لوگ مری بھی نہ جائیں تو کیا کریں؟

سانحۂ مری نے پریشان حال قوم کو ایک بار پھر سوگوار کر دیا ہے۔ ہر دل دکھی اور ہر آنکھ اشکبار ہے۔ کوئی انتظامی نااہلی کی بات کر رہا ہے تو کوئی حکومتی بے حسی کا رونا رو رہا ہے۔ کوئی ہوٹل مالکان کے غیر انسانی رویے پر نالاں ہے تو کسی کو مقامی آبادی سے شکوہ ہے۔ شنید ہے کہ حکومت پنجاب کو بتایا گیا ہے کہ یہ بارش یا برف باری نہیں بلکہ ایک ایسا برفانی طوفان تھا جو علاقے کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ کوئی یہ ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے کہ یہ سب کچھ گاڑیوں کا داخلہ نہ روکنے کی وجہ سے ہوا اور سارا ملبہ ٹریفک کنٹرولرز پر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مذکورہ دونوں وجوہات کسی حد تک درست ہوں گی لیکن سارا مسئلہ یہ نہیں تھا۔ مسائل اور بھی بہت ہیں، غفلت کا مظاہرہ کئی پہلوئوں سے ہوا۔
مقامی ضلع کا شہری ہونے کے ناتے کم از کم میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اس سے زیادہ اور شدید برف باری میں پہلے بھی کئی بار دیکھ چکا ہوں۔ سیاح پہلے بھی متعدد بار مشکلات میں پھنس چکے ہیں‘ پہلے بھی اِن دنوں میں یہاں بدترین ٹریفک جام ہو چکا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اب تو ہفتہ وار چھٹیوں یعنی ہر ویک اینڈ پر ہزاروں گاڑیاں ملکۂ کوہسار کا رخ کرتی ہیں۔ یہاں لینڈ سلائیڈنگ بھی ہوتی ہے اور ٹریفک حادثات کے باعث بھی سیاح گھنٹوں تک پھنس کر رہ جاتے ہیں لیکن حالیہ واقعے میں معاملہ کچھ زیادہ سنگین ہے کیونکہ ذرا سی غفلت سے تقریباً دو درجن قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں جویقینا ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ قانونی یا تکنیکی معاملات تو ماہرین ہی سمجھ سکتے ہیں لیکن ایک عام شہری کے ذہن میں بھی کئی سوالات ابھر رہے ہیں جن کاجواب شاید ہمیں حکومت کی جانب سے نہ مل سکے لیکن سوال کرنا تو ہمارا حق ہے کیونکہ اگر ہم برائی کو ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں بھی رکھتے تو کم از کم اسے برائی کہہ یا سمجھ تو سکتے ہیں۔
سننے میں آیا ہے کہ جب جمعہ کو وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے مری کی سنگین صورتحال دیکھتے ہوئے راولپنڈی؍ اسلام آباد سے مری میں گاڑیوں کا داخلہ بند کرنے کی ہدایت کی تو مری کے ہوٹل مالکان نے شور مچا دیا کہ سیاحوں کوروکنے سے انہیں کاروباری نقصان ہو گا (حالانکہ پہلے ہی گنجائش سے زیادہ سیاح مری میں موجود تھے) جس پر ایک مقامی سیاست دان نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے کسی مجاز اتھارٹی کو کہہ کہلوا کر ٹریفک کھلوا دی جس سے مزید گاڑیاں ملکۂ کوہسار میں داخل ہو گئیں اور پھر سب کچھ جام ہو کر رہ گیا۔ تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے یقینا یہ معاملہ بھی ضرور آئے گا کیونکہ اگر ایسا ہوا ہے تو پھر یہ ٹریفک کنٹرولرز کی غلطی نہیں تھی بلکہ اس کی ذمہ داری ان پر عائد ہو گی جن کے کہنے پر ٹریفک کو دوبارہ کھولا گیا اور اس سانحے پر سزا کے اصل حقدار بھی وہی ہوں گے۔
ایسی صورتِ حال پہلے بھی پیش آتی رہی لیکن ماضی میں امدادی ٹیمیں بروقت پہنچ کر سیاحوں کو مشکل سے نکال لیتی تھیں جبکہ اس بار ہم نے مصیبت میں پھنسے کئی سیاحوں کے ایسے آڈیو اور وڈیو میسج دیکھے اور سنے ہیں جن میں وہ چیخ چیخ کر مدد کے لیے پکارتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ہمیں اٹھارہ یا بیس گھنٹے ہو گئے ہیں‘ متعلقہ محکموں کو اطلاع بھی دے چکے ہیں لیکن کوئی مدد کو نہیں آیا۔ اگر بروقت امدادی سرگرمیاں شروع کر دی جاتیں تو شاید اس انسانی المیے سے بچا جا سکتا تھا۔ جب بیس یا اس سے زائد قیمتی انسانی جانوں کے لقمۂ اجل بن جانے کی خبریں میڈیا پر عام ہوئیں تو پھر انتظامیہ بھی زیادہ متحرک نظر آئی اور وزیراعلیٰ پنجاب بھی ہیلی کاپٹر پر مری پہنچ گئے بلکہ یہ خبر بھی آئی کہ وزیراعلیٰ صاحب نے دو بار علاقے کا فضائی جائزہ لیا‘ مسلسل تین گھنٹے تک مری میں موجود رہے اور صورتحال کا جائزہ لیتے رہے لیکن اس سے پہلے پوری دنیا نے ٹیلی وژن سکرینوں پر یہ خبر بھی دیکھی تھی کہ جب شہری مدد کے لیے چیخ و پکار کر رہے تھے تو اعلیٰ حکام پارٹی کے تنظیمی اجلاس میں شریک تھے۔
اگر ہیلی کاپٹر لوگوں کو ریسکیو کرنے کے لیے پہلے ہی مری بھیج دیا جاتا اور اس کے ذریعے امدادی کارروائیاں شروع کر دی جاتیں تو شاید ان افراد کو بچا لیا جاتا۔ جب اسلام آباد پولیس کے اے ایس آئی نوید اور برف میں پھنسے دوسرے سیاح چیخ چیخ کر مدد کے لیے پکار رہے تھے‘ اگر اس وقت امدادی کارروائی کی جاتی تو ان سیاحوں کو وہاں سے نکالا جا سکتا تھا۔ اگر بروقت ہیلی کاپٹر بھیج کر ایک انسانی جان بھی بچا لی جاتی تو یہ پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہوتا اور ایک مثال قائم ہو جاتی مگر افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔
سانحۂ مری میں جاں بحق ہونے والے اے ایس آئی نوید، ان کی تین بیٹیوں، ایک بیٹے، بہن، بھانجی اور بھتیجے کو گزشتہ روز تلہ گنگ کے نواحی گائوں دودیال میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ ایک ہی گھر سے آٹھ جنازے اٹھے تو غازیوں اور شہیدوں کی دھرتی غم سے لرز گئی۔ تلہ گنگ کی فضا اس موقع پر انتہائی سوگوار تھی۔ ہر آنکھ اشکبار تھی اور اس افسردہ ماحول نے گویا پورے علاقے کو غمگین بنا دیا تھا۔ مری کے المناک سانحہ میں جاں بحق ہونے والے محمد شہزاد‘ ان کی اہلیہ‘ 10 سے 14 سال عمر کے چار بچوں کی نمازِ جنازہ اتوار کے روز شہباز پارک راول روڈ پر ادا کی گئی۔ ایک ساتھ 6 جنازے اٹھنے پر علاقے میں کہرام مچ گیا۔ اس موقع پر لواحقین نے حکومت کی بے حسی پر شدید احتجاج کیا۔ بعد ازاں ان میتوں کو ماڈل ٹائون، سہالہ (اسلام آباد) میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔
راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے مطابق‘ مری میں سیاحوں کو ریسکیو اور روڈ کلیئر کرانے کا آپریشن مکمل کر لیا گیا ہے؛ تاہم ابھی تک مری کی فضا مکمل سوگوار ہے، مال روڈ سمیت پورے مری میں ہو کا عالم ہے۔ گزشتہ روز مری کے تمام ہوٹل مکمل طور پر ویران رہے۔ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے پیر کے روز بھی مری کے تمام داخلی راستوں کو سیاحوں کے لیے بند رکھا گیا۔ سیاحوں کی آمد کو روکنے کے لیے تمام داخلی راستوں پر ٹریفک و ضلعی پولیس کی طرف سے خصوصی پکٹس قائم کر دی گئیں جہاں چیکنگ اور شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد صرف مری کے رہائشی اور ایمرجنسی گاڑیوں کو ہی آنے کی اجازت دی گئی۔ دوسری جانب برف میں پھنسی سیاحوں کی گاڑیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے بعد ان کی حوالگی کا عمل بھی جاری ہے۔ مری کی اہم شاہراہوں‘ ہائی وے، سنی بینک، آر ایم کے روڈ، کلڈنہ روڈ، باڑیاں روڈ، جھیکا گلی، لارنس کالج، لوئر ٹوپہ اور بھوربن روڈ کے علاوہ دیگر علاقوں سے برف ہٹا کر ان کو کلیئر کر دیا گیا ہے۔ منگل کو بھی مری سیاحوں کے لیے نہیں کھولا گیا جبکہ شام کو پابندی میں توسیع کرتے ہوئے نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹرویز اتھارٹی کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ 17 جنوری تک مری میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اتھارٹی کے مطابق اس پابندی کا اطلاق محکمہ موسمیات کی پیش گوئی اور انتظامیہ کی ہدایات پر کیا گیا ہے؛ البتہ مقامی افراد اور امدادی سامان لے کر جانے والی گاڑیوں کو داخلے کی اجازت ہو گی۔
زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر بات کی جائے تو مہنگائی کے اس عالم میں ایک عام آدمی کے لیے اپنے اہلِ خانہ کو سیر و تفریح کیلئے مری لے کر جانے کے سوا دوسرا کوئی آپشن نہیں۔ غریب آدمی اپنے بچوں کو لندن یا دبئی تو لے کر جا نہیں سکتا، ناران‘ کاغان جانے کیلئے بھی زیادہ وسائل چاہئیں‘ ایسے علاقوں میں تین دن سے کم وقت میں نہیں جایا جا سکتا اس لیے عوام مری کا رخ کرتے ہیں کیونکہ مری اور گلیات کا آنے جانے کا سفر ایک دن‘ رات میں مکمل ہو جاتا ہے۔ غریب کے بچے بھی سیر و سیاحت کیلئے ماں باپ کو مجبور کرتے ہیں، ان حالات میں لوگ مری بھی نہ جائیں تو کیا کریں؟ لوگوں کو اب تفریح سے تو نہیں روکا جا سکتا لیکن حکومت متعلقہ اداروں اور عوام کے درمیان رابطے کا نظام اور سہولتوں کو تو بہتر بنا ہی سکتی ہے تاکہ آئندہ ایسے کسی بھی المیے سے بچا جا سکے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں