الٹے قدموں کااستعمال!

نیوزڈیسک سے رپورٹنگ میں تبادلے کے لیے کئی بار خواہش کااظہار کیا لیکن اس کی تکمیل میں کئی سال لگ گئے اوربالآخر اس شرط پر یہ ذمہ داری تفویض کی گئی کہ ہائیکورٹ کی رپورٹنگ کرنا پڑے گی۔ یہ موقع اسی لیے مل سکا کہ اس زمانے میں عدالتی رپورٹنگ‘ خصوصاً ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ کی خبروں میں صحافتی، عدالتی، آئینی، قانونی، سماجی، اخلاقی اور معاشرتی اقدار کابہت زیادہ خیال رکھنا پڑتاتھا اور معمولی سی غلطی پر بھی نوٹس کا سامنا کرناپڑ جاتاتھا بلکہ بعض اوقات تو ادارے کو نوٹس ملنے کی صورت میں پہلے عدلیہ میں پیشی اور پھر نوکری سے چھٹی کا پروانہ مل جاتا تھا جبکہ اس کے مقابلے میں دیگر سیاسی، ثقافتی، تعلیمی، کھیلوں اور انتظامی اداروں کی رپورٹنگ میں کچھ زیادہ پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ کورٹ رپورٹنگ کی سختیوں کے باعث ہی مجھ سے پہلے کچھ سینئر رپورٹروں نے ہائیکورٹ کی بیٹ (beat) سنبھالنے سے معذرت کر لی تھی اوریوں قرعہ فال میرے نام نکل آیا۔ رپورٹنگ کے شوق میں یہ چیلنج قبول توکر لیا لیکن 'لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ‘ میں پہلے روز اپنے ایک سینئر رپورٹر‘ دوست اقبال ملک سے درخواست کی کہ میرے ساتھ چلو اور مجھے سمجھائو کہ عدالتی خبر کیسے لینی ہے، اس کی تصدیق کیسے کرنی ہے اور پھر کن کن آداب کاخیال رکھنا ضروری ہے؟ ملک صاحب نے بڑے لمبے لیکچر دیے، بہت کچھ سمجھایا، کافی ڈرایا اور کچھ سنیئر وکلاء سے بھی ملوایا۔
کورٹ رپورٹنگ کاپہلا سبق یہ دیاگیا کہ جب بھی آپ نے عدالت کے احاطے میں پہنچنا ہے تو فوراً اپنا موبائل فون خاموش (سائلنٹ) کر لیناہے تاکہ عدالت میں کسی مقدمے کی سماعت کے دوران موبائل فون کی گھنٹی بجنے سے عدالتی ماحول خراب اور وقار مجروح نہ ہو۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اگر کسی وکیل یا سائل کے موبائل فون کی گھنٹی غلطی سے بج جاتی تو عدالت وہ فون ضبط کرلیتی اورپھر حکم دیاجاتا کہ فلاں خیراتی ادارے میں جرمانے کے طور پر اتنا چندہ جمع کروا کر اس کی رسید لائیں اوراپنا موبائل فون واپس لے جائیں۔ دوسری بات یہ سمجھائی گئی کہ جب بھی عدالت میں داخل ہونا ہے تو پہلے تعظیم بجالانی ہے اور جب کمرۂ عدالت سے باہر نکلناہے تو الٹے قدموں کااستعمال کرناہے تاکہ معزز عدالت (جج صاحبان) کی جانب پشت نہ ہو۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وکلا، سائلین، اعلیٰ افسران، سرکاری اہلکار، صحافی اور قانون دانوں کے معاونین‘ سبھی کمرۂ عدالت سے نکلتے وقت الٹے قدموں کااستعمال کرتے تھے اور پھر واپس دروازے سے نکلتے وقت دوبارہ تعظیم بجا لاتے اور کورٹ سے باہر نکل کر ہی سیدھا چلنا شروع کرتے۔ تیسرا سبق یہ دیاگیاکہ ہمیشہ کوشش یہ کرنی ہے کہ کیس کی خبر اِن وکیل صاحب سے لینی ہے جن کے حق میں فیصلہ ہوا ہے کیونکہ بعض اوقات مقدمہ ہارنے والا وکیل خبر کو اپنے مقصد یامطلب کے مطابق بنانے کے لیے فیصلے کی تشریح اپنی مرضی سے کر دیتاہے جو بعدازاں کسی نوٹس کاپیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔ یہ بات بھی سمجھائی گئی کہ خبر میں کیس جیتنے کے حوالے سے صرف کونسل کانام دینا ہے اور مقدمہ ہارنے والی پارٹی کے وکیل کانام کبھی بھی شائع نہیں کرنا۔ عدلیہ کے بعد وکلا کااحترام اور وقار بھی کورٹ رپورٹنگ میں ضروری ہوتاہے۔ پانچویں بات یہ تھی کہ اگر کسی خبر کی تصدیق یاتصحیح عدالتی عملے سے کرنا مقصود ہوتو عدالت کے برخاست ہونے تک انتظار کرنا چاہئے اور جب جسٹس صاحب عدالت سے اٹھ کر چیمبر میں چلے جائیں‘ اس کے بعد کورٹ افسران سے کیس کی فائل لے کر یاتفصیلات پوچھ کر اپنے نکات مکمل کریں۔
ہمیں بتایا گیا تھا کہ عدالتی خبر بناتے وقت اورخصوصاً اعلیٰ عدلیہ کی رپورٹنگ میں بہت سی باتوں کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔ سب سے پہلے یہ کہ خبر کے آغاز میں عدالتِ عالیہ یا عدالتِ عظمیٰ کے جج صاحبان کے نام کے ساتھ ''جج جناب جسٹس‘‘ یا ''جج مسٹرجسٹس‘‘ کے الفاظ لکھنا ضروری ہے۔ اگر کسی خبر میں معزز جج صاحب کے نام کے ساتھ مذکورہ الفاظ نہ لکھے جاتے تو اگلی صبح پیشی، سرزنش، جرمانہ یا سزا بھی بھگتنا پڑ سکتی ہے۔ خبر میں عدالتی ریمارکس بھی الفاظ من وعن لکھنا پڑتے ہیں اور صحافتی آداب کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس زمانے میں کسی کو توہین عدالت کی جرأت بھی نہ ہوتی تھی اور ہر کوئی عدلیہ کا احترام ملحوظ رکھتاتھا۔ ایک بار کسی وکیل نے ایک سینئر رپورٹر کوکیس کافیصلہ تھوڑا اپنی مرضی کے مطابق لکھوا دیا، اگلی صبح ہمارے دوست کو پیشی بھگتنا پڑگئی۔ وکلاء نے اس کا ساتھ دیا اور کہا کہ غلطی نادانستہ ہے‘ معزز عدالت کو بھی بات سمجھ آگئی کہ وکیل صاحب نے کیس ہارنے کے بعد اپنے کلائنٹ کو خوش کرنے کے لیے خبر کازاویہ تبدیل کرایا‘ یوں ان کی جان بخشی ہو گئی۔
ابھی ہمارے ان دوست کی پیشی تازہ تازہ تھی کہ دو روز بعد راقم الحروف رپورٹنگ کے لیے جب لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ پہنچا تو بار ایسوسی ایشن کے کلرک نے بتایا کہ فلاں جسٹس صاحب کی عدالت سے ایک اہلکار دو‘ تین بار آپ کا پوچھنے آچکاہے۔ یہ سنتے ہی پسینے چھوٹنے لگے اور میں سیکرٹری ہائیکورٹ بار (موجودہ سینئرجج جناب جسٹس ملک شہزاد احمد گھیبہ) کے دفتر گیا اور انہیں اپنی پریشانی بتائی۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے کہ پریشان نہ ہوں۔ ابھی ان کی بات جاری تھی کہ عدالتی اہلکار وہاں پہنچ گیا اورکہنے لگا کہ جج صاحب صبح سے بار بار آپ کاپوچھ رہے ہیں‘ میرے ساتھ چلیں۔ ملک شہزاد صاحب نے کہاکہ آپ چلیں‘ میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے آرہاہوں۔ آیت الکرسی کا ورد کرتے ہوئے عدالت میں داخل ہوا تو ریڈر نے عملے سے کہاکہ انہیں چیمبر میں لے جائیں۔ چیمبر میں داخل ہوا تو معزز جج صاحب نے کھڑے ہوکر استقبال کیا اور بڑی شفقت سے سامنے بیٹھنے کا کہا۔ میری پریشانی میں کچھ کمی توواقع ہو گئی لیکن ابھی تک سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر کون سا ایسا مسئلہ ہے جس کے لیے عدالتی اہلکار صبح سے مجھے تلاش کر رہا تھا۔ ایک اہلکار نے پہلے پانی پیش کیا، پھر چائے پیش کی، جس کے بعد جج صاحب مخاطب ہوئے اور بڑے پیار سے کہنے لگے کہ آپ سے ایک گزارش تھی۔ میں نے کہاکہ حکم کریں۔ جج صاحب کہنے لگے کہ آپ لوگ جو خبریں لگاتے ہیں‘ میں چاہتاہوں کہ خبر میں میرا نام نہ دیا کریں بلکہ صرف عدالت کاذکر کیاکریں۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ادب کے ساتھ سوال کیا کہ سنگل بینچ کی خبر میں ایسا تو ہوسکتاہے لیکن جب ڈویژن بینچ ہوتو پھر بعض صاحبان خبر میں نام بلکہ ریمارکس بھی پسند کرتے ہیں۔ جس پر وہ مسکرائے اور کہنے لگے کہ چلو اس میں تو مجبوری ہے لیکن سنگل بینچ کی خبر میں میرا نام نہ دیا کریں۔ پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ ججز عدالت سے باہر کتنے شفیق ہوتے ہیں۔ اگر وہ عدالت کے اندر‘ مقدمات کے فریقین سے ایسا رویہ رکھیں تو پھر ان کے فیصلوں کااحترام کون کرے گا اوران پر عملدرآمد کہاں ہوگا؟
آج کل یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کورٹ کی رپورٹنگ میں بعض اوقات صحافتی، عدالتی، آئینی، قانونی اوراخلاقی اقدار نظرانداز کی جاتی ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے نام کے ساتھ ''جج مسٹر جسٹس‘‘ لکھنا تو دور کی بات‘ کئی بار جسٹس کالفظ لکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی اور صرف ''سپریم کے جج‘‘ لکھ دیاجاتاہے جوشاید قانونی طور پر بھی غلط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل عدالتی فیصلوں پر ہرکوئی اپنی مرضی کے تبصرے کرنے لگا ہے۔ عدلیہ پر غیر قانونی تنقیدکے ساتھ ساتھ بعض کیسز میں پر توہینِ عدالت کا پہلو بھی سامنے آیا ہے۔ فیصلوں پر عملدرآمد نہ کرنا اور انہیں چیلنج کرنا مذاق بن چکاہے جو معاشرے کیلئے بھی نقصان دہ ہے۔ جب تک الٹے قدموں کے استعمال سے لے کر دیگر تمام آداب پر سوفی صد عمل نہیں ہوگا‘ اس وقت تک غیرذمہ دار لوگ فیصلوں کامذاق اڑاتے رہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں