حسبِ عادت صبح سویرے اخبار دیکھا تو ساری توجہ افغانستان سے آنے والی اس خبر پر مرکوز ہو گئی جس سے پوری دنیا کا بالعموم اور پاکستان کا بالخصوص امن و امان وابستہ ہے۔ خبر تھی ''امریکا کی افغانستان میں طویل ترین جنگ ختم ہو گئی۔ ڈیڈ لائن سے کچھ دیر قبل آخری فوجی دستہ بھی کابل سے نکل گیا۔ طالبان نے کابل ایئر پورٹ کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا۔ غیر ملکی فوجیوں کے انخلا پر کابل ہوائی فائرنگ سے گونج اٹھا۔ کابل میں آدھی رات سے کچھ دیر پہلے ٹرانسپورٹ طیاروں میں امریکی فورسز کے آخری دستے کے اہلکار روانہ ہوئے، آخری طیارے میں سوار ہونے والے آخری فوجی میجر جنرل کرس ڈونا ہو تھے۔ امریکی انخلا کے فوری بعد طالبان کابل ایئر پورٹ کے باقی رہ جانے والے حصے میں بھی داخل ہو گئے‘‘۔ 20 سالہ افغان جنگ میں لگ بھگ ڈھائی ہزار امریکی فوجی اور 3 ہزار 846 امریکی کنٹریکٹرز ہلاک ہوئے۔ اس جنگ میں نیٹو کے ایک ہزار 144 فوجی کام آئے۔ 20 سالہ اس جنگ میں امریکی حمایت یافتہ 66 ہزار سے زائد افغان فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے اپنی جان گنوائی۔ 47 ہزار سے زیادہ عام افغان شہری بھی اس جنگ کا نوالہ بنے۔ امریکی فوج سے نبرد آزما طالبان کے اور دیگر 51 ہزار سے زائد جنگجو مارے گئے جبکہ444 امدادی کارکن اور 72 صحافیوں نے بھی اس دوران اپنی جانوں کی قربانی دی۔ امریکی انخلا مکمل ہونے پرطالبان رہنما انس حقانی نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ امریکی اور نیٹو فورسز کے 20 سالہ قبضے کا خاتمہ ہو گیا ہے، ہم نے افغانستان میں ایک بار پھر تاریخ رقم کر دی ہے۔ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ آج افغانستان کو حقیقی آزادی ملی ہے۔
برطانیہ اورروس کے بعد تیسری عالمی طاقت امریکا کو بھی افغانستان میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیکن اس بار امریکا کو صرف جنگی محاذ پر ذلت آمیز شکست نہیں ہوئی بلکہ سابق امریکی صدر کے الفاظ تھے کہ تاریخ میں اس سے پہلے کبھی امریکا کو اتنی زیادہ ذلت و رسوائی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکی افواج افغانستان سے جس طرح رات کے اندھیرے میں دُم دبا کر بھاگی ہیں‘ شاید اس کی مثال تاریخ میں کم ہی ملے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی افغانستان میں انسانی المیے نے جنم لیا تو پاکستان نے ہمسایہ برادر اسلامی ملک کے پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرزمین کے دروازے کھول دیے۔ 1979ء میں 30 سے 40 لاکھ افغان باشندے پاکستان آئے تھے اور پھر ان کی اکثریت یہیں کی ہو کر رہ گئی۔ لاکھوں افغانوں نے یہاں شادیاں کر لیں، اب تو ان کے بچوں کی بھی شادیاں ہو چکی ہیں اور متعدد نے غیر قانونی ذرائع سے پاکستان کا قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی حاصل کر لیا اور بڑی بڑی جائیدادیں خرید لیں۔ لاکھوں افغان باشندوں نے یہاں کاروبار شروع کیے اور آج انتہائی کامیاب بزنس مین ہیں۔ سابق حکومت نے پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو اپنے وطن واپس بھیجنے کا عمل شروع کیا تو پاکستانی عوام میں امید کی ایک کرن اجاگر ہوئی تھی لیکن پھر نجانے کیا وجہ بنی کہ افغانوں کی وطن واپسی کا سلسلہ اچانک روک دیا گیا اور یہ سلسلہ ایسا رکا کہ پھر دوبارہ چلنے کا نام نہیں لیتا۔
اب امریکا کے افغانستان سے انخلا کے بعد‘ ایک بار پھر ہمسایہ ملک سے کثیر تعداد میں افراد پاکستان آنا چاہتے ہیں۔ حکومت کے مطابق‘ افغانستان سے مہاجرین کی ممکنہ آمد کے حوالے سے متعلقہ انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق افغان کمشنریٹ نے تین کراسنگ پوائنٹس کے قریب مہاجر کیمپوں کے لیے مقامات کی نشاندہی کر لی ہے۔ طور خم بارڈرکے قریب ضلع خیبر، غلام خان بارڈر کے قریب اور شمالی وزیرستان میں کیمپ لگیں گے۔ ضرورت پڑنے پر چترال میں ارندو کراسنگ پوائنٹ کے قریب بھی کیمپ قائم ہوں گے۔ تخمینہ ہے کہ افغانستان سے 5 سے7 لاکھ مہاجرین پاکستان آ سکتے ہیں۔ کمشنر افغان مہاجرین عباس خان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے مزید افغان مہاجرین کو آنے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے؛ تاہم اگر کوئی انسانی المیہ برپا ہوا تو پاکستان اس کیلئے مکمل طور پر تیار ہے۔ اس سے قبل وزرا اور حکومتی مشیر یہ کہہ چکے ہیں کہ افغانستان سے مہاجرین قبول نہیں کیے جائیں گے۔ مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف دورۂ امریکا کے دوران بھی یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان مزید افغان پناہ گزینوں کا متحمل نہیں ہو سکتا جبکہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کچھ روز قبل کہا تھا کہ کوئی افغان مہاجر پاکستان نہیں آ رہا۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو کیونکہ پاکستان کی اپنی اقتصادی صورتحال اس وقت انتہائی تشویشناک ہے، افغانوں نے تو امریکیوں کو بھگانے کے بعد ہیلی کاپٹروں سمیت بھاری جنگی ساز و سامان پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ کروڑوں امریکی ڈالر بھی حاصل کر لیے ہیں جبکہ پاکستان میں امریکی ڈالر مسلسل اونچی اڑان بھرتا جا رہا ہے اور آہستہ آہستہ ہماری پہنچ سے دور ہو رہا ہے۔ مہنگائی ہے تو ہمارے حکمرانوں کو اس کی وجہ ہی سمجھ نہ آ رہی۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ حکومتی کمیٹی کو مہنگائی کم کرنے کا ٹاسک دیا گیا تو اسی کمیٹی نے یوٹیلٹی سٹوروں پر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی منظوری دے دی۔ ہماری سرکار اپنے عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے جبکہ وطن عزیز میں پہلے سے موجود افغان مہاجرین بھی واپس جانے کانام نہیں لے رہے تو ان حالات میں پاکستان مزید افغانوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔
پاکستان پہلے ہی افغان جنگ میں بہت نقصان برداشت کر چکا ہے۔ اس جنگ میں پاکستان کے 80 ہزار شہری شہید ہوئے اور 120 بلین ڈالر سے زائد کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ اب پاکستان کسی پرائی جنگ میں شامل ہونے کا متحمل نہیں رہا۔ افغانستان کی طویل امریکی جنگ کا خفیہ مقصد یہ بتایا جاتا ہے کہ روس‘ چین‘ پاکستان اور ایران پر نہ صرف نظر رکھی جاتی بلکہ ان ممالک کے حوالے سے ''مناسب اقدامات‘‘ بھی عمل میں لائے جاتے۔ دوسری طرف بھارت کو امریکی سٹریٹیجک پارٹنر کے طور پر جنوبی ایشیا میں مضبوط کیا گیا۔ امریکا کے ساتھ ساتھ اس کے اتحادی بھارت کو بھی سفارتی اور عسکری‘ دونوں محاذوں پر بدترین شکست اور ندامت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بھارت نے پاکستان دشمنی میں افغانستان کے اندر اربوں ڈالر خرچ کیے۔ پاکستان کے اندر دہشت گردی کرانے کیلئے افغانستان میں تربیتی مراکز اور محفوظ پناہ گاہیں بنوائیں۔ طالبان کی فتح کے بعد اس کے تمام خواب چکنا چور ہوگئے ہیں کیونکہ پاکستان اور افغان طالبان کے مابین خوشگوار تعلقات کے روشن امکانات موجود ہیں۔ زمینی حقائق اور طالبان کے بیانات سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ بڑی احتیاط کے ساتھ اپنے اہداف کی جانب بڑھ رہے ہیں اور انہوں نے دنیا کی مختلف طاقتوں کے ساتھ مذاکرات میں جو وعدے کیے ہیں‘ وہ ان کو پورا کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ برادر اسلامی ملک میں نئی قومی حکومت کے قیام سے امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہو جائے گی اور اس کے مثبت اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے اور یہاں بھی امن و استحکام آئے گا لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت مزید افغان مہاجرین کی پاکستان آمد روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے پاکستان میں امریکی فوجیوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت صرف 42 امریکی فوجی پاکستان میں موجود ہیں جو کسی بھی وقت چلے جائیں گے۔ افغانستان سے 10 ہزار 302 افراد ٹرانزٹ ویزے پر پاکستان آئے، نیٹو اور اس سے متعلقہ 9 ہزار 32 افراد اپنے اپنے ممالک کو روانہ ہو چکے ہیں۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان میں امن کا خواہشمند ہے۔ بارڈرز اور فضائی راستوں سے انخلا کے عمل میں مدد جاری رہے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان مزید افغان مہاجرین کی آمد روکنے کے ساتھ ساتھ پہلے سے قیام پذیر افغانوں کی وطن واپسی کیلئے بھی اقدامات کرے اور سب سے پہلے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو ان کے ملکوں میں واپس بھیجنے کا عمل شروع کیا جائے‘ یہی ہماری کمزور معیشت کو سہارا دینے کا پہلا قدم ہو گا۔