دولت، شہرت، عہدہ، اختیار و اقتدار تو شاید مختلف ذرائع سے حاصل کیے جا سکتے ہیں لیکن تجربہ وقت ہی سے آتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں۔ افغانستان میں طالبان کی موجودہ حکومت اس کی بہترین مثال ہے کہ انہوں نے اپنی سابقہ حکومت جانے اور پھر امریکا کے خلاف بیس سالہ جدوجہد میں جو تجربات حاصل کیے‘ اب ان کی بدولت دنیا کو حیران کرکے رکھ دیا۔ ان کامحتاط اندازِ حکمرانی‘ انتقام کے بجائے اتحاد پر زور اور مالِ غنیمت سمیت تمام قومی اثاثوں کی قدر و قیمت سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے بیس سالہ جنگ میں بہت سیکھا اور انہی تجربات کی روشنی میں ماضی کی غلطیوں کو ہرگز نہ دہرانے کا عزم کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج امریکا اور برطانیہ سمیت کسی کو بھی طالبان پر تنقید کا جواز ڈھونڈے سے بھی نہیں مل رہا۔ کاش ہمارے حکمرانوں نے بھی گزشتہ دور میں اپنی صوبائی حکومت کے پانچ سالہ اقتدار کے دوران کچھ سبق سیکھا ہوتا اور اپنے حکمرانی کے تجربات سے استفادہ کرتے لیکن یہاں شاید اس لیے ایسا نہیں ہوا کہ طالبان کو ماضی میں شدت پسندی کے باعث اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے تھے اور پھر دوبارہ یہاں تک پہنچنے کے لئے دو دہائیوں تک وہ سخت جدوجہد اور قربانیوں کی طویل داستان رقم کرنے میں مصروف رہے جبکہ ہمارے حکمرانوں کی صورتحال مختلف ہے۔ انہیں گزشتہ دور میں ایک صوبے (خیبر پختونخوا) میں حکومت ملی تھی اور پھر اس کے ساتھ پنجاب، بلوچستان اور وفاق میں اقتدار کے بعد گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے معرکوں میں بھی آسانی سے کامیابی نصیب ہو گئی۔ اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ تجربات اور مشاہدات بھی محنت اور مشقت کے بعد ہی پختہ ہوتے ہیں اور جس معرکے کو سر کرنے میں ہینگ لگے نہ پھٹکڑی‘ اس کی قدر بھی کوئی نہیں کرتا اور محض اپنی کامیابی کے شادیانے بجا کر مخالفین کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بات تجربے کی ہو رہی تھی، ہمارے وزیراعظم صاحب بھی ماضی میں کہتے تھے کہ سڑکیں اورپل بنانا ترقی نہیں ہے لیکن جب 2013ء کے عام انتخابات کے لیے عوام کے پاس گئے تو لوگوں نے ڈیمانڈ کی کہ ہمیں بھی پنجاب کی طرح اچھی سڑکیں اور میٹرو بس چاہئے، جس پر سابق دور اقتدار کے آخری سال پشاور کی سڑکیں اور میٹرو بس منصوبے کا آغاز کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ میٹرو کا ٹریک اتنی عجلت میں بنایا گیا کہ اس پر لاگت بھی کئی گنا زیادہ آئی اور معیار میں بھی خامیاں رہ گئیں۔ عام آدمی کا خیال تھا کہ اس انتخابی مہم سے حاصل ہونے والے تجربات پی ٹی آئی حکومت کے کام آئیں گے اور وہ اپنے دوسرے دور میں تعمیر و ترقی کے منصوبے اس قدر تیزی سے آگے بڑھائے گی کہ لوگ ماضی کے ترقیاتی کام بھول جائیں گے لیکن پھر بات وہی آ جاتی ہے کہ طالبان تو اس لیے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھ رہے ہیں کہ انہیں مسندِ اقتدار تک پہنچنے کے لیے بیس سالہ طویل اور کٹھن جدوجہد کرنا پڑی ہے جبکہ ہمارے حکمرانوں کو بہ آسانی پورے ملک کی حکومت مل گئی۔ اسی لیے حکومت کے مشیروں نے اسے تعمیر و ترقی کے بجائے اپوزیشن کے پیچھے لگائے رکھا۔
راولپنڈی کا شہری ہونے کے ناتے میرا دو اہم شاہراہوں سے پالا پڑتا رہتا ہے، ایک؛ راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان سرحد ی سڑک ''آئی جے پرنسپل روڈ‘‘ اور دوسری؛ اپنے آبائی علاقے میں آنے جانے کیلئے ''بلکسر‘ تلہ گنگ روڈ‘‘۔ ان دونوں سڑکوں پر ہیوی ٹریفک کے ساتھ رش بھی بے پناہ ہوتا ہے۔ پہلے 'آئی جے پی روڈ‘ کی بات کرتے ہیں‘ یہ ایسی سڑک ہے جس پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی کے تمام رہائشی افراد کا لازمی واسطہ پڑتا ہے۔ جو بھی شخص دارالحکومت میں داخل ہوتا ہے‘ اسے اسی سڑک سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے اور بارش کے دنوں میں اس شاہراہ پر بنے گڑھوں بلکہ تالابوں میں اپنی گاڑی کو نہلا کر گزرنا پڑتا ہے۔ جڑواں شہروں کی سب سے زیادہ ٹریفک اسی روڈ سے گزرتی ہے لیکن شاید دونوں اطراف کی انتظامیہ اسے دوسرے کی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ہمیشہ نظر انداز کر دیتی ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس سڑک پر سے روزانہ کئی وفاقی و صوبائی وزرا اور دیگر اہم شخصیات بھی گزرتی ہیں لیکن اس کی خستہ حالت پر کوئی بھی توجہ نہیں دیتا۔
