سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا معاملہ آیا تو سیاسی بحران اس عروج پر پہنچ گیا کہ جمہوریت کا وجود ہی خطرے میں محسوس ہونے لگا۔ عدالت عظمیٰ کے حکم پر بھی سابق حکومت عدم اعتماد کی تحریک پر رائے شماری کرانے کے لیے راضی دکھائی نہ دیتی تھی۔ حالات تصادم کی طرف جا رہے تھے ، ذمہ دار حلقوں کا موقف تھا کہ معاملہ پارلیمنٹ خود حل کرے۔ جب صورتِ حال انتہائی کشیدہ ہو گئی اور سپریم کورٹ کی ڈیڈلائن قریب آ گئی تو خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ تصادم کی صورت میں ملک و قوم کا نقصان ہو سکتا ہے‘ لہٰذا عدالت کے دروازے کھلے، انصاف کی گھنٹی بجی تو تحریک انصاف کو بھی خیال آ گیا اور سابق سپیکر اسد قیصر اور ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے استعفیٰ دے دیا‘ جس کے بعد چیئرمین آف پینل نے سپیکر کی کرسی سنبھالی۔ ایاز صادق صاحب کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائی گئی اور یوں بظاہر سنگینی کی جانب بڑھتا معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر رات گئے عدالت کے دروازے نہ کھلتے تو شاید مذکورہ بالا معاملات اتنی آسانی سے نہ سلجھتے۔ یوں نظام انصاف کے سب سے بڑے محافظ ادارے نے ملک کو ایک سنگین بحران سے بچا لیا۔ پوری قوم نے عدالت عظمیٰ کے مثبت کردار کو سراہا لیکن سابق حکمران جماعت نے اقتدار جانے کے غم میں رات گئے عدالت کھلنے کے واقعے کو اپنا سیاسی بیانیہ بنانے کی کوشش شروع کر دی۔ سابق وزیراعظم کی جانب سے عوامی خطابات اور جلسوں میں بار ہا سوال اٹھایا گیا کہ آخر رات گئے عدالت لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ جس پر جواب دیا گیا کہ عدلیہ چوبیس گھنٹے انصاف کی فراہمی پر مامور ہے‘ جب بھی کہیں فوری انصاف کی ضرورت پڑی تو عدالتیں اسی طرح رات کو بھی کھلیں گی۔
چند روز قبل سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کی مرکزی رہنما شیریں مزاری کو اینٹی کرپشن پنجاب نے اسلام آباد پولیس کی مدد سے ان کی رہائش گاہ کے باہر سے گرفتار کیا تو ان کی بیٹی نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا جبکہ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت نے بھی ہفتہ کی چھٹی کے باوجود اعلیٰ عدلیہ سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ رات کو سپریم کورٹ کھلنے پر بے جا اعتراض کرنے والے سیاسی رہنما بار بار عدالت کھولنے اور فوری نوٹس لے کر انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے دروازے رات گئے کھولے گئے، شیریں مزاری کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔ انہیں مقررہ وقت پر عدالت میں پیش کیا گیا جس پر ہائیکورٹ نے نہ صرف انہیں رہا کرنے کا حکم دیا بلکہ ان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا بھی حکم جاری کر دیا۔ اگر چھٹی کے باوجود رات گئے عدالت کے دروازے نہ کھلتے تو شاید شیریں مزاری کو راجن پور یا لاہور منتقل کیا جا چکا ہوتا اور وہ آج بھی انصاف کی تلاش میں ادھر ادھر کے چکر لگا رہی ہوتیں یا پھر حوالات میں بند ہوتیں۔ چند روز قبل تک جو رات کو عدالت کھلنے کو سیاسی بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے‘ یقینا انہیں سمجھ آ گئی ہو گی کہ دن ہو یا رات‘ عدالتیں کھلیں گی تو ہی کسی کو انصاف فراہم کیا جا سکے گا اور تبھی کسی کو بھی آئین و قانون توڑنے کی جرأت نہیں ہوسکے گی۔
لاہور کے علاقے شادباغ سے‘ دسویں جماعت کی ایک طالبہ کو اغوا کیا گیا تو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے فوری از خود نوٹس لیا اور رات 8 بجے عدالت لگائی گئی۔ آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ بچی کی ساہیوال میں تلاش جاری ہے‘ جس پر چیف جسٹس صاحب نے ریمارکس دیے کہ ملزمان بچی آپ کے ہاتھوں سے لے کر ساہیوال چلے گئے اور آپ کچھ نہ کر سکے۔ عدالت اس وقت اس لیے نہیں لگائی گئی کہ آپ کو مہلت دے۔ چیف جسٹس صاحب نے رات دس بجے تک بچی کی بازیابی کی ڈیڈلائن دی اور ریمارکس دیے کہ اگر رات دس بجے تک بچی بازیاب نہ ہوئی تو آئی جی پنجاب اور سی سی پی او کو ہٹا دیا جائے گا‘ عدالت وزیراعظم کو لکھے گی کہ ان افسران کو عہدے سے ہٹائیں۔ جب ازخود نوٹس کی دوبارہ سماعت ہوئی تو آئی جی پنجاب نے عدالت میں جواب جمع کرایا کہ طالبہ کو ساہیوال ڈویژن کی تحصیل عارفوالہ سے بازیاب کرا لیا گیا ہے۔ لڑکی کے باپ اور چچا کو بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس موقع پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ طالبہ کی اس کے والد سے وڈیو کال پر بات کرائی گئی ہے۔ چیف جسٹس‘ مسٹر جسٹس محمد امیر بھٹی نے طالبہ کے والد کو روسٹرم پہ بلایا اور استفسار کیا کہ آپ کی بیٹی بازیاب ہوگئی ہے؟ اس پر بچی کے والد کا کہنا تھا کہ جی! میری بیٹی بازیاب ہو گئی ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے ریمارکس دیے کہ آئی جی پنجاب اور سی سی پی او کے اقدامات قابل ستائش ہیں‘ یہ ایک بچی نہیں بلکہ پورے خاندان کا معاملہ ہے۔ ہم سب نے مل کر بچی کو بازیاب کرانے میں مدد کی‘ میں بتا نہیں سکتا کہ طالبہ کی بازیابی پر کتنا خوش ہوں۔ طالبہ کی بازیابی کے بعد طالبہ اغوا کا از خود نوٹس نوٹس نمٹا دیا گیا۔ درحقیقت یہی وہ واقعہ ہے جس نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبورکیا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر جناب چیف جسٹس چھٹی کے دن اپنا آرام خراب نہ کرتے‘ ازخود نوٹس نہ لیتے اور رات کو عدالت کے دروازے نہ کھولے جاتے تو خدا جانے وہ معصوم طالبہ اس وقت کہاں اور کس حال میں ہوتی؟
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارا ملک اس وقت فراہمیٔ انصاف کے حوالے سے کافی پست سطح پر ہے۔ ہمارے عدالتی نظام میں اصلاح کی ضرورت بھی ہو گی اور شاید ہمارا سسٹم فوری انصاف کے تقاضوں پر سو فیصد پورا بھی نہیں اترتا لیکن بحیثیت ایک کورٹ رپورٹر‘ ایک صحافی اور ایک عام شہری‘ میرا تجربہ یہی ہے کہ عدالتیں حتی الوسع انصاف کے تقاضے پورے کرتی ہیں اور سائلین کو ہر ممکن ریلیف دیتی ہیں۔ اگر یہ عدالتیں نہ ہوتیں تو پھر کس نے قانون پر عمل کرنا تھا؟ پھر تو شاید معاشرے میں غریب سے زندہ رہنے کاحق بھی چھین لیا جاتا۔ طاقتور جو چاہتا کرتا اور اسے پوچھنے والا کوئی نہ ہوتا۔ ہماری عدالتوں ہی نے ہزاروں مائوں کو ان کے لخت جگر ملوائے، سینکڑوں لاپتا افراد بازیاب کرائے، بے گناہوں کی ہتھکڑیاں کھلوائیں اور بااثر مجرموں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچایا۔ کئی بے گناہوں کو کال کوٹھڑی سے باہر نکالا اور کئی قاتلوں کو تختہ دار پر لٹکایا۔
اعلیٰ عدلیہ نے ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کوبھی درست کیا اور قانونی تقاضے پورے کرنے کی ہدایت کی۔ یہ عدالتیں ہی ہیں جنہوں نے ہزاروں غریبوں کو وڈیروں کی نجی جیلوں سے آزادی دلائی، غیر قانونی طور پر برطرف ملازمین کو نوکریوں پر بحال کرایا اور میرٹ سے ہٹ کر من پسند افراد کی ترقیوں و تعیناتیوں کے سامنے رکاوٹ کھڑی کی‘ لیکن اس کے باوجود مختلف سیاسی جماعتوں اور ان کے کارندوں کی جانب سے عدالتی فیصلوں پر تنقید کی جاتی ہے۔ جو فیصلہ کسی سیاسی جماعت یا شخصیت کے حق میں ہوتا ہے‘ اسے حق و سچ کی فتح قرار دیا جاتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ کوئی بھی فیصلہ فریقین کے حق میں نہیں ہو سکتا لہٰذا ایک فریق کو ریلیف ملتا ہے جبکہ فیصلہ دوسرے فریق کے خلاف جاتا ہے۔ یہی نظام عدل ہے ۔
ہماری تمام سیاسی جماعتوں کے منشور میں انصاف کی فراہمی اولین ترجیح کے طور پر شامل ہے لیکن اس کے باوجود انہیں وہی انصاف اچھا لگتا ہے جو ان کے اپنے حق میں ہو، اور جو فیصلہ سیاستدانوں کی مرضی کے خلاف آتا ہے‘ اس پر تنقید کرنا رواج بن چکا ہے جو انتہائی مضحکہ خیز ہے اور نظامِ انصاف کی توہین کے مترادف ہے۔ سیاسی لیڈروں کو تو عدلیہ کے احترام میں قوم کے لیے مثال بننا چاہئے اور ہر فیصلے کو کھلے دل سے تسلیم کیا جانا چاہیے۔ چونکہ عدالتوں کی طرف سے عموماً بلاجواز تنقید کا سخت نوٹس نہیں لیا جاتا اور توہین عدالت کی کارروائی کی نوبت بھی شاذ ہی پیش آتی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ عدالتی فیصلوں پر تنقید کا سلسلہ چل نکلا ہے جس کے یقینا بھیانک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ امیر اور طاقتور طبقات تو شاید پھر بھی گزارہ کر لیں لیکن غریب شہریوں کے لیے امید کی کرن یہی عدالتیں ہیں، جو وقت بے وقت کھلتی رہیں گی تو انہیں انصاف ملتا رہے گا۔