سنتے تھے کہ پاکستان میں آئین و قانون صرف غریب کے لیے ہیں۔ اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہ نکالیے کہ آئین و قانون شاید ہر قسم کا تحفظ غریب کو فراہم کرتے ہیں بلکہ اس کا صاف صاف مطلب یہی ہے کہ ہمارے ملک میں آئین کے دائرے میں رہ کر زندگی گزارنا اور قانون پر عمل کرنا صرف اورصرف غریب‘ بے سہارا اور کمزور طبقے کا کام ہے۔ یہ بھی سنتے آئے ہیں کہ قانون کے ہاتھ بڑے لمبے ہوتے ہیں لیکن پھر معلوم ہوا کہ وہ بھی صرف بے بس اور بے کس افراد کی گردن تک ہی پہنچ سکتے ہیں۔ جو امیر ہیں‘ قانون ان کے لیے موم کی ناک کی طرح ہوتا ہے‘ جو بااثر ہیں‘ قانون ان کے زیر اثر ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا عدالتی نظام مسائل کے باوجود غریب و بے کس لوگوں کا واحد سہارا ہے لیکن بدقسمتی سے غریب کے لیے انصاف تک رسائی آسان نہیں۔ عدالتوں سے انہی چند فیصد غریبوں کو ریلیف یا انصاف مل پاتا ہے جو کسی نہ کسی طرح عدالت تک پہنچ پائیں۔ پہلی بات یہ کہ ملک کے پسماندہ اور کمزور طبقے کو اتنا شعور ہی نہیں کہ وہ ظلم کے خلاف قانون کا دروازہ کھٹکھٹائے۔ اگر کوئی یہ بات سمجھا دے‘ تب بھی اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ اپنے مقدمے کی پیروی کے لیے کسی اچھے وکیل یا لاء فرم کی خدمات حاصل کی جا سکیں اور اگر قانونی مشاورت مل جائے تو اکثر و بیشتر طاقتور اور ظالم کا دبائو برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور یوں بااثر ملزمان قانون کے شکنجے سے صاف بچ نکلتے ہیں‘ اس حوالے سے ہماری ملکی تاریخ مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ دوسری جانب یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی امیر زادے کو بچانے کے لیے کسی غریب کو پھنسا دیا جاتا ہے۔ خیر‘ آپ نے زیادہ پریشان نہیں ہونا کیونکہ قانون تک رسائی کے لیے کوئی بہت لمبی چوڑی دولت یا اثر و رسوخ کی ضرورت نہیں بلکہ اگر آپ کوئی چھوٹا موٹا ہوٹل، بیکری یا کوئی دوسرا کاروبار شروع کر لیں تو خود بخود راستہ نکل آئے گا۔ اسی طرح اگر آپ کا تعلق کسی وڈیرے، سیاست دان یا سرمایہ کار سے استوار ہو جائے تو صرف ایک فون کال بھی سب کچھ سدھار سکتی ہے۔
ہم جیسے عام شہریوں (عوام الناس) کا سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ روٹی، کپڑا اور مکان ہے۔ ہم نے تین‘ چار دہائیاں اسی نعرے کے چکر میں گزار دیں، پھر سستے راشن اور میرا گھر سکیم کے نام پر ہمیں خوش کر کے ووٹ لیے گئے، اس کے بعد پچاس لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کا جھانسہ دیا گیا اور جب تبدیلی کے اس نعرے پر بھی ووٹ لے لیے گئے تو عوام کو بتایا گیا کہ یہ بات تو ناتجربہ کاری میں کہی گئی تھی‘ ایسا تو ممکن ہی نہیں لہٰذا پہلے سابقہ حکومتوں کی طرح پندرہ‘ بیس سال تجربات کرنے دیں‘ پھر دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے۔ غرض ہر کسی نے عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان کا ہی جھانسہ دے کر بے وقوف بنایا۔ بات آئین کی ہو رہی تھی اور ہم نے بحث روٹی‘ کپڑے اور مکان کی شروع کر دی۔ دراصل اس بات کا مقصد یہی تھا کہ جب اس طرح کے معاملات عام آدمی کامسئلہ ہی نہیں یا یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ جب عام آدمی ان کو اپنا مسئلہ سمجھتا ہی نہیں تو پھر اس بارے سوچنے اور پریشان ہونے کی ضرورت کیوں ہے؟عام آدمی کا مقصد تو روٹی اور روزگار ہے۔
آئین ملک و قوم کے لیے وہ مقدم و مقدس دستاویز ہے جو چند محب وطن سیاست دانوں نے 1973ء میں مرتب کی تھی اور جس میں بظاہر ہمارے ملک کا سارا نظام اور تمام مسائل کا حل پوشیدہ ہے لیکن بدقسمتی سے گزشتہ چند ہفتوں سے ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اسے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ شاید ملک میں کوئی آئین اور قانون ہی موجود نہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں ایک (مرحوم) وزیر صاحب اپنی حکومت کے ہر جائز و ناجائز کام کا دفاع آئین کی دستاویز لہرا کر کرتے تھے اور برملا کہتے تھے کہ یہ 1973ء کے آئین کے اندر لکھا ہوا ہے۔ صرف مشرف دور ہی نہیں‘ ہر دورِ حکومت میں چند افراد یہی فریضہ انجام دیتے رہے کہ حکومت کے فیصلوں اور اقدامات کو کسی طرح آئین و قانون کے پیرہن میں فٹ بٹھائیں۔ سابق حکومت بھی آئین کو اپنی مرضی کا رخ دیتی اور آئین کے آرٹیکلز کو اپنی مرضی کا مفہوم پہناتی رہی۔ آئے روز اپنی مرضی کا قانون مسلط کرنے کے لیے صدرِ پاکستان سے کوئی نہ کوئی آرڈیننس جاری کرا لیا جاتا، یعنی کسی بھی آئین و قانون کو عارضی طور پر اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کے لیے آرڈیننس کا سہارا لیا جاتا۔ آئین سے متصادم کئی آرڈیننس اعلیٰ عدلیہ نے کالعدم قرار دیے‘ اس کے باوجود دمِ آخر تک اس روش کو ترک نہیں کیا گیا۔
سنتے آئے ہیں کہ صدر اور گورنروں کو آئینی عہدے ہونے کے ناتے آئینی استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔ اس آئینی استثنیٰ کی درست تشریح تو اعلیٰ عدلیہ ہی کر سکتی ہے یا کوئی ماہرِ قانون ہی بتا سکتا ہے لیکن گزشتہ چند ہفتوں سے ہمارے ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس سے تو میرے جیسا ایک عام فہم آدمی یہی سمجھ سکا ہے کہ کچھ آئینی عہدوں کا مطلب آئین سے ماورا ہونا ہوتا ہے؛ یعنی جو بھی شخص اس عہدے پر فائز ہو جائے‘ پھر اس پر ملک کا آئین اور قانون لاگو نہیں ہوتا۔ وہ کسی قانون کا پابند ہوتا ہے اور نہ ہی کسی عدالت کو جوابدہ۔ وہ اپنے ذاتی یا سیاسی مفاد کی خاطر من پسند حکم نامہ جاری کر سکتا ہے۔ اس سے نہ تو کوئی اتھارٹی جواب طلبی کر سکتی ہے اور نہ ہی وہ کسی قانون کا پابند ہوتا ہے۔ لیکن یہ سب باتیں میرے جیسے ایک کج فہم آدمی کی سوچ ہو سکتی ہیں، حقیقت میں تو ایسا نہیں ہو گا۔ ملک میں کوئی بھی شخص آئین و قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔ ایسا بھی ممکن نہیں کہ جب کوئی شہری صدر یا گورنر کے منصب پر فائز ہو جائے تو اس سے عدلیہ جواب طلبی نہیں کر سکتی۔ آخر ان آئینی عہدوں کے اختیارات کی بھی کوئی حد ہوتی ہو گی، یا جس طرح بہت سارے اہم معاملات میں صدرِ پاکستان، وزیراعظم اور گورنرز وزرائے اعلیٰ کی ایڈوائس پر عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں اور اس کے لیے ایک ٹائم فریم بھی مقرر ہے‘ اگر ملک کے موجودہ سیاسی حالات کے مطابق آئینی بحران پیدا ہو جائے تو ایسی صورت میں بھی مسائل کا حل آئین و قانون میں ضرور موجود ہو گا لیکن اس کی صحیح تشریح اعلیٰ عدلیہ ہی کر سکتی ہے۔
گزشتہ روز گورنر پنجاب کی تقرری پر غیر آئینی احکامات سے متعلق قومی اسمبلی میں صدرِ مملکت کے خلاف قراردادِ مذمت منظور کی گئی۔صدر ڈاکٹر عارف علوی کے خلاف پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیا کہ صدرِ مملکت نے گورنر پنجاب کی تقرری پر غیر آئینی احکامات جاری کیے اور ایوانِ صدر کے دفتر کا غیر آئینی استعمال کیا۔ مذمتی قرارداد میں کہا گیا کہ یہ ایوان صدرِ مملکت کے غیر آئینی احکامات کی مذمت کرتا ہے‘ صدر کا آئین سے انحراف عہدے اور پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہے۔ یہ ایوان صدرِ مملکت پر زور دیتا ہے کہ وہ غیر جانبدار رہ کر آئین کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) نے اس قراردادکے پیش کیے جانے کی مخالفت کی ؛ تاہم یہ منظور کر لی گئی۔ ایسی ہی ایک قرارداد پنجاب اسمبلی میں بھی جمع کرائی گئی ہے۔ دوسری جانب پنجاب کے گورنر کو جس طرح ہٹایا گیا اور گورنر ہائوس میں عمر سرفراز چیمہ کے داخلے پر پابندی عائد کی گئی‘ یہ بھی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔حقیقت ہے کہ جو کچھ ان دنوں میں دیکھنے میں آیا اور اب تک آ رہا ہے‘ گزشتہ ساڑھے سات دہائیوں کی ملکی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
بہرحال اس بات کا تعین کیا جانا چاہئے کہ جب آئینی عہدے پر فائز کوئی شخص آئین شکنی کا مرتکب ہو تو اس سے جواب طلبی کون کرے گا یا اسے آئین پر عملدرآمد کا پابند کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ ملک کو کسی بڑے آئینی بحران سے بچانے اور ساتھ ہی ساتھ دنیا بھر میں ہونے والی بدنامی کا سدباب کرنے کے لیے ان مسائل کا آئینی و قانونی حل نکالنا ہو گا۔