دوسری سڑک کی بات کریں تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار صاحب اس علاقے میں اپنے پہلے دورے پر آئے تھے اور انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ چونکہ یہ ملک کی نہایت اہم شاہراہ ہے اور یہی وہ سڑک ہے کہ جس سے وزیراعظم عمران خان صاحب اور مجھے (وزیراعلیٰ پنجاب) گزر کر اسلام آباد آنا پڑتا ہے‘ اس لیے وعدہ کرتا ہوں کہ پنجاب میں سب سے پہلے یہی روڈ بنے گی۔ ہم بھی بڑے خوش ہوئے کہ چلو جی ٹی روڈ کی طرح‘ اب یہ سڑک بھی بن جائے گی اور اس پر روزانہ پیش آنے والے جان لیوا حادثات کی شرح کم ہو جائے گی لیکن ابھی تک یہ خواب تعبیر کی تلاش میں ہے۔ شاید ابھی پنجاب میں سڑکیں بننا شروع ہی نہیں ہوئیں ورنہ وزیراعلیٰ صاحب کے وعدے کے مطابق‘ یہ شاہراہ تو سب سے پہلے بن چکی ہوتی۔ اس سے اس گمان نے بھی جنم لیا کہ شاید آج کل اعلیٰ شخصیات اس تباہ حال سڑک سے گزرنے کے بجائے ہیلی کاپٹر یا جہاز استعمال کر رہی ہیں‘ اس لیے انہیں اب اس کی خستہ حالی اور ابتری کا اندازہ نہیں ہے وگرنہ شاید اس سڑک کی قسمت جاگ گئی ہوتی۔ کبھی نہ کبھی تو اہلِ حَکم کو ہیلی کاپٹروں سے نیچے اترنا پڑے گا‘ اس لیے مستقبل کی پلاننگ کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔
سیالکوٹ، کھاریاں موٹروے کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے سابق حکومت کے مقابلے میں تین گنا زائد اور سستی سڑکیں بنانے کا دعویٰ کیا اور کہاکہ ماضی میں جو موٹرویز بنائی گئی تھیں ان کا ملک کو زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔ سابق حکمران سڑکیں بنانے کے دعوے تو بہت کرتے تھے اور ان پر ووٹ بھی لیتے تھے مگر ہم ان سے تین گنا سے بھی زیادہ سڑکیں بنا چکے ہیں اور یہ ان کے مقابلے میں سستی بھی بنائی گئی ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں کی طرح سڑکوں کے کمیشن سے لندن میں فلیٹس نہیں خریدے جائیں گے۔ لاہور، اسلام آباد موٹر وے غلط بنائی گئی ہے، سمجھ نہیں آ رہی 100 کلومیٹر اضافی ٹریک کیوں بنایا گیا؟ سیالکوٹ،کھاریاں موٹروے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس سے سفر 100 کلومیٹر کم ہو جائے گا‘ دو سال میں موٹروے مکمل ہو جائے گی۔
وزیراعظم صاحب کی یہ تقریر سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ وقت نے انہیں ایک بات تو سکھا دی ہے کہ اچھی اور پختہ سڑکیں کامل ترقی نہ سہی لیکن تعمیر و ترقی کی بنیاد ضرور ہیں اور جب تک بہترین انفراسٹرکچر موجود نہیں ہو گا اس وقت تک ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ دوسرا‘ شاید انہیں پشاور میٹرو بس منصوبے کے تجربات سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو موقع ملاہے کہ اب وہ سستی سڑکوں کی بات کر رہے ہیں، لیکن ایک بات سمجھ نہیں آ سکی کہ ہمیں سابق دورِ حکومت کی موٹرویز اور دیگر سڑکوں اور پلوں کے مقابلے میں موجودہ دور میں تین گنا زائد بننے والی شاہراہیں کیوں نظر نہیں آ سکیں اور ان ہزاروں کلومیٹر طویل شاہراہوں کی تعمیر و مرمت میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی آئی جے پرنسپل روڈ اور حکمرانوں کے اپنے آبائی علاقوں کو جانے والی تلہ گنگ بلکسر روڈ کا نمبر کیوں نہیں آ سکا؟ ہمارے حکمرانوں کو ماضی کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے یہ جان لینا چاہئے کہ بالآخر ہماری انتخابی سیاست سڑکوں پر ہی مدار کرتی ہے لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ ماضی پر تنقید کا سہارا لینا ترک کریں اور تعمیر و ترقی کے منصوبوں کی رفتار تیز کی جائے کیونکہ اب محض دو سال رہ گئے ہیں اور اگلا سال انتخابی مہم کا سال ہو گا، غریب عوام کے پاس یہی تو وقت ہوتا ہے کہ وہ اپنی بات کہہ سکیں یا حکومت سے ضروری کام کروا سکیں۔