لاک ڈائون کا سہارا لیا ہے۔ اس نوعیت کی عوامی سوچ انتہائی پریشان کن اور خطرناک ہے کیونکہ ''شیر آیا‘‘ والا مذاق سمجھ کر اس سے بڑا عوامی نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ سخت احکامات کے باوجود ان دس دنوں میں انتظامیہ کی طرف سے لاک ڈائون پر ایک فیصد بھی عمل درآمد نہیں کرایا گیا اور صرف ہمارے علاقے میں نہیں بلکہ تمام اٹھائیس علاقوں میں یہی عالم تھا۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ سمارٹ لاک ڈائون کا دورانیہ ختم ہونے کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے دوبارہ ہفتے میں دو روز کاروبار بند رکھنے کے لیے جو احکامات جاری کیے گئے ہیں‘ ان سے ہماری پولیس خوب مستفید ہو رہی ہے اور انتظامیہ کا سارا زور بھی صرف رات آٹھ بجے دکانیں بند کرانے پر ہی مرکوز ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کورونا شاید اب رات آٹھ بجے کے بعد ہی پھیل رہا ہے۔
دوسری جانب وفاقی اور سندھ حکومت کی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی اور ان کے متضاد احکامات نے بھی عوام کو پریشان کر رکھا ہے۔ ایک تو یہ پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک طرف کاروبار اور جلسے‘ جلوسوں کی اجازت ہے لیکن جب بھی کوروناکیسز کا گراف بلند ہوتا ہے تو تعلیم اور کھیل کی سرگرمیوں پر قدغن لگا دی جاتی ہے یا پھر ریسٹورنٹس پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ حکومت کی مبہم اور غیر واضح پالیسیوں کے باعث ہی عوام غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں اور اتنا نقصان اٹھانے کے باوجود اب تک یہ نہیں جان پائے کہ کورونا کوئی سیاسی چال نہیں بلکہ واقعی ایک جان لیوا وبا ہے۔