یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مسلمانوں کے لیے دنیا میں سب سے زیادہ عزیز اپنے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیﷺ کی ذاتِ اقدس ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دشمنانِ اسلام جب بھی امتِ مسلمہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا چاہتے ہیں تو وہ ہمارے پیارے آقاﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کی ناپاک جسارت کرتے ہیں، لیکن جس نے بھی آپؐ کی شان میں اہانت کی جسارت کی تو پھر اس نے ایک پَل کا بھی چین نہ پایا۔ کسی کو غازی علم دین شہید نے واصل جہنم کیا تو کسی کیلئے اس کی زندگی ہی جہنم بن کر رہ گئی۔ روزِ اول سے لے کر آج تک‘ جو بھی توہین کا مرتکب ہوا یا خاکے بنا کر گستاخی کرنے کی جسارت کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے نشان عبرت بنا ڈالا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''بے شک آپ کا دشمن ہی بے نام ونشان رہے گا‘‘۔ (سورۃ الکوثر: 3)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب غزوہ احد کا دن تھا تو اہلِ مدینہ سخت تنگی و پریشانی میں مبتلا ہوگئے (کیونکہ) انہوں نے (غلط فہمی اور منافقین کی افواہیں سن کر) سمجھا کہ نبی کریم حضرت محمد مصطفیﷺ کو (العیاذ باللہ) شہید کر دیا گیا ہے، یہاں تک کہ مدینہ منورہ میں چیخ و پکار کرنے والی عورتوں کی کثیر تعداد (جمع) ہو گئی۔ انصار کی ایک عورت باہر نکلی اور اپنے بیٹے، باپ، خاوند اور بھائی (کی لاشوں کے پاس) سے گزری۔ (راوی کہتے ہیں:) مجھے یاد نہیں کہ اس نے سب سے پہلے کس کی لاش دیکھی۔ پس جب وہ ان میں سے سب سے آخری لاش کے پاس سے گزری تو پوچھنے لگی: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: تمہارا باپ، بھائی، خاوند اور تمہارا بیٹا ہے (جو شہید ہو چکے ہیں)۔ وہ کہنے لگی: (مجھے صرف یہ بتائو کہ) رسول اللہﷺ کس حال میں ہیں؟ لوگ کہنے لگے: آپﷺ تمہارے سامنے موجود ہیں‘ یہاں تک کہ اس عورت کو حضور نبی اکرمﷺ تک پہنچا دیا گیا تو اس عورت نے آپﷺ کے کرتا مبارک کا پلو پکڑ لیا اور عرض کیا: ''یا رسول اللہﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! جب آپ سلامت ہیں تو مجھے اور کوئی دکھ نہیں‘‘ (یعنی آپﷺ پر میرا باپ، بھائی، خاوند اور بیٹا‘ سب کچھ قربان)۔ (معجم الاوسط لطبرانی، مجمع الزوائد)
حضرت فاطمہ بنت عتبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے (قبولِ اسلام کے بعد) عرض کیا: یا رسول اللہﷺ خدا کی قسم! مجھے آپ کے خیمے سے زیادہ کوئی خیمہ محبوب نہیں، اللہ تعالی اسے (ہمیشہ) قائم رکھے اور اس میں برکت نازل فرمائے، اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اور اسی طرح اللہ کی قسم! تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، یہاں تک کہ میں اسے اس کی اولاد اور اس کے (ماں) باپ سے بھی محبوب تر نہ ہو جائوں‘‘۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم) عشق رسولﷺ ہی دنیا کے ہر مسلمان (مومن) مرد اورعورت کے ایمان کی بنیاد ہے۔ بقول شاعر:
جو ہو نہ عشقِ مصطفیؐ تو زندگی فضول ہے
کفار کی جانب سے گستاخی کے واقعات پر امت مسلمہ میں ہمیشہ شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس خطے میں بھارت واحد ملک ہے جہاں اقلیتوں کی مذہبی آزادی کو ریاستی جبر سے دبایا جاتا ہے حتیٰ کہ ان کی جان و مال بھی محفوظ نہیں۔ بھارت میں مسلم کش فسادات سے لے کر مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے تک کے واقعات عام ہیں۔ گزشتہ دنوں بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کی خاتون ترجمان نوپور شرما نے ایک ٹی وی پروگرام میں اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کے حوالے سے گستاخانہ گفتگو کی جس پر بھارت سمیت بیرونِ ملک شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے جبکہ عرب ممالک میں بھارت کے بائیکاٹ کی مہم بھی چل پڑی ہے۔ مصر، سعودی عرب، قطر اور کویت میں ''بائیکاٹ انڈیا‘‘ مہم زوروں پر ہے۔ کئی ممالک میں شاپنگ مالز میں بھارتی اشیا کو الگ کر دیا گیا ہے۔ اندرونِ بھارت بھی گستاخانہ بیان پر مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ بھارتی شہروں میں احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے بعد پولیس نے یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے 1500 مسلم شہریوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا جبکہ 36 افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔
کانپور میں احتجاج کی کال پر سخت سکیورٹی انتظامات دیکھنے میں آئے جبکہ معروف بھارتی شہر بریلی میں کرفیو نافذ کر دیا گیا، کانپور سمیت کئی بھارتی شہروں میں ہنگاموں کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ پوری دنیا‘ بالخصوص عرب ممالک میں شدید ردعمل کے بعد بھارت کی حکمران جماعت اب گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ مسلمانوں کی جانب سے شدید ردعمل اور غم و غصے کے بعد بی جے پی نے نوپور شرما کو ترجمان کے عہدے سے ہٹاتے ہوئے اس کی پرائمری ممبر شپ کو معطل کر دیا ہے جبکہ ایسی ہی جسارت کرنے والے ایک اور رہنما نوین جندال کو بھی پارٹی سے نکال باہر کیا گیا ہے ۔ نوپور شرما اور نوین جندال نے گزشتہ روز اپنا بیان واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا ان کا کبھی بھی ارادہ نہیں تھا لیکن یہ معاملہ یہاں تھمتا نظر نہیں آ رہا کیونکہ بی جے پی کے کئی دیگر رہنما اور کارکنان کھلے عام نوپور شرما اور نوین جندال کی حمایت کا اعلان کر رہے ہیں۔
پاکستان میں بھی بھارتی سیاستدانوں کی جانب سے گستاخانہ بیانات کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ ریاستی سطح پر بھی اس واقعے پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے جبکہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ تشدد پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ بھارت میں بسنے والے مسلمان بھی ایسے بیانات پر شدید غصے میں ہیں، گستاخانہ بیانات سے پاکستانی عوام اور مسلم امہ کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے عالمی برادری سے بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے حقوق کی خلاف ورزی بھارت میں معمول بن چکا ہے‘ انتہا پسندوں کو سکیورٹی فورسز اور ریاست کی مکمل سرپرستی حاصل ہے‘ انتہا پسند ہندو مسلمانوں کو دیوار سے لگا رہے ہیں۔صدرِ پاکستان، وزیراعظم، عسکری قیادت، وزیر خارجہ اور وزیراطلاعات سمیت تمام مذہبی و سیاسی رہنمائوں نے توہین آمیز بیانات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا کہنا ہے کہ توہین آمیز بیان دینے والوں کی پشت پناہی کرنے والوں کا احتساب کیا جائے۔ سعودی وزارتِ خارجہ نے بھی اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے جبکہ پاکستان، قطر، کویت اور ایران سمیت کئی ممالک میں بھارتی سفیر کی دفتر خارجہ میں طلبی کی گئی اور سخت احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔ پاکستان سمیت عرب ممالک میں ''بائیکاٹ انڈین پروڈکٹس‘‘ مہم چل رہی ہے۔ ٹویٹر پر اس وقت بائیکاٹ انڈین پروڈکٹس کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ سعودی عرب، بحرین اور کویت سمیت متعدد مسلم ممالک میں بھارت کے معاشی بائیکاٹ کی مہم کے پیشِ نظر سپر سٹورز سے احتجاجاً بھارتی اشیا ہٹا دی گئی ہیں۔
ختم نبوت اور شانِ رسالت کا تحفظ یقینا ہمارے ایمان کا سب سے بنیادی جُز ہے اور یہ ہم مسلمانوں کی وہ ''ریڈ لائن‘‘ ہے جسے کراس کرنے کی اجازت کبھی نہیں دی جا سکتی۔ بھارتی رہنمائوں کی جانب سے گستاخی پر صرف مذمت کا ٹرینڈ چلانے کے بجائے حکومت کو بھرپور طریقے سے بھارت کو اس کا جواب دینا چاہیے اور علامتی طور پر بھارتی سفیر کو ملک بدر کیا جائے اور ہر قسم کی تجارت ختم کرنے کا اعلان کر کے انتہاپسندوں کی سرپرستی کرنے والی مودی حکومت کو سخت پیغام دیاجائے تاکہ آئندہ کسی کو ایسی جرأت نہ ہو سکے۔ امت مسلمہ کو بھی اسلامو فوبیا کے خلاف متحد ہوکر ٹھوس موقف اپنانا ہوگا۔ بھارت کو مجبور کیا جائے کہ گستاخی کرنے والوں کی پارٹی رکنیت کی معطلی کافی نہیں بلکہ انہیں امت مسلمہ کے جذبات مجروع کرنے پر قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسی ناپاک جسارت کا سوچ بھی نہ سکے۔