اب بھی وقت ہے!

تحریک انصاف نے تبدیلی کے نام پر قوم کے نوجوانوں کو متحرک کیا، ایک سو چھبیس دن تک انتخابی اصلاحات کے لیے اسلام آباد میں دھرنا دیا اور 2018ء کے انتخابات کے لیے بھرپور انتخابی مہم چلائی۔ روایتی سیاست سے تنگ عوام کو پی ٹی آئی کا ''تبدیلی‘‘ کا نعرہ بہت پسند آیا اور لوگوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دے کر کامیاب کرایا اور یوں یہ جماعت دو دہائیوں سے زائد سیاسی جدوجہد کے بعد اقتدار میں آ گئی، مگر اقتدار ملنے سے پہلے تبدیلی کے جو بڑے بڑے دعوے کیے گئے تھے؛ چہروں کی تبدیلی، نظام کی تبدیلی اور جو جو خواب دکھائے گئے تھے؛ نوے دنوں میں کرپشن کا خاتمہ، کروڑوں نوکریاں، لاکھوں مفت گھر اور قرضوں سے نجات‘ اقتدار ملنے کے بعد وہ سب عوام کے لیے محض خواب ہی رہے بلکہ تمام کے تمام دعوے اور وعدے سراب ثابت ہوئے جن کے حصول کی اب امید بھی ٹوٹتی جا رہی ہے۔ ویسے یہ حقیقت ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد ہی وزیراعظم عمران خان نے صاف الفاظ میں تسلیم کیا تھا کہ اپوزیشن میں بیٹھ کر دعوے کرنا اور نعرے لگانا آسان ہوتا ہے‘ حکومت کا پہلے انہیں تجربہ نہیں تھا، اب پتا چلا ہے کہ یہ کام بہت مشکل ہے۔ اگر پی ٹی آئی حکومت کے گزرے سوا تین سال کا تجزیہ کیا جائے تو جتنی ''تبدیلی‘‘ ان برسوں کے دوران آئی ہے، اتنی ملکی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں آ سکی۔ جتنے سیاستدانوں نے 2018ء میں وفاداریاں تبدیل کیں، ملکی تاریخ کے کسی الیکشن سے پہلے ایسا منظر دیکھنے میں نہیں آیا تھا، یہ بہت بڑی تبدیلی تھی اور اس کے لیے کپتان نے اپنی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد، نظریاتی کارکنان، پارٹی کے متعدد بانی اراکین اور اصولوں سمیت نجانے کیا کچھ قربان کیا‘ اس کے بعد ہی تبدیلی سرکار کا قیام ممکن ہو پایا اور آج تک تبدیلی کا یہ سفر جاری وساری ہے۔ کوئی ایسا دن نہیں جاتا جب پاکستان میں کسی نہ کسی سطح پر، کسی قسم کی کوئی تبدیلی واقع نہ ہوتی ہو۔ اب اگر کوئی سیاسی نابالغ ان تبدیلیوں کو نہ سمجھ سکے تو اس میں حکومت کا نہیں بلکہ اس کا اپنا قصور ہے۔ کبھی کوئی وزیر تبدیل ہوتا ہے تو کبھی کوئی مشیر، چیف سیکرٹری، آئی جی، سیکرٹری، کمشنر، ڈپٹی کمشنر حتیٰ کہ ایف بی آر سمیت اہم قومی اداروں کے سربراہان کے تبادلے بھی ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو رہے ہیں۔ اور کچھ نہ ہو تو وفاق اور پنجاب کے معاونینِ خصوصی کے ہی آپس میں تبادلے کر دیے جاتے ہیں اور یوں تبدیلی کا قافلہ ہے کہ ایک پل کو بھی نہیں رکتا اور رواں دوراں رہتا ہے۔
2018ء کے عام انتخابات کے بعد سے جوں جوں عوام میں تبدیلی کے اثرات نمایاں ہوتے گئے‘ عوامی سوچ میں بھی تبدیلی آتی گئی، تین برسوں کے دوران زیادہ تر ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت کو شکست ہوئی۔ کنٹونمنٹ بورڈز کے الیکشن ہوئے تو ملک بھر پی ٹی آئی کو شدید دھچکا لگا مگر پے درپے شکستوں کے باوجود حکمران جماعت نے سبق نہیں سیکھا۔ وزرا، مشیران اور معاونین خصوصی وزیراعظم کو 'سب اچھا ہے‘ کی رپورٹ دیتے رہے۔ زمینی حقائق کے برعکس عوامی مسائل حل کرنے، مہنگائی میں کمی لانے اور بیروزگاری کا خاتمہ کرنے کے بجائے حکمران اس چکر میں پڑ گئے کہ آئندہ انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کرائے جائیں۔ شاید یہ تجویز کسی غیرمنتخب اور غیر سیاسی مشیر نے دی تھی جسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ حکومت کی پانچ سالہ مدت تو جیسے تیسے پوری ہو ہی جاتی ہے مگر جب دوبارہ ووٹ مانگنے کے لیے عوام کے سامنے جانا پڑتا ہے، تب مشینیں کام نہیں آتیں‘ اس وقت عوام صرف کارکردگی کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔
خیبر پختونخوا واحد صوبہ ہے جہاں پی ٹی آئی کی حکومت اپنی دوسری مدت پوری کرنے جا رہی ہے۔ یہاں پی ٹی آئی کا دوبارہ انتخاب بھی بڑی سیاسی تبدیلی قرار دیا جا رہا تھا کہ ماضی قریب میں اس سے قبل یہاں کسی جماعت کو دوبارہ اقتدار نہیں ملا تھا۔ چونکہ یہاں ماضی میں بھی پی ٹی آئی ہی برسر اقتدار تھی‘ اس لیے یہاں پرحکومت عوامی مسائل کی ذمہ داری مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی، جے یو آئی، اے این پی یا کسی دوسری اپوزیشن جماعت پر بھی نہیں ڈال سکتی۔ خوابوں کی دنیا میں رہنے والے حکمران شاید یہ سمجھ رہے تھے کہ جو عوام ایک بار تبدیلی کے نعرے سے متاثر ہو چکے ہیں‘ وہ اب شاید ہمیشہ اس کے سحر میں مبتلا رہیں گے ، شاید یہی وجہ تھی کہ حکمرانوں نے اپوزیشن پر تنقید کے سوا کچھ نہیں کیا۔ وہ یہ بھول گئے کہ عوام کا پیٹ ماضی کے حکمرانوں کو برا بھلا کہنے سے نہیں بھرتا۔
اب خیبر پختونخوا بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پی ٹی آئی کو اَپ سیٹ شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے میدان مار لیا ہے۔ چار بڑے شہروں کی میئر شپ کے الیکشن میں پی ٹی آئی کا مکمل صفایا ہو گیا ہے۔ کوہاٹ، پشاور اور بنوں کے میئرز کا انتخاب جے یو آئی (ف)، جبکہ مردان کی میئر شپ عوامی نیشنل پارٹی کے نام رہی۔ صوبے میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے پہلے مرحلے کے لیے پشاور، نوشہرہ، چارسدہ، مردان، صوابی، کوہاٹ، خیبر، مہمند، ہنگو، بنوں، کرک، لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان، ہری پور، بونیر، ٹانک اور باجوڑ میں پولنگ ہوئی۔ 64 میں سے 58 سیٹوں کے الیکشن کے جوغیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج اب تک سامنے آئے ہیں‘ ان کے مطابق جے یو آئی(ف) نے میئر کی تین نشستوں سمیت 21 تحصیل چیئرمینوں کی سیٹوں پر فتح حاصل کی ہے۔ حکمران صوبائی جماعت پی ٹی آئی دوسری نمبر پر رہی ہے اور صوبائی حکمران جماعت ہونے کے باوجود میئرشپ کا کوئی الیکشن نہیں جیت پائی؛ تاہم یہ 14 تحصیل چیئرمینوں کے الیکشن میں فاتح قرار پائی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے 7 سیٹیں حاصل کی ہیں؛ ایک میئر اور 6 تحصیل چیئرمین۔ 9 آزاد امیدوار تحصیل چیئرمین کے الیکشن میں سرخرو ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ نون کے حصے میں 3 سیٹیں آئیں، جماعت اسلامی 2، پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک اصلاحات پاکستان نے ایک‘ ایک نشست حاصل کی۔ ہر ووٹر نے 6 ووٹ کاسٹ کیے جبکہ پہلے مرحلے کے ان انتخابات میں 2 ہزار 32 امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوئے۔
خیبر پختونخوا کے بلدیاتی الیکشن میں عوامی طاقت نے خوابوں کی دنیا میں بسنے والے بڑے بڑے برج الٹ دیے ہیں۔ حکمران جماعت کے کئی اہم رہنما اپنے حلقوں میں پارٹی کو شکست سے نہ بچا سکے۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور صوبائی وزیر شہرام ترکئی کے ضلع صوابی کی تین تحصیلوں میں پی ٹی آئی کے امیدوار ہار گئے۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز کے آبائی ضلع کوہاٹ میں تحریک انصاف میئر شپ کے انتخاب میں شکست سے دوچار ہوئی۔ وزیر مملکت شہریار آفریدی اپنی یونین کونسل سے بھی اپنے امیدوار کو جیت نہ دلا سکے۔ گورنر شاہ فرمان کے آبائی علاقے بڈھ بیر سے ان کا امیدوار تحصیل چیئرمین نہیں بن سکا، وزیر امورِ کشمیر علی امین گنڈاپور کے حلقے پہاڑ پور میں تحریک انصاف کو شکست کا سامنا کرنا پڑا‘ وزیر مملکت علی محمد خان کے شہر مردان میں بھی پی ٹی آئی کا امیدوار میئر کی سیٹ پر ناکام رہا۔ اس کے علاوہ وزیر دفاع پرویز خٹک کے قومی اسمبلی کے حلقے کی تحصیل پبی سے تحریک انصاف کو شکست ہوئی، وفاقی وزیر عمر ایوب کے آبائی علاقے ہری پور کے تین تحصیل چیئرمینوں کی نشستیں نواز لیگ اور آزاد ارکان لے اڑے۔ ڈپٹی سپیکر کے پی اسمبلی محمود جان کے بھائی بھی اپنی سیٹ ہار گئے۔ صوبائی وزیر جنگلات اشتیاق ارمڑ تحصیل چمکنی میں اپنے امیدوار کو کامیاب نہ کرا سکے۔ یہ وہ زمینی حقائق ہیں جنہیں جھٹلایا نہیں جا سکتا اور جب تک حکمران عوامی مسائل پر توجہ نہیں دیں گے تب تک تبدیلی کی ہوا الٹے رخ پر بہتی رہے گی۔ اب بھی وقت ہے کہ حکمران خوابوں کی دنیا اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر انحصار کرنے کے بجائے زمینی حقائق کے مطابق فیصلے کریں، ایسے ٹھوس اقدامات کریں جن سے روپے کی قدر مستحکم ہو، پٹرولیم مصنوعات سمیت دیگر اشیائے ضروریہ پر ٹیکس کی شرح کم سے کم کی جائے تاکہ مہنگائی میں کمی واقع ہو، ورنہ اس ٹریلر کی پوری پکچر آئندہ عام انتخابات میں نظر آ سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں