محسنِ پاکستان سے چند ملاقاتیں

وطنِ عزیز کو دنیا کی ساتویں اور پہلی مسلم ایٹمی طاقت بنانے والے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان 85 برس کی عمر میں اتوار کی صبح اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ وہ کچھ عرصہ پہلے کورونا وائرس کا شکار ہوئے تھے جس کے بعد زیادہ تر وقت گھر میں ہی گزارتے تھے۔ ہفتے کی شب پھیپھڑوں کے عارضے کے سبب ان کی طبیعت خراب ہوئی جس پر انہیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا، ڈاکٹروں کی جان توڑ کوششوں کے باوجود وہ جانبر نہ ہو سکے۔ ان کی نمازِ جنازہ فیصل مسجد میں ادا کی گئی جس میں وفاقی وزرا، اراکین پارلیمنٹ اور سینئر عسکری حکام سمیت عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ڈاکٹر اے کیو خان کی تدفین اسلام آباد کے ایچ 8 قبرستان میں مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ کی گئی۔ مسلح افواج کے چاق و چوبند دستے نے گارڈ آف آنر پیش کیا، وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید احمد نمازِ جنازہ اور تدفین کی خود نگرانی کرتے رہے۔ قبر پر چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی، آرمی چیف اور پاک فضائیہ کی جانب سے پھول چڑھائے گئے، صدرِ مملکت اور وزیراعظم سمیت سیاسی رہنمائوں اور عسکری قیادت نے ان کی وفات پر شدید رنج و غم کا اظہار کیا۔
پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں نمایاں کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1936ء میں بھوپال میں پیدا ہوئے۔ 1952ء میں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کر کے پاکستان منتقل ہو گئے۔ 1967ء میں ہالینڈ کی یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ بلجیم کی یونیورسٹی سے میٹلرجیکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی، بعد ازاں ایمسٹرڈیم میں فزیکل ڈائنامکس ریسرچ لیبارٹری جوائن کر لی اور یورینیم میٹلرجی، فیز ٹرانزیشن آف میٹیلک الائز، گیس سینٹری فیوجز پر مبنی آئسوٹوپ سیپریشن کی ریسرچ کے بانی بنے۔ بھارت نے 1974 ء میں ایٹمی تجربہ کیا تو ہالینڈ میں موجود ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھا کہ میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے منسلک ہونا چاہتا ہوں، بھٹو نے انہیں فوری طور پر پاکستان آکر ملنے کی دعوت دی۔ دسمبر 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت کے سیکرٹری خارجہ آغا شاہی کے ہمراہ ڈاکٹر اے کیو خان سے ملاقات کی، جس کے بعد وہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے وابستہ ہو گئے۔ ان دنوں اٹامک انرجی کمیشن کے سربراہ ممتاز ایٹمی سائنسدان منیر احمد خان تھے، کچھ عرصہ بعد انہیں ہٹا کر ڈاکٹر خان کو اس کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ 1987ء میں جب پاک بھارت کشیدگی اچانک کافی بڑھ گئی تھی‘ مشاہد حسین سید نے اپنی شادی میں شرکت کے لیے پاکستان آئے بھارتی صحافی کلدیپ نائر کے ہمراہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملاقات کی جسے بعد ازاں کلدیپ نائر نے ایک انٹرویو کی شکل میں شائع کیا، اس ''انٹرویو‘‘ کی سرخی تھی: پاکستان ایٹم بم بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ خبر دنیا بالخصوص بھارت کے لیے کسی دھماکے سے کم نہ تھی۔ سابق صدر ضیاء الحق‘ ان کے بعد بینظیر بھٹو اور پھر میاں نواز شریف کی حکومتیں آتی جاتی رہیں مگر ڈاکٹر اے کیو خان کا کام جاری رہا۔ 11 مئی 1998ء کو بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر اپنی ایٹمی قوت کے اظہار کا دبائو کافی بڑھ گیا تھا جس پر 28 مئی اور 30 مئی 1998ء کو اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف کے حکم پر بلوچستان میں چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکے کیے گئے۔ ان دھماکوں کے بعد ڈاکٹر اے کیو خان کا نام دنیا کی پہلی مسلم ایٹمی طاقت کے خالق کی حیثیت سے باضابطہ طور پر سامنے آیا اور انہیں محسن پاکستان کا لقب دیا گیا۔ ممتاز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان پہلے پاکستانی ہیں جنہیں 3 صدارتی ایوارڈز سے نوازا گیا، انہیں دو بار نشانِ امتیاز اور ہلالِ امتیاز بھی ملا۔
ڈاکٹر عبدالقدیرخان پر ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزام میں مقدمہ بھی دائر کیا تھا لیکن ہالینڈ، بلجیم، برطانیہ اور جرمنی کے ماہرین نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کا الزام لگا کر مقدمہ چلایا جا رہا ہے وہ عام کتابوں میں شائع شدہ اور سب کی رسائی میں ہیں، اس پر ہالینڈ کی عدالت نے انہیں باعزت بری کر دیا۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد سعودی عرب کے مفتی اعظم نے عبدالقدیر خان کو پوری اسلامی دنیا کا ہیرو قرار دیا تھا۔ مغربی دنیا نے پروپیگنڈا کے طور پر پاکستانی ایٹم بم کو ''اسلامی بم‘‘ کا نام دیا جسے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بخوشی قبول کر لیا۔ پرویز مشرف دور میں ملک پر ایٹمی مواد اور معلومات دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کے لگنے والے الزامات کو ڈاکٹر عبدالقدیر نے ملک و قوم کی خاطر اپنے سر لے لیا اور اس کے بعد وہ پانچ سال تک نظر بند رہے۔
دنیا کے ممتاز اور مصروف ترین ایٹمی سائنسدان ہونے کے باوجود وہ شعر و ادب سے گہرا لگائو رکھتے تھے، خود بھی اعلیٰ پائے کے شاعر اور باکمال نثرنگار تھے۔ مستند کالم نگار بھی تھے۔ شعر و ادب پر مبنی ان کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں جبکہ انہوں نے ایک سو پچاس سے زائد عالمی سائنسی تحقیقی مقالے بھی لکھے۔ فلاحی و رفاہی کاموں میں بھی ڈاکٹر خان کافی نمایاں رہے۔ ان کے بے شمار رفاہی کاموں میں سب سے بڑا منصوبہ لاہور میں ڈاکٹر اے کیو خان ہسپتال ہے‘ جہاں غریب، نادار اور مستحق لوگوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ ہسپتال میں سٹیٹ آف دی آرٹ ایک ڈائیلیسز سنٹر بھی ہے جہاں غریب و مستحق لوگوں کے ٹیسٹ اور ڈائیلیسز کے ساتھ ساتھ انہیں ادویات بھی مفت دی جاتی ہیں؛ تاہم افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنانے والے اس قومی ہیرو کے ساتھ ہم نے ان کے شایان شان سلوک نہیں کیا۔ ڈاکٹرصاحب نے کئی بار اس کا برملا اظہار بھی کیا کہ ان کی صرف بیس فیصد صلاحیتوں سے استفادہ کیا گیا جبکہ 80 فیصد صلاحیتیں ان کے ساتھ دفن ہو جائیں گی۔
راقم الحروف کو کئی بار محسن پاکستان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ڈاکٹر صاحب اپنے نام اور کام کی طرح بہت اعلیٰ شخصیت کے مالک تھے۔ انتہائی شفیق، ملنسار اور درد مند انسان تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے میری پہلی ملاقات راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کی تقریب حلف برداری میں ہوئی تھی جس میں راقم الحروف کو میزبان کی حیثیت سے مہمانِ خصوصی کی قربت اور خدمت کا موقع ملا، پھر انجمن فیض الاسلام کے یتیم بچوں کی سالانہ تقریبات میں کئی بار محسن پاکستان کے ساتھ ملنے، بیٹھنے اور گفتگو کرنے اور انہیں سننے کا موقع ملا۔ وہ انتہائی خوبصورت لہجے میں مدلل اور ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرتے تھے، ان کی ہر بات تاریخ کا ایک ورق ہوتی تھی جس سے سننے والے خاموشی سے ان کی باتیں سنتے اور ان کے سامنے بولنے کی جسارت کم ہی کرتے تھے۔ اپنے طویل پیشہ ورانہ سفر کے دوران بطور کارکن صحافی مجھے سینکڑوں ملکی وغیر ملکی حکمرانوں، سیاستدانوں، کھلاڑیوں اور دیگر نامور شخصیات کے ساتھ ملنے اور ان کا انٹرویوز کرنے کے مواقع ملے مگر کبھی کسی کے ساتھ تصاویر بنوانے کا شوق نہیں رہا لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ میری تصاویر ہمیشہ یادگار رہیں اور مجھے آج بھی سب سے زیادہ پسند ہیں کیونکہ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح اور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کے بعد محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہی سب سے بڑے محب وطن پاکستانی تھے جو اپنے ہی لوگوں کے کئی شکوے دل میں دبائے اس دنیا سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ایک شعران کی دلی کیفیت کا اظہار ہے:
گزر تو خیر گئی ہے تری حیات قدیرؔ
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں