موجودہ سائنسی دور میں سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ رابطے کے ذرائع جتنے تیز اور آسان ہوتے جا رہے ہیں‘ انسانی زندگی اتنی ہی بے سکون ہوتی جا رہی ہے، جبکہ شخصی رازداری بھی غیر محفوظ ہونے لگی ہے۔ تقریباً ایک سال قبل میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ سوشل میڈیا کے بعض اچھے پہلو بھی ہیں، یہ آج کے مصروف ترین دور میں رابطے اور معلومات کا ایک سستا، تیز اور آسان ذریعہ ہے۔ فیس بک کے ذریعے ایک دوسرے کی خیر خیریت ملتی رہتی ہے، غمی و خوشی اور آمد و رفت کی معلومات کے ساتھ ساتھ ہماری سالہا سال کی یادداشتیں بھی اس میں محفوظ رہتی ہیں، ہماری تصاویر اور وڈیوز کا ذخیرہ بھی جمع ہوتا رہتا ہے۔ وٹس ایپ کے ذریعے پیغام رسانی کا عمل نہایت ارزاں اور سہل ہو گیا ہے۔ آج کل سنجیدہ لوگ زیادہ تر ٹویٹر استعمال کرتے ہیں جس کے ذریعے اپنی بے شمار مصروفیات کے باوجود وہ اپنی بات، تصویر، وڈیو، پیغام یا تقریب کو بہ آسانی دوسروں کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم صرف اپنی بات اور پیغام شیئر کریں اور اِدھر ادھر کی سنی سنائی باتیں اور افواہیں آگے پھیلانے سے پہلے ان کی تصدیق ضرور کر لیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر سوشل میڈیا کے فوائد کئی گنا زیادہ ہو جائیں لیکن موجودہ حالات و واقعات دیکھ کر اس امر کی توقع کرنا بے معنی سا لگتا ہے کیونکہ دنیا بھر میں‘ خصوصاً ہمارے معاشرے میں کسی بھی افواہ کو تصدیق کے بغیر اسے فوری آگے پھیلانا عام سی بات ہے۔ ہمارے خودساختہ دانشور صرف لائکس، کمنٹس اور ویوز کے چکر میں اوٹ پٹانگ چیزیں شیئر کرتے رہتے ہیں کیونکہ ایسی چیزوں کو سوشل میڈیا پر زیادہ تیزی سے رسپانس ملتا ہے اور یہی ان کا مقصد ہوتا ہے۔ بعض تصویریں اور تحریریں گزشتہ کئی سالوں سے سوشل میڈیا پر چل رہی ہیں مگر لوگ آج بھی انہیں تازہ سمجھ کر شیئر کرتے جا رہے ہیں‘ مثلاً بعض بچوں کی تصاویر کے ساتھ یہ پیغام لکھا ہوتا ہے کہ یہ بچہ گم ہو گیا ہے اور اس وقت فلاں تھانے میں موجود ہے‘ اس کی تصویر شیئر کریں تاکہ یہ اپنے والدین تک پہنچ جائے۔ وہ بچہ جوان بھی ہو چکا ہوتا ہے لیکن یہ میسج اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ اس کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ اگر واقعی کوئی بچہ اپنے اہلِ خانہ سے بچھڑ جائے تو لوگ اسے بھی پرانی خبر سمجھ کر آگے شیئر کرنے سے گریزاں رہتے ہیں، اس لیے ایسی چیزوں کو شیئر کرنے سے پہلے تصدیق لازم ہے اور یہ کوئی بڑا کام نہیں‘ اکثر ایسی تصاویر کے کمنٹس میں یہ معلومات مل جاتی ہے، پھر تصویر کے ساتھ اَپ لوڈ کی تاریخ بھی ہوتی ہے جس سے علم ہو سکتا ہے کہ یہ پہلی بار کب شیئر کی گئی، سب سے بڑھ کر شیئر کرنے والا، اگر پولیس یا اس قسم کے دوسرے اداروں کے آفیشل پیجز سے ایسی چیزیں شیئر کی جائیں تو ان کی صداقت میں کوئی شک و شبہ نہیں رہتا۔
فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ایپس زیادہ محفوظ نہیں اور ہیکرز کسی بھی سوشل میڈیا صارف کا اکائونٹ ہیک کرکے اسے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ تقریباً دو برس قبل میرا ذاتی فیس بک اکائونٹ ہیک ہو گیا جو برطانیہ میں مقیم ایک کمپیوٹر انجینئر نعمان فیاض قاضی صاحب کی انتھک محنت سے کئی روز بعد بحال ہو سکا تھا۔ تقریباً دو ماہ قبل دوبارہ میرا فیس بک اکائونٹ ہیک ہوا، ہیکر نے میرے اکائونٹ سے کوئی غیر قانونی مواد شیئر کیا اور پھر اکائونٹ مستقلاً بند کر دیا گیا جو آج تک بحال نہیں ہو سکا، یوں اس اکائونٹ پہ موجود میرا ایک دہائی سے زائد کا ذخیرہ نہ صرف ضائع ہو گیا بلکہ اس کے غلط استعمال کا خدشہ بھی موجود ہے۔ میرے یہ دو ذاتی واقعات ہی یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ سوشل میڈیا اکائونٹس کسی بھی طور پر مکمل محفوظ نہیں سمجھے جا سکتے اور ان پر شیئرکی گئی تصاویر اوردیگر معلومات کو کبھی بھی چرایا جا سکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے سب سے بڑی سوشل ویب سائٹ‘ فیس بک اور اس کی ذیلی ایپس وٹس ایپ اور انسٹاگرام کی چند گھنٹے تک بندش سے دنیا بھر کے ساڑھے تین ارب سے زیادہ صارفین متاثر ہوئے۔ فیس بک کے بانی و مالک مارک زکر برگ کو یہ بندش بہت مہنگی پڑی اور انہیں فی گھنٹہ لگ بھگ ایک ارب ڈالر کے حساب سے نقصان ہوا۔ فیس بک، وٹس ایپ اور انسٹا گرام کی سروسز 4 اور 5 اکتوبر کی درمیانی شب دنیا بھر میں بند ہو گئی تھیں جو 6 گھنٹے بعد بحال ہوئیں۔ فیس بک کے مطابق‘ ان کے ٹریفک نیٹ ورک اور ڈیٹا سنٹر کے آلات میں خرابی کی وجہ سے سروسز بند ہو گئی تھیں؛ تاہم فیس بک نے تصدیق کی ہے کہ سروس کی اس بندش کے دوران صارفین کا ڈیٹا لیک نہیں ہوا۔ ایک غیر ملکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق‘ فیس بک کی ایک سابق خاتون ملازمہ کے انکشافات سے بھی مارک زکر برگ کی دولت میں کمی ہوئی ہے اور وہ دنیا کے تیسرے امیر ترین شخص سے تنزلی پا کر پانچویں امیر ترین شخص بن گئے ہیں۔ حیران کن طور پر ان کی دولت مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس اور فرانسیسی کاروباری شخص برنارڈ ارنالٹ سے گھٹ گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مارک زکر برگ کی دولت میں کمی صرف فیس بک، وٹس ایپ اور انسٹا گرام کی سروسز بند ہونے کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ سابق ملازمہ فرانسس ہیوگن کی جانب سے حال ہی میں کیے گئے انکشافات کی وجہ سے بھی انہیں شیئرز کی مالیت میں کمی کا خمیازہ بھگتنا پڑا جس کے بعد ان کی مجموعی دولت 128 ارب ڈالر سے گھٹ کر 122 ارب ڈالر ہو گئی۔ زکر برگ کی معذرت اور وضاحت کے باوجود توقع کی جا رہی ہے کہ انہیں اب پہلے سے زیادہ کڑے سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ویب سائٹس کی بندشوں کی ٹریکنگ کرنے والی ویب سائٹ ڈان ڈٹیکٹر کے مطابق‘ دنیا بھر سے ویب سائٹ ہیکنگ کی ایک کروڑ چھ لاکھ رپورٹس موصول ہوئیں جو اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ سائبر سکیورٹی ماہر برائن کربز نے ایک نیوز ایجنسی کو بتایا کہ فیس بک کی بندش کا معاملہ ایسے ہے جیسے آپ دنیا بھر سے نقشے غائب کر دیں جن کے ذریعے رابطوں کے ذرائع کی رہنمائی ممکن ہوتی ہے۔
بحیثیت کارکن صحافی ہمارے لیے سوشل میڈیا خصوصاً واٹس ایپ تصاویر، پیغامات اور دیگر معلومات بھیجنے کا سب سے تیز، سستا اور آسان ذریعہ ہے۔ جب چند گھنٹے کے لیے یہ سروسز بند ہوئیں تو گویا ہم بھی اندھیرے میں چلے گئے، پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں مشکلات پیش آئیں، جو خبریں اورتصاویر ہم وٹس ایپ کے ذریعے موبائل فون سے ہی فوری طور پر فارورڈ کر دیتے تھے‘ ان کے لیے لیپ ٹاپ استعمال کرنا پڑا، پھر ای میل کا سہارا لیتے ہوئے یہ چیزیں سب کو بھیجنا پڑیں۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا کی بندش سے طویل عرصہ بعد زندگی میں چند گھنٹے کے لیے سکون آیا، غیرضروری پیغامات کی ٹک ٹک اور وٹس ایپ پر فضول کالوں کی ٹن ٹن بند رہی، نوجوان نسل بھی رات بارہ بجے تک انتظار کے بعد مایوس ہوکر نیند کی آغوش میں چلی گئی اور یوں کافی عرصے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے ایک رات سکون سے گزاری۔
کاش! طلبہ کے سوشل میڈیا استعمال پر پابندی لگ جائے، اس سے کم ازکم نوجوان نسل کی زندگی میں تو سکون آ جائے گا۔