نہ یہ سیاست ہے، نہ جمہوریت!

دورِ حاضر کی سیاست بڑی بے رحمانہ ہے، یہ سیاست کم اور جنگ زیادہ ہے۔ آج کل کی سیاست قائداعظم محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال، سرسید احمد خان، لیاقت علی خان یا ابوالکلام آزاد والی سیاست تو ہے نہیں جو وطن کی ترقی، خوشحالی یا سالمیت کے لیے ہو یا پھر مقصد عوام کی خدمت ہو بلکہ موجودہ دور کے ایک کامیاب سیاستدان اور پندرہ وفاقی وزارتوںکے ریکارڈ ہولڈر شیخ رشید احمد کے بقول پاکستانی سیاست دان ہمیشہ مفاد کی سیاست کرتا ہے۔ اتوار کے روز جو کچھ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں ہوا‘ وہ دیکھ کر شیخ صاحب کی بات سو فیصد درست معلوم ہوتی تھی۔ جب حکومت نے اقتدار ہاتھ سے نکلتا دیکھا تو قومی اسمبلی ہی تحلیل کر دی، حکومت نے اپنے اس اقدام سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اصل جنگ صرف اقتدار ہی کے لیے ہے۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی کو بحال کر دیا ہے مگر حکومت اب بھی اپنی ضد پر اڑی ہوئی ہے اور اب استعفوں کا غوغا بلند ہو رہا ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے لیڈران جب حکمران بن جاتے ہیں تو پھر ان کی نظر میں آئین اور قانون وہی ہوتا ہے جو ان کی مرضی، سوچ اور ضرورت کے مطابق ہو اور جہاں کہیں ان کے مفادات کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہو‘ وہاں اختیارات کے ناجائز استعمال سے لے کر آرڈیننس کے اجرا سمیت کوئی بھی آپشن بروئے کار لانے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک مثال پیکا آرڈیننس بھی ہے‘ جسے اسلام آباد ہائیکورٹ نے خلافِ آئین قرار دے دیا ہے۔ یہ کسی ایک حکومت یا سیاسی جماعت کی بات نہیں ہے بلکہ گزشتہ تین دہائیوں سے ہم ایسی ہی پریکٹسز دیکھتے چلے آ رہے ہیں ۔ اگلے‘ پچھلے‘ ہمارے سبھی حکمرانوں کی عمومی خواہش یہی ہوتی ہے کہ انتظامیہ اور پولیس سو فیصد ان کی مرضی کے تابع ہو اور تقریباً ایسا ہوتا بھی آیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عدلیہ سے بھی ہمیشہ ان کی مرضی کے مطابق اور ان کے حق میں فیصلے آیا کریں لیکن ایسا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ عدالتوں نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا
ہوتے ہیں۔ حکمران طبقہ چاہتا ہے کہ تمام اہم قومی ادارے ان کے ہر قول و فعل کے ضامن بن کر مخالفین کو دبانے میں حکومت کی معاونت کریں لیکن یہ بھی ممکن نہیں ہوتا کیونکہ قومی اداروں کی ترجیحات کسی سیاسی جماعت یاحکومتِ وقت کے مفادات نہیں بلکہ ریاستی مفادات اور قومی سلامتی کا تحفظ ہوتی ہیں۔ دوسری جانب جب ہمارے یہی رہنما حزبِ اختلاف میں ہوتے ہیں یا انتخابات میں ناکامی کے باعث اسمبلی میں نہیں پہنچ پاتے تو پھر انہیں میرٹ، انصاف اور آئین و قانون کی بالادستی کی فکر لاحق رہتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت ہر کام میں ان سے مشاورت کرے اور ان کی بات کو اہمیت بھی دے۔ ان کی ہر درخواست پر فوری ایکشن لیا جائے اور حکومت کے تمام اقدامات کی مانیٹرنگ بھی ان کے نقطہ نظر سے کی جائے۔ دیگر قومی ادارے حکومت کے ہر کام میں رکاوٹ پیدا کریں اور جب بھی اپوزیشن اشارہ کرے تو وہ حکومت کی حکم عدولی سے بھی گریز نہ کریں، حالانکہ انہیں پتا ہوتا ہے کہ ایسی خواہش کرنا بھی کارِ عبث ہے مگر وہ دن رات اپنے بیانات اور پریس کانفرنسز کے ذریعے حکومت کو جا بجا تنقید کا نشانہ بنا کر خود کو حکومت کا بہترین متبادل ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔
ان باتوں کا مطلب یہ نہیں کہ سو فیصد سیاستدان مطلبی، خودغرض، مفاد پرست اور صرف اقتدار کے پجاری ہوتے ہیں بلکہ ہمارے سیاست دانوں میں انتہائی ایماندار، محب وطن، مخلص اور قومی خدمت کے جذبے سے سرشار لیڈروں کی بھی کمی نہیں اور شاید انہی کی وجہ سے یہ نظام اب تک چل رہا ہے ۔ متعدد سیاستدان ایسے ہیں جنہوں نے اپنے حلقے اور ووٹروں کی تقدیر بدل کر رکھ دی؛ البتہ مجموعی طور پر اکثریت ایسے سیاستدانوں کی ہے جن کا مطمحِ نظر بظاہر صرف اقتدار کاحصول ہی ہوتا ہے۔ ملک کا حالیہ سیاسی بحران بھی ملک و قوم کی خدمت، آئین و قانون کی بالادستی، عوام کی خوش حالی، صوبائی خود مختاری، مفاداتِ وطن کی پاسداری یا قوم کی خودداری سے زیادہ سیدھی سیدھی اقتدار کی جنگ ہے۔
خان صاحب کے بارے میں پہلے ہی یہ بات مشہور تھی کہ جب بھی وہ اقتدار کی بند گلی میں پھنسے تو مسندِ اقتدار کسی اور کے حوالے کرنے کے بجائے وہ اسمبلیاں توڑنے کوترجیح دیں گے اور حالیہ بحران میں انہوں نے اپنے تئیں یہی کچھ کیا مگر اب جب فیصلہ حکومت کے خلاف آیا ہے تو حکومتی زعما کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ حکومت کے پاس ابھی پلان بی اور پلان سی بھی ہیں‘ مطلب کچھ بھی ہو جائے‘ اپوزیشن کو اس میعادِ اسمبلی میں مسندِ حکومت پر بیٹھنے نہیں دیا جائے گا اور چار و ناچار انہیں نئے انتخابات کی طرف دھکیلا جائے گا۔ جب یہ بحران شروع ہوا تھا‘ اس وقت خان صاحب چاہتے تو اپنی جگہ پارٹی کے کسی دوسرے رہنما کو وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھا کر اس معاملے کو سیاسی طور پر حل کر سکتے تھے لیکن موروثی سیاست کے بھرپور مخالفت کے باوجود‘ وہ بھی اپنی ذات سے باہر نکلنے کو تیار نہیں اور اپنے چھبیس سالہ سیاسی سفر کے بعد بھی اپنے کسی رفیق پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح پی ٹی آئی بھی صرف اور صرف عمران خان کے گرد ہی گھومتی ہے یعنی اگر کپتان نہیں تو پھر کوئی اور بھی نہیں۔
حزبِ اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں کا حال بھی بالکل ایسا ہی ہے۔ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کا مطالبہ اسمبلیوں کی مقررہ مدت کے بجائے قبل از انتخابات تھا۔ ساری جماعتوں کی قیادت کا یہی مطالبہ تھا کہ عمران خان اقتدار چھوڑیں اور فوری الیکشن کا اعلان کریں، قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد بھی اسی لیے لائی گئی اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے حکمران جماعت پی ٹی آئی کے اراکین کو توڑنے کے علاوہ اتحادی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل کی گئی لیکن جب عمران خان نے ایک سیاسی چال کے ذریعے عدم اعتماد کی تحریک کو بظاہر ناکام بنا دیا اور ساتھ ہی صدرِ مملکت کو اسمبلیاں توڑنے کی تجویز بھیج کر ملک میں نئے انتخابات کا اعلان کردیا تو اپوزیشن کو یہ بات ذرہ برابر بھی پسند نہ آئی اور حکومت کے اس اقدام کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کر دیا گیا۔ حالانکہ زمینی حقائق کے مطابق یہ اپوزیشن کی سو فیصد کامیابی تھی اوران کا مطالبہ پورا ہوگیا تھا لیکن شاید اس بار وہ خان صاحب کو ہٹانے اور نئے انتخابات کی بجائے خود کو ذہنی طور پر اقتدار کی مسند پر بٹھا چکے تھے۔ وزارت عظمیٰ سے لے کر داخلہ، خارجہ، خزانہ، اطلاعات اور قانون سمیت
سبھی وزارتوں اور عہدوں کو آپس میں تقسیم بھی کیا جا چکا تھا مگر وقتی طور پر حکومت نے اپوزیشن کی امیدوں کے بلند میناروں کو زمین بوس کر دیا۔ اب بظاہر فیصلہ اپوزیشن کے حق میں آیا ہے لیکن اگر حکومت کی جانب سے استعفوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو اپوزیشن کے لیے ایک اور بحران کھڑا ہو جائے گا۔ بجائے اس کے کہ وہ نئے انتخابات کا اپنا مطالبہ پورا ہونے پر فتح کا جشن مناتے‘ انہوں نے رونا دھونا شروع کر دیا جبکہ اپنا سب کچھ کھونے والے اور حقیقت میں بند گلی میں پھنسنے کے بعد حکومتی ارکان نے اسے اپنی کامیاب چال قرار دے کر جشن منانا شروع کر دیا تھا۔ اب عدالت کا فیصلہ آ چکا ہے گزشتہ معاملے کا ڈراپ سین ہوچکا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اب ایک نیا بحران درپیش ہے۔ ہمارے سیاستدان ملک و قوم کے حالات، عوامی مفادات، معاشی مسائل اور اندرونی و بیرونی صورتحال کو مدنظر رکھنے کے بجائے صرف اقتدار کی رسہ کشی میں کیوں لگے ہوئے ہیں؟ آخر پُرامن انتقالِ اقتدار کا راستہ کیوں نہیں اپنایا جا رہا؟ جب نئے انتخابات کا اعلان کر دیا گیا تھا تو پھر واویلا کس بات کا؟ اپوزیشن نے شکرانے کے نوافل کیوں نہ ادا کیے اور نیا سیاسی محاذ کیوں کھول دیا؟
آخرکار الیکشن ہی ہونا ہیں تو پھر یہ سیاسی ہنگامہ آرائی، احتجاج اور افراتفری کیوں؟ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں عوام کو سڑکوں پر کیوں گھسیٹا جا رہا ہے؟ حزب اقتدار اور حزب اختلاف باہمی مشاورت اور رضامندی سے معاملات کو آگے کیوں نہیں بڑھا رہے؟ حقیقت یہی ہے کہ اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ نہ تو سیاست ہے اور نہ جمہوریت‘ بلکہ یہ محض اقتدار کی رسہ کشی ہے جس میں بہرحال نقصان غریب عوام کا ہو رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں