احتجاجی سیاست اور بیان بازی

سنا تھا کہ جنگ اورمحبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے اس خطے کی سیاست شاید اب جنگ سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ سیاست میں دولت، منصب، اثر و رسوخ، سرکاری وسائل، برادری ازم، لسانیت اور مذہبی کارڈ کا استعمال تو پہلے سے جاری تھا لیکن اب کھلم کھلا قومی اداروں کو بھی سیاست میں گھسیٹا جا رہا ہے جو ملک وقوم کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ اس سے اداروں کی ساکھ کو خواہ مخواہ نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ ایک ایسی روایت کی بنیاد ڈالی جا رہی ہے جس کا انجام کافی بھیانک ہو سکتا ہے۔ پہلے کبھی اداروں پر سیاست میں مداخلت کے الزامات لگتے تھے؛ تاہم زیادہ تر باتیں الزام تراشی کی حد تک ہی رہتی تھیں مگر اب تو ہمارے سیاستدان ہر بات میں قومی اداروں کو براہ راست ملوث کرنا چاہتے ہیں۔ جو چیز بھی کسی سیاسی پارٹی یا کسی سیاستدان کے مفاد کے خلاف جا رہی ہو ‘اس کا سارا ملبہ اداروں پر ڈال دیا جاتا ہے۔
یہ بدقسمتی کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے سیاستدانوں کی سوچ ایسی ہو چکی ہے کہ وہ اداروں کو بھی اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں جبکہ اپنی مرضی و مفاد کے عین مطابق فیصلے لے کر مخالفین کو اس میدان سے آئوٹ کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں یہ سب کچھ تشویش ناک ہے، وہیں امید کی ایک کرن یہ ہے کہ ہمارے ادارے بار ہا واضح کر چکے ہیں کہ وہ سیاسی معاملات میں مکمل غیرجانبدار ہیں، ان کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں اور انہیں خواہ مخواہ سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ اعلیٰ عدلیہ کئی اہم کیسز میں واضح کر چکی ہے کہ سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ میں حل کیا جائے اور عدلیہ کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانے کی کوشش نہ کی جائے۔ عدالت کا کام صرف آئین و قانون کی حفاظت کرنا ہے۔ جہاں بھی آئین، قانون اور بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہو گا‘ عدالت ان معاملات میں فیصلہ دے گی لیکن سیاسی معاملات پارلیمنٹ خود حل کرے۔پاک فوج کے ترجمان بھی ایک نہیں‘ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ادارے غیر جانبدار ہیں اور سیاستدان اپنے بیانات میں ان کے بے جا ذکر سے گریز کریں۔ فوج اور عدلیہ جیسے اہم قومی اداروں کے صاف اور واضح موقف کے باوجود چند سیاستدان اپنے معاملات پارلیمنٹ یا آئینی طریقے سے حل کرنے کے بجائے یہ چاہتے ہیں کہ ادارے ان کے مخالفین کے خلاف فیصلہ دیں۔ ''گل ودھ گئی اے‘‘ کے مصداق اب تو تمام حدود پار ہونے لگی ہیں۔ ہمارے سیاسی لیڈر چاہتے ہیں کہ پولیس جیسی فورسز ان کی منشا کے مطابق ان کے سیاسی مخالفین پر چڑھ دوڑیں، یا سیاسی پارٹیوں کی لڑائی اپنے سر لے لیں۔ شاید ہمارے سیاستدان اپنے ذاتی مفادات کے حصول میں اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ وہ ملک میں خونریزی کرانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوانے کہا ہے کہ عمران خان دوبارہ لانگ مارچ کا حکم دیں گے تو صوبے کی پولیس کو استعمال کروں گا۔ حکومت کے خلاف عدالت جا رہے ہیں، امپورٹڈ حکومت نے جو کیا‘ اس کا بدلہ ضرور لیں گے۔ دوسری جانب چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے بھی اپنے لانگ مارچ میں شریک افراد کے پاس اسلحے کی موجودگی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ ان کے کارکنوں کے پاس اسلحہ موجود ہے اور انہیں سو فیصد یقین تھا کہ ان حالات میں گولی چل جائے گی۔ ان کا کہنا تھا ''مجھے خوف لاحق ہو گیا کہ اب یہاں انتشار ہوگا، نفرت بڑھے گی، ملک کے اندر تفریق بڑھے گی اور اس کا فائدہ حکمرانوں کو ہونا تھا۔ 26 سالہ تاریخ میں ہم نے کبھی انتشار کی پالیسی نہیں اپنائی، حالات خراب ہوتے تو مخالفین نے ہمیں ہی موردِ الزام ٹھہرانا تھا‘‘۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمارے کارکنوں نے بہادری سے مقابلہ کیا‘ انہیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں، لانگ مارچ کی تیاریاں تیز کر دیں، اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہے۔ غیر قانونی گرفتاریاں کی گئیں، چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ تحریک انصاف نے آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے سپریم کورٹ میں پٹیشن ڈائر کردی ہے۔ ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں، پوری تیاری سے میدان میں اتریں گے‘ اس حوالے سے پارٹی نے درخواستیں طلب کر لی ہیں۔
جہاں تک بات پی ٹی آئی کی ضمنی الیکشن کی تیاریوں اور میدان میں اترنے کی ہے تو یہ ایک سیاسی جماعت ہونے کے ناتے اس کا آئینی و قانونی حق ہے، وہ جسے چاہے‘ پارٹی ٹکٹ دے اور الیکشن لڑے‘ لیکن مذکورہ بالا دیگر بیانات تشویشناک اور خطرناک ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب انٹیلی جنس رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ لانگ مارچ کے شرکا کے پاس اسلحہ موجود ہے اور ملک میں خونریزی ہو سکتی ہے تو خان صاحب کو اسی وقت نوٹس لینا چاہئے تھا اور اپنے کارکنان کو سختی سے منع کرنا چاہیے تھا کہ انہیں انتشار اور خونریزی کی سیاست نہیں کرنی اور اپنا احتجاج پُرامن رکھنا ہے۔ جب مظاہرین اسلحے کے ہمراہ اسلام آباد پہنچ گئے تھے تو پھر معمولی سی غلطی بھی کسی بہت بڑے سانحے کا سبب بن سکتی تھی۔ اس کے بعد اعتراف یا افسوس کرنے سے کیا ہو سکتا تھا؟ کیا کسی حادثے یا کسی سانحے کے بعد چند معذرت خواہانہ جملے غلطی یا غفلت کا مداوا کر سکتے ہیں؟
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان ایک طویل سیاسی جدوجہد کے بعد اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے، ان کاماضی پُرامن جدوجہد پر محیط ہے لیکن حالیہ واقعات ملک و قوم کے لیے سخت نقصان دہ ہیں اور ان سے خود خان صاحب کی سیاست بھی داغدار ہو رہی ہے۔ اب بھی وقت ہے‘ انہیں چاہئے کہ خیبر پختونخوا حکومت کے بیان کا سختی سے نوٹس لیں، اس بات کی کھلے عام تردید کریں کہ وہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے صوبائی پولیس اور انتظامیہ کو ہرگز استعمال نہیں کریں گے کیونکہ اس سے ملک میں انتشار و افتراق کو ہوا ملے گی اور صوبائیت کا زہر‘ جو پہلے ہی ملک و قوم کے رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے‘ مزید پھیلے گا جس کے انجام کار میں ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
الحمدللہ ہمارے پاس دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسیز ہیں۔ ہمارے اداروں کے پاس پہلے سے اطلاعات موجود تھیں کہ لانگ مارچ میں شریک چند افراد کے پاس اسلحہ موجود تھا، حکومت کو چاہئے کہ پی ٹی آئی کے پرامن لانگ مارچ میں اسلحہ لانے والے اور ملک میں خونریزی کی ناپاک خواہش رکھنے والے عناصر کی فہرست مرتب کرکے ایسے عناصر کو ٹھوس شواہد کی بنیاد پر گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دے اور انہیں عبرت کا نشان بنائے تاکہ آئندہ کسی کو سیاسی احتجاج کی آڑ میں فساد اور انتشار پھیلانے کی جرأت نہ ہو سکے۔ احتجاج کسی بھی فرد یا جماعت کا آئینی، قانونی اور جمہوری حق ہے لیکن احتجاج کا مطلب پُرامن طریقے سے اپنی بات کو ریکارڈ پر لانا ہے۔ اپنی ہی ریاست، اداروں یا شہریوں کے خلاف طاقت کا استعمال کسی بھی طور جائز نہیں اور نہ ہی اس کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ اس سے پہلے بھی بڑے بڑے لانگ مارچ ہوئے، خود پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں پُرامن طریقے سے ایک سو چھبیس دن تک دھرنا دیا۔ آئندہ بھی پُرامن احتجاج سے کسی کو روکا نہیںجا سکتا لیکن احتجاج کی آڑ میں انتشار پھیلانا اور قومی اداروں کو سیاست میں گھسیٹنا ملک کو تباہی کے گڑھے میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ ملک میں امن و امان قائم رکھنا اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے‘ جسے احسن طریقے سے نبھانا حکمرانوں کا امتحان ہوتا ہے۔ سیاسی قائدین جب اور جہاں مرضی احتجاج کریں لیکن خدارا اپنے سیاسی و ذاتی مفادات کے لیے ملک و قوم کی سلامتی کو دائو پر نہ لگائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں