جب سے پی ٹی آئی نے اقتدار سنبھالا بلکہ اس سے بھی پہلے‘ جب موجودہ حکمران جماعت اقتدار میں آ کر ملک کی قسمت بدل دینے کے سہانے خواب دکھا رہی تھی‘ تب سے اسد عمر کو بہت بڑا ماہر معاشیات بنا کر پیش کیا جا تا تھا۔ تاثر دیا جاتا تھا کہ سابق حکومت کے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار ملک کو اقتصادی لحاظ سے مستحکم نہیں کر سکے اب پی ٹی آئی کے دور میں اسد عمر ایسا کر کے دکھائیں گے۔ اسد عمر بھی سابق حکمرانوں کی اقتصادی پالیسیوں پر بڑھ چڑھ کر تنقید کرتے تھے، کہتے تھے کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات پر بہت زیادہ ٹیکس لے رہی ہے، سرکار اگر پٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکسز کم کر دے تو قیمتیں کم ہو سکتی ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ جب اسحاق ڈار وزیر خزانہ بنے تھے‘ اس وقت پٹرول کی فی لیٹر قیمت ایک سو دس روپے سے اوپر تھی جسے وہ 68 روپے فی لیٹر تک لے آئے تھے‘ اسی طرح امریکی ڈالر بھی اوپر جا رہا تھا جسے وہ 100 روپے تک لانے میں کامیاب ہوئے اور پھر طویل عرصہ تک ڈالر 105 روپے تک برقرار رکھا۔ یقینا یہ سابق حکومت خصوصاً سابق وزیر خزانہ کی کامیابی تھی جسے اس وقت بھی ہدفِ تنقید بنایا جاتا تھا اور آج بھی اپنے عیبوں پر پردہ ڈالنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ اسحاق ڈار نے مہنگائی کو مصنوعی طریقے سے روکا ہوا تھا۔ موجودہ حکومت کو کوئی سمجھائے کہ مہنگائی سے وفاقی وزرا، معاونین خصوصی اور مشیروں کی فوج متاثر ہو یا نہ ہو‘ غریب آدمی بچوں سمیت خودکشی پر مجبور ہوتا جا رہا ہے۔ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے اور اب دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہو چکا ہے۔
کرپشن کے خاتمے، سماجی و معاشی انصاف اور تبدیلی کے بلند بانگ دعووں، وعدوں اور نعروں کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی حکومت ملکی اقتصادی صورتِ حال کو نہ صرف سمجھ نہ پائی بلکہ اس کے شش و پنج پر مبنی فیصلوں کی وجہ سے مہنگائی بڑھتی گئی اور معاشی بحران شدید ہونے لگا۔ زمامِ اقتدار سنبھالتے ہی حکومت معاشی بحران کا شکار ہوئی تو ابتدا میں کچھ تسلیاں دی گئیں کہ چند ماہ میں صورتحال بہتر ہونا شروع ہو جائے گی مگر جب ڈالر کی اڑان قابو میں آ سکی نہ ہی مہنگائی کا گراف نیچے لایا جا سکا تو چند ہی ماہ بعد اچانک اسد عمر کو تبدیل کرکے حفیظ شیخ کو لایا گیا۔ مہنگائی کے طوفان میں پھنسے عوام سمجھے کہ شاید غیر ملکی اشیا کی طرح امپورٹڈ فنانس منسٹر بھی کارکردگی میں اپنی مثال آپ ہوں اور اس معاشی بحران میں عوام کو کچھ ریلیف دیں گے لیکن یہ خام خیالی ہی رہی۔ وزیر خزانہ تو بدلا لیکن ملکی حالات نہ بدل سکے اور مہنگائی بڑھتی چلی گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ معاملات حفیظ شیخ کے ہاتھ سے نکلنے لگے اور عوام تبدیلی حکومت کو کوسنے لگے تو وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر وزارتِ خزانہ کا قلمدان بدل دیا اور حماد اظہر کو وزیر خزانہ بنا دیا گیا۔ عام شہری یہ سمجھا کہ شاید اب یہ جوان وزیر ہی ہمیں آئی ایم ایف کے چنگل سے بچائے گا اور مہنگائی کم کرنے میں کامیاب ہو گا لیکن عام آدمی کوکیا معلوم تھاکہ وزرائے خزانہ عوام کو آئی ایم ایف کی سخت شرائط سے بچانے کے لئے نہیں بلکہ ان کی شرائط پر من وعن عمل درآمد کرانے کی غرض سے تبدیل کیے جا رہے ہیں۔ چند ہی دن بعد حماد اظہر سے قلمدان واپس لے کر خزانے کی چابی معروف بینکار شوکت ترین کے سپرد کر دی گئی۔ غریب آدمی اس بار بھی اس مغالطے کا شکار ہو گیا کہ شاید اب یہ وزیر خزانہ آئی ایم ایف کی عوام کش اقتصادی پالیسیوں کے سامنے کوئی بند باندھنے میں کامیاب ہوں گے اور مہنگائی کا طوفان تھم جائے گا کیونکہ وزیر خزانہ بننے سے چند روز قبل ہی شوکت ترین صاحب کا یہ بیان سننے کو ملا تھا کہ آئی ایم ایف کی شرائط ماننے سے ملکی معیشت نہیں چل سکے گی۔ لیکن اس بار بھی غریب کفِ افسوس ملتا رہا اور مشیرِ خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف کی وہ تمام شرائط مان لیں جو اس سے قبل وہ ماننے کو تیار نہ تھے اور انہیں صرف عوام ہی نہیں بلکہ حکومت اور ملک کے خلاف بھی سازش سمجھتے تھے۔
آئی ایم ایف سے مذاکرات مسلسل ناکام ہوتے رہے جس کی وجہ سے قرض کی قسط میں بھی تاخیر ہوتی نظر آئی۔ موجودہ مشیرِ خزانہ آئی ایم ایف کو قائل کرنے میں ناکام رہے تو حکومت نے بالآخر گھٹنے ٹیک دیے اورعالمی مالیاتی ادارے کی وہ تمام شرائط مان لیں جنہیں معیشت بالخصوص عوام کے لیے زہرِ قاتل سمجھا جا رہا تھا۔ خبر ہے کہ اب ہر مہینے پٹرول بم پھٹے گا۔ حکومت نے پٹرول پر پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی 30 روپے تک لے جانے کے لئے ہر ماہ 4 روپے اضافے کا اعلان کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی 9 روپے 62 پیسے فی لیٹر ہے۔ اب ہر مہینے بعد چار روپے تو بڑھیں گے ہی‘ ساتھ ہی ساتھ ہر پندرہ دن بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی مارکیٹ کے مطابق رد و بدل بھی ہو گا۔ لہٰذا عوام کو اوسطاً ہر مہینے پٹرول کی قیمت میں آٹھ سے دس روپے فی لیٹر اضافے کیلئے تیار رہنا چاہئے جو سراسر ظلم ہے۔ اس فیصلے سے دوسرے ٹیکسز بھی بڑھیں گے، پٹرول کی قیمت کہاں تک جائے گی‘ کچھ پتا نہیں۔
وفاقی وزرا نے گزشتہ تین سالوں کی روایت برقرار رکھتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کے بعد بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا بھی اعلان کر دیا ہے اور کہا ہے کہ بجلی کی بنیادی قیمت بڑھانا پڑے گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ خبر بھی دی گئی ہے کہ ترقیاتی بجٹ میں 200 ارب کی کٹوتی ہو گی۔ فی الحال تو عوام یہی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ گزشتہ تین سالوں میں ملک میں کون سا نیا میگا پروجیکٹ شروع کیا گیا یا کون سے ترقیاتی منصوبے تیزی سے مکمل کئے ہیں جو اب دو سو ارب روپے کٹوتی کی نوید سنائی جا رہی ہے؟ شہر تو شہر‘ ہائی ویز تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، سڑکوں کا مرمتی کام حکومت کی طرف سے بجٹ کا منتظر ہے مگر بتایا جا رہا ہے کہ ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی ہو گی۔ اب تک کے حالات سے تو یہی لگتا ہے کہ گزشتہ تین سالوں میں بھی کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا اور اب اس میں مزید کمی واقع ہو گی‘ یعنی ترقی کا پہیہ جو پہلے 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کے بجائے صرف 20کلو میٹر کی رفتار سے چل رہا تھا‘ اب اسے مزید آہستہ کیا جا رہا ہے۔ یہ خبر بھی سنائی گئی ہے کہ اب سیلز ٹیکس پر دی گئی چھوٹ بھی ہٹانا ہو گی جبکہ 300 ارب روپے کے نئے ٹیکسز بھی لگیں گے۔ پاکستان کو ایک ارب ڈالر قرض کی رقم جاری کرنے کا فیصلہ اگلے ماہ آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ کرے گا اور اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ یہ قرض ملے گا یا نہیں؟ گزشتہ تین برسوں کا ریکارڈ دیکھا جائے تو خدشہ پیدا ہو چلا ہے کہ آئی ایم ایف قرض تین ماہ کیلئے موخر کرکے مزید کوئی شرائط عائد نہ کر دے۔ عوام تو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں بری طرح پِس رہے ہیں اور وزرا انہیں روٹی کم کھانے کا مشورہ دے چکے ہیں۔ پھر ملک میں کوئی نیا بڑا ترقیاتی منصوبہ ہی شروع نہیں کرنا تو آئی ایم ایف سے عوام اور ملکی معیشت کا گلا گھونٹنے والی سخت ترین شرائط پر ایک ارب ڈالر قرض لینے کامقصد کیا ہے؟ حکومت اس ایک ارب ڈالر کا کرے گی کیا؟
کسی کو اچھی لگے یا بری‘ موجودہ حالات میں آئی ایم ایف کی اتنی سخت شرائط کو تسلیم کرنا اور آئے روز بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ کرنا بالکل بھی دانش مندی نہیں، نہ ہی یہ ملکی معیشت کو درست کرنے کا طریقہ ہے۔ حکومت جتنے ٹیکس لگاتی ہے وہ تو آئی ایم ایف جیسے اداروں کا سود ادا کرنے میں نکل جاتے ہیں‘ ایسے میں نہ تو ملک کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے اور نہ ہی معیشت ٹریک پر آتی ہے بلکہ عوام اور معاشی سرگرمیاں ٹیکسوں کے استحصالی نظام تلے دبتے چلے جاتے ہیں اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ سانس لینا بھی دشوار ہو جاتا ہے اور پورا نظام دھڑام سے زمین بوس ہو جاتا ہے، لہٰذا حکومت کو آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننے اور عوام کا استحصال کرنے کے بجائے معیشت کو درست ٹریک پر گامزن کرنے کی تدبیر کرنی چاہیے تاکہ عوام کچھ نہ کچھ سانس تو لیتے رہیں۔